بیوروکریسی: خدمت عوام کی یا اپنی؟
اکثر سنا کرتے تھے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، لیکن اگر پاکستان کی بیوروکریسی کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ دل یہاں بھی نہیں ہوتا۔ جیسے ہی بیوروکریسی کی مقدس گائے کے بارے میں زبان کھولنے کی کوئی جسارت کرتا ہے تو بیوروکریٹس اس پر پل پڑتے ہیں۔ میں چونکہ گھر کا بھیدی بھی ہوں اور خوفناک کرپشن، نااہلی اور بد انتظامی کی وجہ سے بیوروکریسی کا ناقد بھی ہوں اس لیے مجھے ان کے ردعمل کا اچھی طرح سے اندازہ ہے۔
صرف بیوروکریٹ ہی کیوں، ہر شعبے کا کم و بیش یہی حال ہے، نہ صرف مندرجہ بالا صفات کے حوالے سے، بلکہ تنقید کی صورت میں ردِعمل کے حوالے سے بھی۔ اگر میڈیا والوں کے لیے تلخ بات منہ سے نکل جائے تو میڈیا والے حضرات بھڑ کے چھتوں کی طرح پیچھے لگ جاتے ہیں۔ ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں کو آئینہ دکھانا ان کا فرض ہے لیکن اگر کوئی دوسرا ان کو آئینہ دکھا دے تو پھر تماشہ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ سیاستدان البتہ اس طرح کی تنقید کے زیادہ عادی ہیں، وہ کہتے ہیں بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ اور باقی تو الاّ ماشاء اللہ ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں بات کرنے کی اجازت ہی نہیں حالانکہ وہاں بھی ایسے ایسے گل کھلتے ہیں کہ چمن میں خوب دھوم مچی ہے۔
اردو زبان میں ’’کالی بھیڑوں‘‘ کی ایک ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن میرا اردو دانوں سے مطالبہ ہے کہ اس ترکیب کو اب متروک قرار دے دینا چاہیے کیونکہ اب اس ترکیب کا استعمال معروضی حالات سے میل نہیں کھاتا۔ ہو سکتا ہے کہ پچھلے زمانے میں ہر شعبہ میں چند ایک، اکا دکا لوگ غلط کام کر کے پورے شعبے کو بدنام کرتے تھے، لیکن اب معاملہ الٹ ہے۔ اب بہت سارے لوگ مل کر اکا دکا لوگوں کو بدنام کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا کہ وکیلوں کی ایک بڑی اکثریت نے باقیوں کو بدنام کر رکھا ہے، کم وبیش یہی حال دوسرے شعبوں کا بھی ہے۔ جس شعبے پر نظر دوڑائیں، سرپیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ اپنے ایک گذشتہ کالم میں نئی ترکیب ’’سفید بھیڑیں‘‘ متعارف کروائی تھی۔ اس کا استعمال اس طرح کیا جا سکتا ہے ’’صحافت کی بہت سے سفید بھیڑوں نے باقیوں کو بدنام کررکھا ہے‘‘۔ ’’بہت سی سفید بھیڑوں نے سیاستدانوں کو بدنام کر رکھا ہے۔‘‘ "بیورو کریسی کی بہت سی سفید بھیڑوں نے اپنے قبیل کو بدنام کر دیا ہے۔"
گذشتہ دنوں پولیس کرپشن کا ذکر چھڑا تو ایک اہلکار گلہ کرنے لگا کہ پولیس اتنی کرپٹ نہیں ہے لیکن اس کی کرپشن دوسروں کو نظر آ جاتی ہے ۔ پولیس افسران یعنی پی ایس پی گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ تھانہ کلچر نے پولیس کے محکمے کو بدنام کر رکھا ہے، ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پولیس کے سارے مسائل کی وجہ نیم خواندہ، نیم تجربہ کار، بدنیت، کرپٹ اور ظالم تھانے دار اور اہلکار ہیں۔ ایک تھانے دار سے پولیس کرپشن پر بات ہوئی تو اس کا تجزیہ تھا کہ اگر ایس پی اور اس سے اوپر والے افسران کو کسی طرح ہدایت مل جائے تو تھانہ کلچر بڑی حد تک تبدیل ہو جائے۔
بادی النظر میں بات عجیب معلوم ہوتی ہے لیکن اس کے دلائل میں وزن تھا۔ مثلاً پولیس کے لیے جو تھوڑے بہت فنڈز حکومت کی طرف سے ملتے ہیں، ایس پی اور اس کے اوپر والے نیک پروین قسم کے افسر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ہر دوسرے کیس میں سفارش اور رشوت کی وجہ سے تفتیش بدلنے کے لیے یہی پی ایس پی افسران تھانے داروں کو تنگ کرتے ہیں، اگر کسی طرح تفتیش ٹھیک ہو بھی جائے تو عدالتوں میں گواہی کے وقت گواہی میں ملزموں کو فائدہ دینے کے لیے دباؤ بھی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
تھانوں کو افرادی قوت اور گاڑیوں کی سخت کمی کا سامنا ہے لیکن ہمارے پی ایس پی حضرات انہی دو چیزوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ خلافِ قانون جوانوں کی بڑی تعداد کو بے دردی سے ذاتی استعمال میں لگا لیتے ہیں حالانکہ افرادی قوت کی کمی کے باعث تھانے کے ایک سب انسپکٹر کے عہدے کے ڈیوٹی افسر کے ذمے اتنی زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ کوئی سپرمین بھی نہیں نبھا سکتا۔
اور گاڑیوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ سینئر پی ایس پی ہی کیا جس کے ذاتی استعمال سے کوئی سرکاری گاڑی محفوظ رہے۔ لائنوں اور کانسٹیبلری میں ’’پیکج سسٹم‘‘ چلتا ہے۔ جو جوان پیکج سسٹم کی سہولت سے فائدہ اٹھانا چاہے۔ اپنی تنخواہ سے آٹھ سے دس ہزار انچارج ایس پی کو دے اور گھر بیٹھے تنخواہ لیتا رہے۔ بعض صورتوں میں تو ان کے اے ٹی ایم کارڈز بھی ایس پی اپنے پاس رکھتے ہیں۔
بیورو کریسی کا ایک بابو گروپ ہے جو پہلے ڈی ایم جی ہوا کرتا تھا۔ اب اس نے اپنا نام پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس رکھ لیا ہے۔ ان کی غلط فہمی ہے کہ وہ بہت قابل ہیں اور پاکستان کو درحقیقت وہ چلا رہے ہیں۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس کو اگر چلانا کہتے ہیں تو یہ کوئی فخر کی بات نہیں شرمندگی کی بات ہے۔ پاکستان کے سارے تباہ حال اداروں کے پیچھے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی بابو کا ہاتھ ضرور ہو گا۔ ان کی پرفارمنس تو آپ سب جانتے ہیں اور بین الاقوامی سروے بھی اس پر روشنی ڈالتے رہے ہیں۔ اس گروپ کی سفید بھیڑوں کی کرپشن کی داستانیں بھی کانوں کو ہاتھ لگانے والی ہیں۔
آڈٹ اور اکاؤنٹس گروپ کے کارنامے تو اتنے زیادہ ہیں کہ ضبطِ تحریر میں لانا مشکل کام ہے۔ دو ذاتی تجربے بیان کروں گا۔ بیوروکریسی سے مستعفی ہونے پر فیصل آباد سے میرے کچھ واجبات بقایا تھے۔ اپنی بساط بھر کوشش کر لی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ میری ایک ساتھی افسر کے انتہائی قریبی رشتہ دار ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس افسر تھے، انہوں نے بھی کوشش کر کے دیکھ لی۔ اپنے آڈٹ اور اکاؤنٹس گروپ کے بہت سے دوستوں کے ذریعے بھی کوشش کر کے دیکھ لی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ سب کا کہنا تھا کہ ’’دیسی طریقہ‘‘ ہی کام آئے گا۔ اس پر میرے اندر کا حاتم طائی بھی جوش میں آگیا، اور میں نے اپنے واجبات حکومتِ پنجاب کو معاف کر دیے۔
دوسرا واقعہ اے جی پی آر اسلام آباد کا ہے۔ میرے مرحوم ماموں کسی زمانے میں اسلام آباد میں ملازم تھے، بیواؤں کی پنشن میں وقتاً فوقتاً انکریمنٹ لگتے رہے ہیں۔ ان انکریمنٹس کو پنشن میں شامل کروانے کے لیے ان کی بیوہ ہر طرح کی کوشش کر چکیں لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ اے جی پی آر اسلام آباد میں تعینات کئی ایک افسران بھی کوشش کر چکے لیکن انہوں نے بھی’’دیسی طریقے‘‘ کا ہی مشورہ دیا۔
فارن سروس کرپشن کے حوالے سے نسبتاً بہتر ہے لیکن ہمارے معیار کے مطابق نسبتاً بہتر بھی سوچیں کتنا بہتر ہو گا۔ اگر کوئی معجزہ ہو جائے اور صرف چند ایک بڑے سفارتخانوں کا کسی اچھی فرم سے اسپیشل آڈٹ کروا لیا جائے تو مجھے یقین ہے آپ کو زیادہ مایوسی نہیں ہو گی۔ پھر گاڑیوں اور فنڈز کے بے دریغ ذاتی استعمال کو تو کوئی سرپھرا ہی بُرا خیال کرتا ہو گا۔ تعیناتی کے دوران جتنے بھی اہم ذاتی دوست اور وی آئی پی پاکستانی باہر جاتے ہیں، محدود سرکاری وسائل کا سارا رُخ ہمارے سفارتکار ان کی طرف موڑ دیتے ہیں۔
ہر ہفتے میڈیا میں ایک خبر آتی ہے کہ ایف بی آر کے بہت سے افسران، خصوصاً سینئر افسران نے اپنے ویلتھ گوشوارے جمع کروانے سے انکار کر دیا ہے۔ ایف بی آر نے اس سلسلے میں جتنے بھی نوٹس جاری کیے ہیں، انکم ٹیکس اور کسٹمز کے ان ’’ایماندار‘‘ افسران نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا کام دوسروں کے ویلتھ گوشوارے جمع کرنا اور مال بنانا ہے نہ کہ اپنے گوشوارے جمع کروانا اور بنے بنائے مال کو خطرے میں ڈالنا۔
ایف بی آر کے کچھ افسران یہ بھی گلہ کرتے ہیں کہ آپ کو صرف ہم ہی نظر آتے ہیں، باقی گروپس کے بھی بہت سے افسران نے ویلتھ گوشوارے جمع کروانے سے انکار کر دیا ہے۔ نیب کے ادارے کو ایک بہت ’’اچھی‘‘ شہرت والے چیئرمین کا ٹیکہ لگا کر سلا دیا جاتا ہے اور بیوروکریسی اس دوران حسبِ توفیق بغیر کسی خوف و خطر کے قوم کی ’’خدمت‘‘ میں مصروف رہتی ہے۔
کسی بھی اچھی حکومتی اسکیم کا فائدہ عوام تک منتقل نہ ہونے دینا بھی اسی بیوروکریسی کا خاصہ ہے۔ اس سب کے بعد خود کو عوام کا خدمت گذار کہلوانے کے بجائے ہونا تو یہ چاہیے کہ صاف صاف کہہ دیا جائے کہ ہم کوئی خدمت کرنے کے لیے آئے ہیں کیا؟ جب بانسری رہے گی ہی نہیں، تو کوئی بجانے کو بھی نہیں کہے گا۔
عدنان رندھاوا ایک فری لانس کالم نگار، سابق سفارتکار اور عام آدمی پارٹی پاکستان کے بانی چئیرمین ہیں، اور وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔