نقطہ نظر

عامر کی واپسی پاکستان کے لیے نقصان دہ؟

انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ قوم کو مایوس نہیں کریں گے اور اپنی پرفارمنس سے پرستاروں کے خدشات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

کھیل میں کرپشن کرنے والے کھلاڑی کی گارنٹی دینا، اور کھلاڑی بھی اس ملک کا جہاں یہ سب پہلے بھی ہو چکا ہے، بلاشبہ پی سی بی کا ایک بہت بڑا اور دلیرانہ اقدام تھا۔

مذاکرات کے کئی ادوار اور پی سی بی کی جانب سے کئی یقین دہانیوں کے بعد آخر کار انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے 22 سالہ لیفٹ آرم فاسٹ بولر کو فوری طور پر ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی ہے۔

اگست 2010 میں انگلینڈ کے خلاف لارڈز کے میدان میں جان بوجھ کر منصوبہ بندی کے تحت نو بال کروانے پر محمد عامر کو انگلینڈ میں 6 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

یہ خبر بہت سارے لوگوں کے لیے ہضم کرنی مشکل تھی، لہٰذا ٹوئٹر پر فوراً مذمتی بیانات جاری ہونے شروع ہو گئے۔ اس کام میں ماضی کے کرکٹ اسٹارز اور بورڈ آفیشل بھی پیش پیش تھے۔

کرکٹ کے ایک متوالے کا کہنا تھا کہ محمد عامر نے قوم کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ ایک دوسرے نے کہا کہ عامر کو کبھی بھی کھیلنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

ایک سابق بورڈ آفیشل نے تبصرہ کرتے ہوئے عامر کو مجرم قرار دیا۔

پڑھیے: محمد عامر پر پابندی ختم

طرح طرح کے لوگ، طرح طرح کی باتیں۔

عامر کی ڈومیسٹک کرکٹ میں واپسی پر ردِ عمل کافی غیر معمولی ہے۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ عامر کرپشن میں ملوث ہونے والے پہلے شخص نہیں ہیں، اور ایسا کہنے سے میرا مقصد ان کے عمل کی حمایت کرنا ہرگز نہیں ہے۔

سابق کپتان اور وکٹ کیپر راشد لطیف وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے 1995 میں پاکستان کے دورہ جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے دوران میچ فکسنگ پر آواز اٹھائی تھی اور سلیم ملک اور دیگر کھلاڑیوں پر الزام عائد کیا تھا۔

لطیف کے الزامات پر حکومتِ پاکستان نے تحقیقات کا آغاز کیا جس کے بعد سلیم ملک اور عطاء الرحمان پر زندگی بھر کے لیے پابندی عائد کر دی گئی جبکہ وسیم اکرم، وقار یونس، سعید انور، مشتاق احمد، انضمام الحق، اور اکرم رضا پر جرمانے عائد کیے گئے۔

اس معاملے پر جسٹس ملک قیوم کی رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان کرکٹ میں کرپشن کس قدر رائج تھی۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کرکٹ کو کرپشن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاک کر دینے کے لیے جسٹس قیوم کی رپورٹ پر کبھی بھی عمل نہیں کیا گیا۔

2011 میں کرکٹ آسٹریلیا کے سربراہ جیمز سوتھرلینڈ نے کہا تھا کہ پی سی بی نے جسٹس قیوم کی جانب سے تجویز کردہ تمام اقدامات پر عمل نہیں کیا ہے۔ سوتھر لینڈ کا یہ بیان اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے ایک سال بعد آیا تھا۔

سوتھرلینڈ کا کہنا تھا کہ اگر پی سی بی جسٹس قیوم کی جانب سے دی گئی سفارشات پر عمل کرتا، تو انگلینڈ میں ہونے والا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کبھی نہ ہوتا۔ اس پر بورڈ کے سابق چیئرمین توقیر ضیاء نے سوتھرلینڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جسٹس قیوم کی رپورٹ پر مکمل طور پر عملدرآمد کیا تھا۔

مزید پڑھیے: سلمان بٹ بھی پابندی کے خاتمے کیلیے پرامید

اگر ہم سابق پی سی بی چیف کی بات مان بھی لیں، تب بھی سچ تو یہ ہے کہ میچ فکسنگ کبھی بھی کوئی اچھوتی چیز نہیں رہی، اور کرپشن کی جڑیں بہت ہی گہری ہیں۔ یہ سب کچھ بالکل پی سی بی کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا۔

ان پرانی باتوں کو یاد کرنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ عامر کے عمل کی وکالت کی جائے۔ بلکہ یہ اس لیے تھا کہ اگر ان پر تاحیات پابندی لگا دی جائے، تو بھی اس سے کرپشن ختم کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اس کے بجائے کھلاڑیوں کی بہتر تربیت اور نارمل کی طرف بحالی ہی وہ بنیادی اقدامات ہیں جو کھیل میں کرپشن ختم کر سکتے ہیں۔

کھیل سے کرپشن کا خاتمہ مرحلہ وار طور پر ہی ممکن ہے۔ اور عامر کا اپنی سزا مکمل کرنا ہی ایسا کرنے کا صحیح طریقہ ہے۔

آئیں ہم خود سے پوچھیں: آخر کیسے یہ ہو سکتا ہے کہ سزا اور ذہنی تربیت مکمل کرنے کے بعد واپس آنے والا کھلاڑی چیزیں مزید بگاڑ کی طرف لے جائے؟

لارڈز میں جو عامر نے کیا میں اس کا دفاع نہیں کرتا لیکن اگر ان کی پرفارمنس اچھی ہے، تو میں ان کی واپسی کی حمایت ضرور کروں گا۔

اور یہ تصوراتی باتیں اور آراء کہ ان کی موجودگی سے ڈریسنگ روم کے ماحول پر فرق پڑے گا، ان سے بے وقوف نہ بنا جائے تو بہتر ہے۔

جاننا چاہیں گے کہ اپنے ساتھ محمد عامر کو دیکھ کر کھلاڑی کیسا محسوس کریں گے؟

بالکل ویسا ہی جیسا اب نیشنل ہیرو مانے جانے والے کھلاڑیوں پر جسٹس قیوم کی رپورٹ میں کرپشن ثابت ہونے پر محسوس کرتے تھے۔

میں کسی کا نام نہیں لیتا، لیکن ہر کوئی ان کی ملک اور اس جینٹل مین کھیل کے لیے خدمات کا معترف ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

ہمیں ایک معاشرے کے طور پر یہ سمجھنا چاہیے کہ انصاف ہو چکا ہے۔ عامر کو مجرم پایا گیا تھا اور انہوں نے قید اور ہر طرح کی کرکٹ سے پانچ سال کی معطلی بھی جھیل لی ہے۔ اس کے علاوہ محمد عامر بورڈ کے بحالی پروگرامز اور نوجوان کرکٹرز کو کرپشن سے دور رکھنے کے تربیتی سیشنز میں بھی باقاعدگی سے نظر آتے ہیں۔

پڑھیے: توقیر ضیاء عامر کی واپسی کے مخالف

تو پھر ان کے زیادہ تر ہم وطن کیوں ان کی واپسی کے مخالف ہیں؟ صرف اس لیے کہ عامر 'چالاک' لگتے ہیں اور بورڈ کے سابق چیئرمین کی مدد حاصل کر چکے ہیں؟

انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اب کبھی بھی قوم کو مایوس نہیں کریں گے اور اپنے رویے اور میدان میں اپنی پرفارمنس سے اپنے پرستاروں کے خدشات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

ہمیں بھی صرف ان کی پرفارمنس کے بارے میں ہی فکرمند ہونا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔

عمر بن اجمل

عمر بن اجمل ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

وہ ٹوئٹر پر umerbinajmal@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔