بیرونِ ملک موت
اگر عافیہ صدیقی 'قوم کی بیٹی' ہیں تو سعودی عرب میں گزشتہ دو ماہ کے دوران جن دس پاکستانی شہریوں کے سر قلم کیے گئے ہیں، وہ ناپسندیدہ بچے ہوسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے شہریوں کو اپنا ان کے پاسپورٹ کی بنا پر سمجھنے کے بجائے ان کو پکڑنے والے ملک اور اس ملک کے لیے ہمارے جذبات کی بنا پر سمجھتے ہیں۔
سزائے موت پانے والے ان تمام افراد کے ٹرائلز کے حوالے سے میڈیا میں سامنے آنے والی تفصیلات ہی واحد دستیاب معلومات بھی ہیں کیونکہ کسی کو بھی تفصیلی آفیشل تفصیلات کی پروا ہی نہیں۔ ان معلومات کے مطابق تمام ٹرائلز میں سنگین خامیاں موجود تھیں۔ ملزمان کو وکلائے صفائی، آزاد مترجمین، اور ایک غیرملکی قانونی نظام میں رہنمائی کی سہولت نہیں ملی۔ اس کے علاوہ تمام تر کارروائی عربی زبان میں ہوئی، جبکہ پاکستانی قونصل خانے نے بھی ان کی کوئی معاونت نہیں کی۔
تو اب تک جو مرچکے ہیں اور وہ افراد جو خطرے کی زد میں ہیں، ان کے لیے یہ سوال پوچھا جانا ضروری ہے کہ: کیا ان جیسے لوگوں کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی حکومت سے مدد کی توقع رکھ سکیں؟ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے کیا انہیں اپنی ریاست کی جانب سے کسی سطح پر ملکیت اور تحفظ کا استحقاق حاصل نہیں؟ یا جب آپ ایک بار پاکستان کی سرحدوں سے نکل جاتے ہیں تو آپ کے ملک کا آپ سے لینا دینا نہیں؟ خود کو پاکستانی شہری کہنا کوئی مطلب رکھتا ہے؟
شہریوں اور اقتدارِ اعلیٰ (ریاست) کے درمیان ایک معاہدہ موجود ہوتا ہے، جس کے دو بنیادی عناصر ہوتے ہیں۔ شہری ریاست کا اطاعت گزار، فرمانبردار اور وفادار ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔
یہ معاہدہ شہریت کی بنیاد ہوتا ہے اور ہمارے آئین کے آرٹیکل 4 اور 5 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 4 کہتا ہے کہ شہریوں کو قانون کے مطابق تحفظ کا حقدار ٹھہراتا ہے، "چاہے وہ کہیں بھی ہو" جبکہ آرٹیکل 5 میں وفاداری اور فرمانبرداری کا ذکر ہے۔ آرٹیکل 4 میں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ کسی شہری کی زندگی کے لیے نقصاندہ قدم قانون سے ہٹ کر نہیں اٹھایا جاسکتا۔
یہ الفاظ "قانون کے مطابق" اور "قانونی تحفظ" قانونی اصول کا حوالہ دیتے ہیں جن کے مطابق کسی کی جان تب تک نہیں لی جاسکتی جب تک قانون اس کی اجازت نہ دے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں قانون اس کی اجازت دے، چاہے وہ کتنی بھی خامیوں سے بھرپور یا جابرانہ ہو، یہ ہوتی ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔
مقامی طور پر ہمارے آئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق میں شہریوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جس پر عملدرآمد لازمی ہے اور کوئی قانون اس کی مخالفت نہیں کرسکتا (آرٹیکل 9، زندگی کا حق اور آرٹیکل 10A منصفانہ ٹرائل کا حق)۔
عالمی سطح پر متعدد معاہدوں اور اعلانات کے ساتھ ساتھ ایسے تمام بین الاقوامی لازمی قوانین (جن کی پابندی تمام ممالک پر لازم ہے چاہے انہوں نے معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہوں یا نہیں) میں ہر فرد کو ٹرائل میں حاصل تحفظ کی کم از کم سطح کو یقینی بنایا گیا ہے۔
کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دائرہ اختیار کا مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان سعودی عرب میں اپنے شہریوں کو مقامی اور بین الاقوامی قانونی حقوق دیے جانے کا مطالبہ نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں مقامی سعودی قوانین کو سبقت حاصل ہے؟ شاید نہیں۔
جب کوئی ریاست کسی اور ملک کے شہری کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہے، تو متاثرہ فرد کی ریاست کو دادرسی کا استحقاق حاصل ہوجاتا ہے۔ تو جب پاکستانی شہریوں کے سر بین الاقوامی قوانین کے طے کردہ طریقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قلم کردیے جاتے ہیں تو پاکستان بذات خود ناانصافی کی شکار ریاست بن جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ پاکستان کا فرض نہیں کہ وہ کسی ریاست کے خلاف اپنے حقوق کا نفاذ کرسکے؟ کیا ایک شہری ایک ریاست کو اپنے خارجہ تعلقات کے حوالے سے مخصوص اقدام اٹھانے پر مجبور کرسکتے ہیں؟
گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد یہ سوال برطانوی عدالتوں میں اٹھایا گیا تھا جہاں برطانوی شہریوں کے خاندانوں نے عدالت سے یہ استدعا کی تھی کہ وہ حکومت کو گوانتانامو میں بغیر کسی ٹرائل کے قید شہریوں کی رہائی کے لیے مداخلت کرنے کی ہدایت کرے۔ اپنے تاریخ ساز فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ایک شہری قانونی طور پر امید رکھ سکتا ہے کہ ریاست اس کی جانب سے کچھ اقدامات کرسکے، لیکن صرف تب تک، جب تک ایسا نہ کرنے کی نہ وجوہات پیش کردی جائیں (جن پر بھی ایک عدالت کی جانب سے نظرثانی کی جاسکتی ہے)۔
برطانیہ کی سپریم کورٹ نے ایک اور مقدمے میں، جس میں برطانوی شہری کو انڈونیشیا میں سزائے موت کا سامنا تھا، اس پچھلے حکم کی تصدیق کی۔ جب کوئی ملک عالمی معاہدے پر دستخط کرتا ہے، تو اس کے شہری یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ریاست ان کی جانب سے اقدامات کرے گی۔ پاکستان نے بھی 2010 میں عالمی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق (ICCPR) کی توثیق کررکھی ہے، اور اس طرح پاکستانی شہری بھی ریاست سے اپنے حقوق کے تحفظ، جس میں شفاف ٹرائل بھی شامل ہے، کے لیے مداخلت کی امید رکھ سکتے ہیں۔
ہمارے شہری کم از کم ایک ذی شعور پالیسی کی توقع رکھ سکتے ہیں تاکہ ان پاکستانیوں کی معاونت کی جاسکے جنھیں بیرون ملک سزائے موت کا سامنا ہے۔ اس طرح وہ سعودی سلطنت کی جانب سے اپنے ملک کو دیے جانے والے ' تحفوں' کے بدلے میں قربانی کے بکرے بننے سے بچ سکتے ہیں۔
ہمارے شہری امید رکھ سکتے ہیں کہ ان کو ٹرائلز کے حوالے سے، وکلاء کو تلاش کرنے میں، اپیلیں دائر کرنے میں، نظام کو سمجھنے میں، سفر سے قبل معلومات حاصل کرنے میں معاونت ملے گی۔
اگر کوئی شہری کوئی اہمیت رکھتا ہے، تو کم از کم انہیں یہ احساس تو ہونا چاہیے کہ جب وہ غیر ملکی سرزمین پر موت کا سامنا کر رہے ہوں گے تو ان کا ملک ان کا خیال رکھے گا۔
لکھاری لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل ہیں۔
skhosa.rma@gmail.com
یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔