ہو جائے ایک پوسٹ مارٹم؟
یہ تو ہونا ہی تھا، میچ سے قبل ہی جس طرح کی اطلاعات آ رہی تھیں اس سے یہ بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ ’شاہین‘ کیا گل کھلانے والے ہیں۔ فیلڈنگ کوچ سے لڑائی تو کبھی کھلاڑیوں کی ہیڈ کوچ سے محاذ آرائی، گراؤنڈ سے باہر کارنامے اور جرمانے، یہ سب وہ کہانیاں ہیں جو ہم گذشتہ ایک سے ڈیڑھ ہفتے میں سنتے رہے۔
ہندوستان کے خلاف میچ بہت سی کہانیوں کی ترجمانی کر چکا تھا جبکہ رہی سہی کسر ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں پوری ہو گئی۔
جب میچ کے پانچویں ہی اوور میں ناصر جمشید نے ڈیوین اسمتھ کا کیچ ڈراپ کیا تو یہ پورے میچ کا احوال سنانے کے لیے کافی تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے اور ہوا بھی وہی۔ عمر اکمل نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے کیچ چھوڑا سو چھوڑا لیکن اس مرتبہ لالا بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا نہ بھولے اور دو کیچ گرانے کا شرف حاصل کیا۔ (ایسا اتفاق آفریدی کے 19 سالہ کیریئر میں شائد ہی کسی نے دیکھا ہو) اور پھر محمد عرفان کیوں کسی سے پیچھے رہتے۔ تو گویا پانچ مرتبہ ہمارے ’شاہینوں‘ نے حریف کھلاڑیوں کو پویلین واپس جانے سے باز رکھا۔
میچ میں پاکستانی ٹیم کی باڈی لینگویج اور حالت دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی تیراکی نہ جاننے والے کسی شخص کو ہاتھ پاؤں باندھ کر پانی کی بے رحم موجوں کے حوالے کر دیا گیا ہو۔
پڑھیے: شہریار صاحب! جواب چاہیے
مصباح نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا درست فیصلہ کیا لیکن شائد وہ بھول گئے کہ چاہے وکٹ جو بھی ہو، باؤلنگ تو کرنی ہی پڑتی ہے۔ لیکن یہاں تو ایسا لگا کہ جیسے گلی محلے کے باؤلرز کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ ایک ایسی وکٹ جہاں دنیا کے کسی بھی بلے باز کو پریشان کیا جا سکتا تھا، ہمارے باؤلرز شارٹ پچ اور آڑھی ترچھی گیندیں کر کے حریف بیٹسمینوں کو سیٹ ہونے کا موقع فراہم کرتے رہے جبکہ ساتھ ساتھ فیلڈرز کی عنایتیں بھی جاری رہیں جو یہ بات بتانے کے لیے کافی تھا کہ ہماری ٹیم ماضی کی 'تابندہ روایات' کو برقرار رکھتے ہوئے بغیر کسی گیم پلان کے میدان میں اتری ہے۔
پھر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ ویسٹ انڈیز ٹیم نے ایک یونٹ کی طرح کھیلتے ہوئے پہلے سے تتر بتر پاکستانی ٹیم کے خلاف ورلڈ کپ میں اپنا سب سے بڑا اسکور بنا ڈالا۔
جب بیٹنگ شروع ہوئی تو ہمیشہ کی طرح 300 رنز کا ہدف دیکھ ہمارے بلے بازوں کی ٹانگیں کپکپانے لگیں، جس کا نمونہ میدان میں صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے جیروم ٹیلر، جیسن ہولڈر اور آندرے رسل کے بجائے یہ ٹیم گارنر، مارشل، ہولڈنگ، والش، یا ایمبروز جیسے خطرناک باؤلنگ اٹیک کا سامنا کر رہی ہو۔ کھلاڑی جس تیزی سے پویلین سے برآمد ہوتے اس سے کہیں زیادہ تیزی سے پویلین کی راہ لیتے نظر آئے۔
اب ظاہر ہے جو ٹیم ایک کے ہندسے پر چار بیٹسمین گنوا بیٹھے، وہ جیتنے کی اہل تو ہرگز نہیں ہو سکتی، خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ آٹھ بیٹسمین ڈبل فِگر میں بھی داخل ہونے کی زحمت گوارا نہ کریں، وہ بھی ایک ایسے باؤلنگ اٹیک کے خلاف جس پر آئرلینڈ جیسی ٹیم نے تقریباً اتنا ہی مجموعہ باآسانی 46ویں اوور میں حاصل کر لیا تھا۔
جس جیروم ٹیلر کے خلاف ہمارے تین کھلاڑی بغیر کھاتا کھولے پویلین لوٹے، ان کے خلاف آئرش بلے بازوں نے نو اوورز میں 71 رنز بٹورے۔
ورلڈ کپ میں دو میچ ہم ہار چکے ہیں اور صورتحال یہی رہی تو مزید کی بھی قوی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن آخر ایسا ہوا کیوں؟ کیا میڈیا رپورٹس سچی ہیں؟ کیا واقعی کچھ چل رہا ہے؟
جب شاہد آفریدی جیسا فیلڈر دو سیدھے کیچ چھوڑے اور بلے باز ’تو چل میں آیا‘ کے مصداق آؤٹ ہونے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ یقیناً ٹیم اور مینجمنٹ میں کچھ تو گڑبڑ ہے۔
مزید پڑھیے: یونس خان! بس اب بہت ہو چکا
ہو سکتا ہے کہ کچھ شائقین اس شکست پر دکھ اور حیرت کی ملی جلی کیفیت کا شکار ہوں، لیکن یہ کچھ عجب نہیں کیونکہ جو ملک چار سال ورلڈ کپ کے لیے ٹیم تیار کرے اور پھر عین موقع پر چار سال کی کارکردگی اور ٹیم کے کامبینیشن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 'ٹیم کے وسیع تر مفاد میں' چند سینئرز کو نوازنے کے لیے فواد عالم جیسے حقدار کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کر دے، تو ایسی ٹیم کے ساتھ ایسا ہونا کچھ اچھنبے کی بات نہیں۔
ہمارے کچھ سابق کھلاڑی ہر خرابی کا ذمہ دار کپتان مصباح الحق کو ٹھہراتے ہیں لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ اگر مصباح کی کارکردگی کو ہٹا دیا جائے تو پاکستان گذشتہ سالوں میں حاصل کی گئی متعدد فتوحات سے محروم رہتا۔
اصل مسئلہ وہی ہے جو ہمیشہ سے تھا، ہم آج تک نام نہاد سینئر کھلاڑیوں کے ٹیم اور بورڈ حکام پر اثرورسوخ سے جان چھڑانے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو فواد عالم ضرور ٹیم کا حصہ ہوتے۔
کیا کوئی اس سوال کا جواب دے گا کہ مصباح کے بعد گذشتہ سالوں میں سب سے کامیاب بلے باز فواد عالم کو کس بنیاد پر ٹیم سے باہر کیا گیا؟ ڈومیسٹک اور آسٹریلین لیگ میں شاندار کارکردگی کے باوجود شعیب ملک کو ٹیم کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ اگر پنٹنگولر کپ کی کارکردگی کو زیرِ غور لانا ہی نہیں تھا تو پھر کروڑوں روپے خرچ کر کے اس ایونٹ کے انعقاد کا مقصد کیا تھا؟
مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ جب تک ہم پاکستان کرکٹ بورڈ کا صحیح معنوں میں پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اس میں حقیقی تبدیلیاں نہیں لائیں گے، تب تک آپ کسی بھی اسٹار کھلاڑی کو ٹیم میں لے آئیں اور کسی کو بھی کوچ بنا دیں، کچھ نہیں ہونے والا۔
اس کی سب سے بڑی مثال ڈیو واٹمور ہیں۔ وہی ڈیو واٹمور سری لنکا، بنگلہ دیش اور زمبابوے کے کوچ بنتے ہیں تو اس ٹیم میں نئی روح پھونک دیتے ہیں لیکن پاکستان آ کر وہ بھی بیکار نظر آتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے۔ کرکٹ ہاکی کی طرح زبوں حالی کا شکار نہیں ہوا۔ حالانکہ اسی راہ پر رواں دواں ہے، لیکن صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کرکٹ بورڈ اور ٹیم میں مکمل پوسٹ مارٹم کی صورت میں ہم اس خراب صورتحال سے باہر نکل سکتے ہیں ورنہ پھر اگلا ورلڈ کپ ہو گا اور پھر ایسی ہی شکست پر شکست۔
جانیے: شکست کا ذمہ دار پی سی بی ہے
لیکن اس سب کے باوجود مجھے آج ایک سابق کھلاڑی کا تبصرہ سن کر اس وقت شدید جھٹکا لگا جب وہ کچھ یوں گویا ہوئے۔۔۔۔ '1992 کے ورلڈ کپ میں بھی یہی صورتحال تھی۔ ہم اپنے ابتدائی میچز ہار گئے تھے لیکن پھر ردھم بنا اور ہم نے ورلڈ کپ جیت لیا۔ ابھی ٹیم کو ایک جیت درکار ہے جس کے بعد ورلڈ کپ میں شاندار کم بیک کرے گی'۔
دو دفعہ تو ہم جیسے تیسے دعاؤں اور قسمت کے سہارے ورلڈ چیمپیئن بن گئے، لیکن ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ محض دعاؤں اور دعوؤں کے بل بوتے پر ہر دفعہ ورلڈ کپ نہیں جیتا جا سکتا۔ صرف پریس کانفرنسوں میں ہی نہیں، بلکہ گراؤنڈ میں بھی کھیلنا پڑتا ہے، وہ بھی صرف کرکٹ۔
اسامہ افتخار ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔