راحت علی: ایک نامناسب فیصلہ
پاکستان کرکٹ بورڈ کے منتخب کردہ ورلڈ کپ اسکواڈ میں کچھ سرپرائز بھی ہیں۔
فواد عالم جنہوں نے گذشتہ سال کافی اطمینان بخش کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، انہیں جانے کس کے لیے جگہ بنانے کے لیے ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا۔
لیکن آج تو سرپرائز زیادہ ہی ہو گئے ہیں۔
راحت علی کو انجری کے شکار جنید خان کی جگہ لینے کے لیے طلب کر لیا گیا ہے۔ راحت علی نے آج تک صرف ایک ہی ون ڈے میچ کھیلا ہے، وہ بھی سری لنکا کے خلاف 2012 میں، اور تب سے وہ ٹیم میں جگہ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔
بورڈ سے پوچھنا چاہیے کہ:
جب ایک کھلاڑی ریگولر ون ڈے اسکواڈ میں بھی جگہ بنانے کے قابل نہیں تھا، تو اسے کیسے جنید خان کی جگہ لینے کے لیے بہترین انتخاب قرار دیا گیا جو کہ ایک کمزور بولنگ اٹیک کی آخری امید تھے؟
پڑھیے: یونس خان! بس اب بہت ہو چکا
اس طرح کے فیصلے نہ صرف میرٹ کی خلاف ورزی ہوتے ہیں، بلکہ ڈریسنگ روم میں بھی شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلی جانے والی حالیہ سیریز نے پاکستان کے کمزور بولنگ اٹیک کی قلعی کھول دی ہے۔حالیہ کارکردگیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ بولنگ لائن پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی بدترین بولنگ لائن ہے۔
فیصلے کون کر رہا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔
اس طرح کے بولنگ اٹیک کے بعد کیا مصباح کو ورلڈ کپ میں کسی معجزے کی امید ہے؟
تجربہ کار بولروں جیسے کہ سعید اجمل، عمر گل، اور جنید خان کی عدم دستیابی ایک کڑے وقت میں قومی ٹیم کے لیے مشکلات کا سبب ہے۔
اور ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے سلیکشن کمیٹی نے ان بولروں کا انتخاب کیا ہے جو کہ مضبوط حریفوں کے خلاف شاید ہی اچھا کھیل پیش کر سکیں، میچ جیتنا تو دور کی بات ہے۔
بورڈ سے پوچھا جانا چاہیے کہ محمد سمیع، سہیل تنویر، یاسر عرفات، اور عبدالرزاق جیسے بولروں کو کیوں منتخب نہیں کیا گیا؟
ذوالفقار بابر اور رضا حسن پر کیوں غور نہیں کیا گیا؟
سہیل خان اور یاسر شاہ کو اسکواڈ میں لینے کی کیا ضرورت تھی اگر انہیں سائیڈ پر ہی رہنا تھا۔
یہ جاننا نہایت ہی اہم ہے کہ ورلڈ کپ جیسے ٹورنامنٹ کوئی تجربے کرنے کی جگہ نہیں ہوتے۔ یہاں پر تجربے کے ساتھ ہی آنا چاہیے۔
ہاں ان کھلاڑیوں کو بہت دفعہ موقع دیا جا چکا ہے، لیکن جب آپ مشکلات میں گھرے ہوں، تو آپ کو میدانِ جنگ میں ناتجربہ کار لوگ نہیں بھیجنے چاہیئں۔
جانیے: کرکٹ ورلڈکپ 2015 کے دلچسپ اعداد و شمار
سمیع، تنویر، عرفات، اور رزاق موجودہ صورتحال میں شاید اپنی ٹاپ فارم میں نہ ہوں، لیکن ان کے تجربے، اور کسی بھی حریف کے چھکے چھڑا دینے کی ان کی قابلیت پر شک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہیں کھیل کا وسیع تجربہ اور سمجھ ہے۔
اگر پاکستان کے ڈومیسٹک ون ڈے ٹورنامنٹس کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے، تو راحت لسٹ میں ساتویں نمبر پر آتے ہیں۔ صدف حسین اور سمیع دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ اعزاز چیمہ کے بارے میں کیا خیال ہے جن کی اوسط 14 ون ڈے میچز میں 25.78 ہے۔
حال ہی میں ڈان نے جنید خان کے ممکنہ متبادل پر ایک عوامی سروے کیا تھا۔ دیے گئے آپشنز میں سہیل تنویر، عمران خان، شعیب ملک، اور رضا حسن تھے۔
8867 جوابات میں سے 33.57 فیصد نے سہیل تنویر کہا، 28.12 فیصد نے عمران خان، 24.18 فیصد نے شعیب ملک، اور 14.13 فیصد نے رضا حسن کو جنید خان کا بہترین متبادل قرار دیا۔
مزید پڑھیے: 'پاکستان کرکٹ کا اللہ ہی حافظ'
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کرکٹ کی کم سے کم معلومات رکھنے والا شخص بھی ورلڈ کپ لیے پی سی بی سے زیادہ بہتر 15 رکنی ٹیم بنا سکتا تھا۔
صرف وقت ہی بتائے گا کہ انتخاب میں ترجیحات سے کام لیا گیا تھا یا نہیں کیونکہ راز کبھی بھی راز نہیں رہتا، خاص طور پر پاکستان میں۔
عمر بن اجمل ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
وہ ٹوئٹر پر umerbinajmal@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔