نوکری بچانی ہے تو ٹیسٹ پاس کریں
پچھلے دنوں میری ملاقات ایک دوست سے ہوئی جو کچھ پرشان نظر آ رہا تھا۔ میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو مجھے جواب دیے بغیر وہ پھٹ پڑا اور کہنے لگا: پی ٹی آئی حکومت نے پھر سے بکواس شروع کیا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ بھائی کیا ہوا، ایسا کیا کیا پی ٹی آئی حکومت نے جو آپ اتنے پریشان ہو رہے ہو؟ تو صاحب نے فرمایا کہ تمام اساتذہ سے این ٹی ایس ٹیسٹ لیا جائے گا اور جو فیل ہوں گے ان کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کر دیا جائے گا۔
میں نے اپنے دوست سے مذاقاً کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے۔ اگلے دن مجھے جگہ جگہ لوگوں کے منہ سے این ٹی ایس کا نام سننے کو ملا۔ اسی دن اخبار میں دیکھا کہ خیبر پختونخواہ حکومت نے اساتذہ سے این ٹی ایس ٹیسٹ لینے اور ناکام اساتذہ کو فارغ کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اخباری بیان دیکھ کر مجھے بذاتِ خود بہت خوشی ہوئی کہ اگر میرٹ سے لوگ آئیں گے تو نظام خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔
پڑھیے: گوسڑو ماستر تعلیم کے لیے خطرہ
صوبائی حکومت کے اس بیان کے مطابق صوبے بھر میں تعینات ایک لاکھ 24 ہزار اساتذہ کی تنخواہوں پر سالانہ 93 ارب روپے خرچ ہورہے ہیں اور نتائج تاحال مایوس کن ہی ہیں۔ خیبر پختونخواہ حکومت نے تمام اساتذہ سے این ٹی ایس ٹیسٹ لینے اور فیل شدہ اساتذہ کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کرنے کی ماہرین کی تجویز پر سنجیدگی سے غور شروع کر دیا ہے۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں تعلیمی ماہرین اور ریٹائرڈ افسران مدد کریں گے۔
پچلے کئی سالوں سے خیبر پختونخواہ حکومت سرکاری اسکولوں میں معیاری تعلیم بہتر بنانے کی غرض سے مختلف اصلاحات اور اقدامات کر رہی ہے لیکن بھر بھی سرکاری اسکولوں کا معیارِ تعلیم مایوس کن حد تک گرتا چلا جارہا ہے۔ اس دفعہ اساتذہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور مستقبل کے تقاضوں کو ذہن میں رکھ کر ماہرین نے مختلف تجاویز دی ہیں جن میں این ٹی ایس ٹیسٹ بھی شامل ہے اور ساتھ ساتھ یہ بات بھی سامنے اگئی کہ تمام اساتذہ سے اُن مضامین میں ٹیسٹ لیا جائے گا جو وہ اسکول میں بچوں کو پڑھاتے ہیں۔
اس بیان کے اخبارات میں شائع ہوتے ہی ایک ہلچل مچ گئی اور تمام اساتذہ حیران و پریشان ہو گئے کہ اب کیا ہوگا؟ ان کی پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاید انہیں اس ٹیسٹ کے بارے میں اتنی معلومات ہی نہیں ہیں۔
مزید پڑھیے: کیا تعلیم کا مقصد صرف نوکری ہے؟
نیشنل ٹیسٹنگ سروس (NTS) ایک غیر سرکاری ادارہ ہے اور اس ادارے کا مقصد ایک شفاف طریقے سے ٹیسٹ لے کر میرٹ کو برقرار رکھنا ہے۔ ملک میں بھرتیوں کو زیادہ شفاف بنانے کے لیے 2007 میں اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ این ٹی ایس بالکل ایجوکیشنل ٹیسٹنگ سروس (ETS) کو مد نظر رکھ کر بنائی گئی تھی جو کہ امریکہ میں کئی سالوں سے مختلف امتحانات لینے کے فرائض انجام دے رہی ہے۔ یہ ادارہ شروع میں صرف نیشنل ایپٹی ٹیوڈ ٹیسٹ (NAT) اور گریجویٹ اسیسمینٹ ٹیسٹ (GAT) پر ہی کام کرتا تھا لیکن آج کل کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کے چوکیدار سے لے کر ڈائریکٹر تک کی بھرتیوں کی ذمہ داری این ٹی ایس پر ڈال دی گئی ہے، اور ابھی تک این ٹی ایس نے کسی کو تنقید کرنے کا موقع نہیں دیا ہے۔
حکومت کی اس تجویز سے بہت ہی کم اساتذہ خوش ہوں گے۔ اور باقیوں میں کمی ٹیلنٹ کی نہیں بلکہ اعتماد کی ہے۔ جن اساتذہ سے میں نے پڑھا ہے اور جن کو میں جانتا ہوں، مجھے یقین ہے کہ وہ اس ٹیسٹ کو ضرور پاس کریں گے، اور اگر ان میں کسی چیز کی کمی ہے تو وہ اعتماد ہے۔
جانیے: سندھ میں تعلیم کا رابن ہڈ
اس کے باوجود بھی اگر کوئی این ٹی ایس ٹیسٹ کے خلاف ہے، تو اسے پھر گھر ہی جانا چاہیے کیونکہ سوال صرف پاس یا فیل ہونے کا نہیں، بلکہ کروڑوں بچوں کے مستقبل کا ہے۔ حکومت انہی بچوں کے مستقبل سنوارنے کے لیے سالانہ 93 ارب روپے دیگر اخراجات کے علاوہ صرف اساتذہ کی تنخواہوں پر خرچ کرتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ایک پرائیوٹ اسکول میں ٹیچر کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ 15,000 روپے ماہانہ ہوتی ہے لیکن ان کے نتائج سرکاری سکولوں سے کہیں بہتر ہوتے ہیں جہاں ٹیچرز کی کم از کم تنخواہ 20,000 اور زیادہ سے زیادہ 100,000 روپے ماہانہ ہوتی ہے۔ اسی طرح وہی سرکاری اسکولوں کے ٹیچرز اپنے بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھنے کے لیے بھی بھیجتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اپنے بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں میں کیوں داخل کرواتے ہیں، کیا انہیں اپنی کارکردگی پر یقین نہیں ہے؟ ذرا سوچیے!
بلاگر فری لانس لکھاری اور سماجی کارکن ہیں، اور سول سوسائٹی کی تنظیم آئی بی ٹی میں سینیئر ریسرچر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔