کیا پاکستان پورن دیکھنے میں نمبر ون ہے؟
سیکس یا تنازع ہمیشہ ہی بِکتا ہے۔ اسے پاکستان سے جوڑ دیں تو آپ کو ایک زبردست اسٹوری مل گئی۔
پاکستان کو ایک بار پھر شرارتی حرکتیں کرتے ہوئے پکڑنے کا دعویٰ کیا گیا۔ بار بار کی طرح ایک بار پھر مقامی اور عالمی نیوز ویب سائٹس نے رپورٹ کیا کہ ہمارا ملک انٹرنیٹ پر 'فحش مواد (پورن) سرچ کرنے میں سرِ فہرست ہے۔'
اس خبر کی شہہ سرخی سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی جیسے گوگل نے یہ معلومات ریلیز کی ہیں۔
جن لوگوں نے مقامی نیوز ویب سائٹس سے یہ خبر پڑھی، انہیں یہ معلوم ہوا کہ رپورٹ اصل میں حالاتِ حاضرہ کی ایک امریکی ویب سائٹ سیلون سے لی گئی ہے۔ اگر آپ سیلون کی اسٹوری پڑھیں، تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ ایک اور لبرل بلاگ آلٹرنیٹ سے لی گئی ہے۔
آلٹرنیٹ پر شائع ہوئے اپنے بلاگ میں کیری وائسمین لکھتی ہیں کہ
'گوگل کے ریلیز کردہ ڈیٹا کے مطابق پورن سرچ کرنے میں دنیا کے 8 سرفہرست ممالک میں سے 6 ریاستیں مسلم ہیں۔ پاکستان لسٹ میں پہلے نمبر پر ہے اور دوسرے نمبر پر مصر ہے۔ پھر ایران، مراکش، سعودی عرب، اور ترکی بالترتیب چوتھے، پانچویں، ساتویں، اور آٹھویں نمبر پر ہیں۔ پاکستان سوروں، گدھوں، کتوں، بلیوں، اور سانپوں کی پورن سرچ کرنے میں بھی سرِ فہرست ہے۔'
لیکن کیری نے 'گوگل کے ریلیز کردہ ڈیٹا' کا کوئی لِنک فراہم نہیں کیا ہے۔
گوگل کا رپورٹ کے بارے میں کیا کہنا ہے؟
کوئی بھی فرد جو ڈیجیٹل میڈیا میں کام کرتا ہے، چاہے بلاگر ہو، صحافی ہو، یا ایڈیٹر ہو، یہ جانتا ہے کہ گوگل شاید ہی کبھی کسی معاملے پر اپنا ڈیٹا ریلیز کرتا ہے۔ ہاں اس کا سرچ ڈیٹا اس کی مختلف ویب اینالائٹکس پراڈکٹس کی صورت میں دستیاب ہوتا ہے، جن میں سے سب سے زیادہ گوگل اینالائٹکس اور گوگل ٹرینڈز استعمال کیے جاتے ہیں۔
پھر وائسمین کو یہ ڈیٹا کہاں سے ملا؟
میرا اندازہ ہے کہ گوگل ٹرینڈز سے ملا ہوگا، لیکن میری بات کا یقین کیوں کیا جائے؟
ذیل میں گوگل کے ایک متعلقہ اہلکار کی ای میل درج کی جارہی ہے جو انہوں نے اسی موضوع پر کی تھی۔
'گوگل نے پاکستان میں فحش سرچ پر کسی قسم کا کوئی بھی ڈیٹا ریلیز نہیں کیا ہے۔ اس لیے سیلون ڈاٹ کام کے مضمون میں جو بات کہی گئی ہے، وہ کسی آفیشل ذریعے سے نہیں لی گئی۔
'یہ ہوسکتا ہے کہ ہمارے عام دستیاب ٹول گوگل ٹرینڈز کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔ اس ٹول میں کوئی بھی شخص کوئی لفظ (سرچ ٹرم) ڈال کر دیکھ سکتا ہے کہ کون سے ممالک اس لفظ (ٹرم) کو سب سے زیادہ سرچ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے گوگل ٹرینڈز میں دیکھا کہ پاکستان دنیا میں کرکٹ سرچ کرنے والے ممالک میں سرِ فہرست ہے۔ آپ کرکٹ کو دیگر الفاظ سے تبدیل کر دیجیے، اور نتائج بھی تبدیل ہوجائیں گے۔
'خلاصہ یہ کہ ٹرینڈز کا ڈیٹا اشارہ تو کر سکتا ہے، لیکن حقیقی نتائج نہیں دے سکتا۔ اس سے یہ نہیں ظاہر ہوتا کہ مواد وہاں موجود ہے، صرف یہ کہ لوگ کیا سرچ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دیگر اعداد و شمار کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے جیسے کہ ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد، صنفی فرق، مقامی بول چال۔'
یہ لیجیے۔
مزید واضح کرنے کے لیے
گوگل ٹرینڈز ایک بہت اچھا ٹول ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی عرصے کے دوران کوئی لفظ کتنا زیادہ سرچ کیا جاتا رہا ہے۔ یہ کسی لفظ کی مقبولیت کو کسی محدود خطے کے حساب سے بھی پیش کر سکتا ہے۔ اس سے کچھ فوائد بھی حاصل کیے گئے ہیں جیسے کہ امریکا میں اس کا استعمال فلو سیزن کی پیشگوئی کے لیے کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اس کا استعمال دنیا میں پورن سرچ کرنے کے حوالے سے غلط معلومات پھیلانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔
پورن کی مقبولیت پر شائع ہونے والی تمام خبریں اس بات کو بنیاد بناتی ہیں، کہ گوگل ٹرینڈز مکمل تحقیقی ڈیٹا فراہم کرتا ہے، جو کہ حقیقت نہیں ہے۔
گوگل ٹرینڈز کے ڈیٹا کو نارملائز کر دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ جو رزلٹ دیکھتے ہیں، وہ سرچ کیے گئے لفظ کے تمام سرچ رزلٹس کو تمام سرچز سے تقسیم کر کے حاصل کیے جاتے ہیں۔
اس لیے گوگل ٹرینڈز کے نتائج گوگل کے مطابق 'اشارہ کرتے ہیں لیکن حقیقی نہیں۔'
کیا گوگل ٹرینڈز لمحہ بہ لمحہ نتائج کے لیے بھی کار آمد ہے؟ اس بات پر اختلاف ہے۔
2011 ویلیزلی کالج نے امریکی کانگریس کے انتخابات کے حوالے سے گوگل سرچ ٹرینڈز کے ذریعے پیشگوئیوں پر ایک تحقیق کی، اور یہ پایا کہ سرچ کیے جانے والے ٹرم کی مقبولیت اور جیتنے کے امکانات میں کوئی مضبوط تعلق (strong correlation) موجود نہیں ہے۔
اور صرف تمام لوگوں پر واضح کرنے کے لیے: کیری وائسمین کی یہ 'معلومات' گوگل اینالائٹکس سے بھی حاصل نہیں کی جا سکتیں۔
اصل بات یہ ہے کہ گوگل اینالائٹکس میں کسی بھی صارف کے پاس آپشن ہوتا تھا کہ وہ کسی بھی کی ورڈ یا سرچ ٹرم پر تحقیق کر سکے لیکن جب 2011 میں گوگل نے اپنی ٹریفک کو HTTPS کے ذریعے محفوظ کرنا شروع کیا تو کی ورڈز کا دستیاب ڈیٹا کم ہونے لگا۔ پھر 2013 میں اس فیچر کو آخرکار ختم کردیا گیا۔
اس لیے آلٹرنیٹ کا مضمون گوگل اینالائٹکس کے ڈیٹا پر مبنی نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ گوگل کی ورڈ ٹول اس کا متبادل ہے، لیکن کی ورڈ ٹول اصل میں صرف یہ بتاتا ہے کہ سرچ کیے جانے والے کسی بھی لفظ کی کوالٹی کتنی ہے، اور یہ ایڈورٹائزنگ کے لیے زیادہ مددگار ہے۔
گوگل ٹرینڈز کی مزید حدود
پورن سرچ کے اس پورے معاملے کے بارے میں جاننے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خود گوگل ٹرینڈز کھولا جائے، اور پورن سے متعلق تمام الفاظ کے ٹرینڈز دیکھے جائیں۔ اگر پاکستان زیادہ تر الفاظ میں اوپر رہے، تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مقبول ہے۔
لیکن آپ کسی ایک بھی لفظ کے بارے میں نہیں کہہ سکیں گے کہ آیا سرچ کی تعداد پاکستان میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ تھی یا کم۔
اسے آزمائیں۔
اگر آپ لفظ 'پورن' سرچ کریں، تو یہ گراف سامنے آتا ہے۔
نوٹ کیجیے کہ اس کی ورڈ کا ٹرینڈ جون 2012 میں سب سے بلندی پر ہے، جبکہ اس کے بعد سے یہ نیچے گرتا رہا ہے۔ تو اگر گوگل ٹرینڈز کو بالکل درست مان لیا جائے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی پورن میں دلچسپی کھو رہے ہیں — کیا زبردست خبر ہے نا؟
اسی طرح اگر آپ لفظ 'سیکس' سرچ کریں، تو کچھ ایسے ہی نتائج ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستانی نومبر 2009 تک سیکس میں نہایت دلچسپی لیتے تھے، لیکن اس کے بعد اس سے بور ہونے لگے — ایک اور زبردست اور 'حقیقی' دریافت۔
اس نقطے پر یہ بھی یاد رکھیے گا کہ گوگل کے نمائندے نے کہا تھا کہ 'کئی دیگر اعداد و شمار کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے جیسے کہ ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد، صنفی فرق، مقامی بول چال۔'
کیا پرندے بھی سیکس کرتے ہیں؟
ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ کسی لفظ کو کوٹیشن مارکس کے ساتھ اور اس کے بغیر سرچ کرنے سے نتائج تبدیل ہوجاتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر bird sex بغیر " " کے لکھا جائے، تو ٹرینڈز پر یہ نتائج ملتے ہیں۔
لیکن اگر "bird sex" لکھ کر سرچ کیا جائے، تو انڈیا اوپر آ جاتا ہے۔
اگر کوٹیشن مارکس کے بغیر سرچ کیا جائے، تو سرچ رزلٹس میں وہ تمام پیجز شامل ہوجائیں گے جس میں لفظ برڈ اور سیکس شامل ہے، یہاں تک کہ یہ سوال بھی کہ 'کیا پرندے سیکس کرتے ہیں؟'
لیکن "bird sex" کو کوٹیشن مارکس میں بند کردینے سے سرچ صرف بالکل انہی الفاظ تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے، جس میں ہندوستان پہلے نمبر پر ہے، اور باقی کی دنیا کا اس حوالے سے ڈیٹا اتنا کم ہے کہ دستیاب ہی نہیں۔
دیکھا یہ کس طرح کام کرتا ہے؟ گوگل ٹرینڈز کے نتائج کس طرح تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اب آپ اس شہہ سرخی کا تصور کریں۔
ہندوستان کو برڈ سیکس کے ساتھ عجیب لگاؤ ہے۔
لیکن ضروری نہیں ہے کہ لفظ "bird sex" ہندوستان میں اتنا مقبول ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اسے ہندوستان میں زیادہ ہِٹس ملی ہوں۔ لیکن اگر انڈیا میں یہ دوسرے لفظوں کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے، تو انڈیا کا رنگ گوگل ٹرینڈز میں گہرا ہوگا۔
ان دلائل کی بنا پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کیوں پاکستان جیسے قدامت پرست ممالک بھی اس فہرست میں اوپر ہیں۔ ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں انٹرنیٹ ان تمام چیزوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جن پر بات کرنا معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہے، مثلاً پورن۔
انٹرنیٹ کو پورن کے لیے استعمال کرنا، اور باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ پورن بھی استعمال کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
کیونکہ پاکستان پہلے کام میں ملوث ہے، اس لیے یہ پورنوگرافک گوگل ٹرینڈز میں سرِ فہرست ہے۔ لیکن اگر پورن سرچ کی تعداد کو برقرار رکھا جائے، اور باقی تمام ٹرمز کی سرچ تعداد بڑھا دی جائے، تو ضرور یہ ان رینکنگز میں نیچے آئے گا۔
ذمہ دار صحافت کے بارے میں
2010 میں فوکس نیوز نے بھی ایک ایسی ہی خبر جاری کی تھی جس کے مطابق پاکستان پورن سرچ کرنے میں سرِ فہرست ہے۔ کچھ دن بعد ڈان نے ایک گوگل اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا:
'ہم وسیع سرچ پیٹرنز کے بارے میں درست ڈیٹا فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، لیکن کسی بھی سرچ ٹرم کے نتائج، جیسے کہ پاکستان سے اس اسٹوری میں رپورٹ کیا گیا ہے، میں غلطیاں ہوسکتیں ہیں کیونکہ سیمپل سائز رزلٹس کے شماریاتی حساب سے درست ہونے کے لیے بہت چھوٹا ہے۔'
صحافیوں کے لیے سبق یہ ہے کہ گوگل ٹرینڈز استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کا ڈیٹا استعمال کر کے غلط فہمیاں پھیلانا کسی بھی صورت میں درست نہیں۔
اس بارے میں دیانت داری سے یہ کہا جانا چاہیے کہ پاکستانیوں کو یہ سب پسند ہے۔ ہم اسے گوگل ٹرینڈز پر دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم اسے ثابت نہیں کر سکتے۔ اور یہ تو بالکل بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس میں دنیا بھر سے آگے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سیلون اور آلٹرنیٹ پر موجود اسٹوریز کو غلط معلومات پھیلانے کا ملزم نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ وہ پورن میں دلچسپی کے ٹرینڈ کے علاوہ کچھ بھی رپورٹ نہیں کر رہے۔ ہاں ہمارے مقامی اخبارات اور ویب سائٹس پر شائع ہونے والی خبریں الگ کہانی ہیں۔
غلط معلومات کے اس دور میں غلط معلومات ہر جگہ رہیں گے۔ بہتر ہے کہ سنسنی سے دور رہا جائے۔ ہمیشہ ایسے مضامین موجود ہوں گے جن کی شہہ سرخیاں لوگوں کو کلک کرنے پر مجبور کریں گی، اور ایسی خبریں ہوں گی جو متنازع چیزوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کریں گی۔
صحافیوں کی طرح ذمہ داری پڑھنے والوں پر بھی ہے۔ پڑھنے والوں کو یہ ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔
سعد درانی کونٹینٹ اسٹریٹجسٹ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @saad_durrani کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔