کیا تعلیم کا مقصد صرف نوکری ہے؟
عام طور پر تعلیم کو ایک سماجی اچھائی سمجھا جاتا ہے جبکہ کچھ کے نزدیک یہ علاج اور حل بھی ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ تعلیم سماجی تبدیلی کا محرک بن سکتی ہے، اقتصادی ترقی لاسکتی ہے، اور نچلے طبقے سے اونچے طبقے تک جانا ممکن بنا سکتی ہے۔
لیکن ایک سال تک لاہور میں بیروزگار گریجویٹس کے ساتھ رہنے نے مجھے پاکستان میں تعلیم کا بالکل مختلف مطلب سمجھایا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بیروزگار ہونے کا تجربہ ایسا ہے، جو حاصل کردہ علم پر سوال اٹھانے اور سماجی اسٹیٹس کی اہمیت سمجھنے کے لیے کار آمد ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ تعلیم آخر کس مسئلے کا حل ہے۔
گورڈن براؤن اور مائیکل باربر جیسے عالمی کارکنوں نے تعلیم کی تبدیلی لانے کی صلاحیت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کو ترقی کی ضرورت ہے، اور تعلیم ہی اسے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ ورلڈ بینک تعلیم کو اقتصادی ترقی کے لیے ایک اہم جز کے طور پر دیکھتا ہے جس کے ذریعے غربت ختم کی جاسکتی ہے۔ نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ تعلیم ہی ایک روشن مستقبل کو یقینی بنا سکتی ہے۔
ہمارے سیاستدان بھی ایسی ہی آراء رکھتے ہیں جس سے knowledge economy کی جانب ممکنہ جھکاؤ کا اشارہ ملتا ہے۔ کچھ دیگر مقامی کارکن جو زیادہ باریک نظر رکھتے ہیں، کے نزدیک تعلیمی بحران موجود ہے جس کے نتیجے میں 5 سے 16 سال کی عمر کے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جا پاتے۔ لیکن ہم سب کے درمیان ایک بات مشترک ہے، کہ ہم سب ہی تعلیم کے اقتصادی فوائد اور فکری آزادی کے لیے اس کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟
کچھ بیروزگار گریجویٹس تعلیم کو ایک مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے حاصل شدہ ذہنی صلاحیتوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن پھر بھی تعلیم کو سخت مقابلے کے ماحول میں جاب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ نتیجتاً سیکھنے کا عمل غیر اہم بھی نہیں ہوتا، لیکن زیادہ مارکس اور جاب حاصل کرنے کے چکر میں یہ کہیں گم ہوجاتا ہے۔ اس تعلیمی اسٹریٹجی کا دوسرا حصہ سرکاری ملازمتوں کے لیے اپلائی کرنا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس ریس میں مارکس اور ڈگریاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ سخت مقابلہ صرف نام، اچھی تنخواہ، اور مراعات حاصل کرنے کے لیے ہے۔
اس ریس میں تعلیم کی اہمیت کا مقابلے کی قسم سے بھی لینا دینا ہے۔ سی ایس ایس کے سال 2014 کے امتحان میں 222 نشستوں کے لیے 14،000 سے زیادہ امیدواروں نے امتحان دیا۔ نوکری ڈھونڈنے والوں کو یہ بھی علم تھا کہ دسمبر میں سندھ پبلک سروس کمیشن کے اسکریننگ ٹیسٹ میں 30،000 امیدواروں نے شرکت کی، اور یہ کہ مارچ 2014 میں وزارتِ دفاع میں محدود سیٹوں کے لیے تقریباً ایک لاکھ امیدواروں نے ٹیسٹ دیا۔ اس سخت ترین مقابلے کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ لیبر کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ہر سال لیبر فورس میں 20 لاکھ افراد داخل ہوتے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق ان میں سے آدھے سے زیادہ افراد کے پاس یونیورسٹی ڈگری موجود ہوتی ہے۔
ان اقتصادی پریشرز کی موجودگی میں تعلیم کے معانی آج کیا ہیں؟ تعلیم کے بارے میں دو مختلف نظریات میں ایک بات مشترک ہے، کہ تعلیم نچلے طبقے سے اوپر جانا ممکن بناتی ہے۔ لیکن جہاں پر دونوں نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں، وہ یہ کہ تعلیم کس طرح ان امیدوں پر پورا نہیں اتر پاتی، جن کو وہ جنم دیتی ہے۔ یہ فرق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تعلیم اسٹیٹس اور طاقت کے سسٹم سے کس قدر گہرائی میں جڑی ہوئی ہے۔
ڈگریاں رکھنے والے بیروزگار نوجوانوں کو یہ سسٹم سرکاری نوکریوں میں رکھتا ہے، جبکہ اعلیٰ تربیت یافتہ پروفیشنلز بشمول ڈاکٹروں اور انجینئروں کو اعلیٰ بیوروکریسی کی طرف بھیج دیتا ہے۔ لیکن تعلقات، رہنمائی، تربیت، اور طاقت کے بغیر تعلیم ان کے اونچے طبقے میں شامل ہونے کے خواب پورا کرنے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتی۔
اور یہ تجربہ ان تحقیقوں کو درست ثابت کرتا ہے جو دنیا کے دوسرے ممالک میں کی گئی ہیں۔ تعلیم حاصل کرنا آسان بن چکا ہے، لیکن جاب حاصل کرنا مشکل۔ اور جیسا کہ محققین کا کہنا ہے، تعلیم خود سے عدم مساوات کا خاتمہ نہیں کرسکتی اور نہ ہی روزگار کے مواقع پیدا کرسکتی ہے۔
بہت کم لوگ ہی تعلیم کی اہمیت سے انکار کریں گے۔ ظاہر ہے عام فہم کی بات سے اختلاف مشکل ہوسکتا ہے۔ لیکن بنیادی نکتہ یہ ہے کہ تعلیم تمام مسائل کا حل نہیں ہے۔ نوجوانوں کے ساتھ رہنے کے بعد میں نے یہ جانا ہے کہ تعلیمی نظام طاقت اور اسٹیٹس کی دوڑ ہے اور بس۔ اور جاب مارکیٹ میں کامیاب ہونے کے لیے صرف تعلیم حاصل کرنا نہیں بلکہ ذریعے یا 'سفارش' کا ہونا بھی لازمی ہے۔
تعلیم کے کئی نظاموں کی موجودگی اور اقتصادی ناہمواری کی وجہ سے پیدا ہوئی عدم مساوات پاکستان میں مخصوص شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ مسئلہ ترقی کی کمی کا نہیں ہے، بلکہ طبقے اور طاقت کا ہے جو لوگوں کو ملازمت فراہم کرتا ہے۔
لکھاری ٹیچرز کالج کولمبیا یونیورسٹی سے اپلائیڈ اینتھروپولوجی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 12 جنوری 2015 کو شائع ہوا۔