نقطہ نظر

پنجاب پولیس: خدمت اور تحفظ کے لیے نہیں

معطل ہونے والے افراد بہت جلد کسی اور عہدے پر اپنے غیرانسانی کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور کوئی سبق نہیں سیکھتے۔

جمیل دہلوی کی فلم 'جناح' دی مووی کے ایک منظر میں تقسیم برصغیر سے پہلے کے دنوں کا احوال دکھایا گیا ہے جس میں مظاہرین کا ایک گروپ گورنر ہاﺅس کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے کہ ایک برطانوی افسر انہیں گھیر لیتا ہے، اور اپنے ماتحتوں کو مظاہرین پر زبردست تشدد کے احکامات دیتا ہے۔ اپنی اہلیہ کے توجہ دلانے پر قائداعظم محمد علی جناح وہاں پہنچتے ہیں اور غیرمسلح مظاہرین کو اس ظلم سے بچالیتے ہیں۔

اب لگ بھگ ایک صدی بعد لاہور میں مظاہرین کا ایک گروپ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی جانب مارچ کررہا تھا کہ انہیں برطانوی عہد کی طرح محافظوں یعنی پولیس نے گھیرا، اور تشدد کا نشانہ بنایا، مگر بدقسمتی سے اس بار کوئی جناح انہیں بچانے کے لیے موجود نہیں تھا۔

کسی کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ ان دونوں معاملات کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھے۔ بھلے ہی دوسرے واقعے میں مظاہرین ایک خودمختار ریاست کے آزاد شہری تھے، اور انہیں آزاد ذہنیت والی پولیس فورس نے تشدد کا نشانہ بنایا، مگر آزادی، خودمختاری، مساوات، شہری آزادی اور وقار صرف خوشنما الفاظ بن کر رہ گئے جو مثالیت پسندوں کی گفتگو میں تو نظر آتے ہیں مگر زمینی سطح پر ان کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔

میں تو اسے پاکستان میں 'معمول' قرار دوں گا۔ آخر کار ہم انسداد بدعنوانی کے دن کرپشن کو جاری رکھتے ہیں، خواتین کے حقوق کے دن کے موقع پر خواتین کو ہراساں کرتے ہیں، اور انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر انسانی حقوق کی ہر طرح کی اور ہر سطح پر خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔

آپ کو یہاں مزدور مئی کی پہلی تاریخ کو بھی مزدوری کرتے ہوئے ملیں گے، جب پورا ملک آرام سے اس حکومت کی طرف سے دی گئی چھٹی کے مزے اڑا رہا ہوتا ہے، جو خود سارا سال چھٹیوں پر ہوتی ہے۔

لیکن نہیں، پاکستان جیسے ملک کے لیے بھی، اس ملک کے لیے بھی جہاں ہر غلط چیز کو پذیرائی ملتی ہے، ناانصافی اور جھوٹ بھرے اس ملک میں بھی یہ پستی کی ایک نئی مثال تھی۔ غیرمسلح نابینا افراد کو معذوروں کے عالمی دن پر تشدد کا نشانہ بنانا ایسا واقعہ ہے کہ آپ جتنا بھی سوچ لیں مگر اس سنگدلی کی حد کے برابر کوئی دوسرا واقعہ نہیں ڈھونڈ سکتے۔

یہ ایسا خصوصی معاملہ ہے کہ اگر کوئی ایسا کرنا چاہتا بھی ہو، تو بھی ایسا نہیں کرے گا، ماسوائے اس صورت میں اگر وہ پنجاب پولیس سے تعلق رکھتا ہو۔

کیا الفاظ واقعی پنجاب پولیس کے بارے میں مزید وضاحت کرسکتے ہیں؟ طاقتور افراد کا یہ قابل نفرت گروپ اپنی روز سیاہ تر ہوتے تشخص کے ساتھ ہمیشہ ہی نئی بدترین سطح تک پہنچنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ مگر ان کا پیغام ہمیشہ یکساں ہوتا ہے: اس ملک میں مراعات صرف اونچے طبقے کے لیے ہیں، جبکہ باقی معاشرے کے لیے ڈنڈے موجود ہیں۔

ہر دور میں پنجاب پولیس کے 'ادارے' نے یہ دکھایا ہے کہ یہ نااہلی اور بربریت کی کن نچلی ترین سطحوں کو چھو سکتا ہے، لیکن خطرے کی اس گھنٹی کو بااختیار طبقوں کی جانب سے آسانی سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔

پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری نے اس واقعے کے فوری بعد کندھے اچکاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ لاٹھی چارج کا تو کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، حالانکہ اس وقت ویڈیوز ہر جگہ گردش کر رہی تھیں اور انہیں لگ بھگ تمام نیوز چینلز پر دکھایا جارہا تھا۔

پولیس کی ہر زیادتی (خاص طور پر پنجاب پولیس کی جو کہ محض چند افراد کی نجی فورس کے طور پر کام کرتی ہے) کو اسی طرح نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ بااختیار افراد مذمت کے کچھ الفاظ کہتے ہیں اور ایک یا دو تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دے دیتے ہیں۔ ان کے نتائج اس وقت تک منظرعام پر نہیں آتے جب تک عوامی اشتعال ٹھنڈا نہیں پڑ جاتا۔ پھر اس گرد کو قالین کے نیچے چھپا دیا جاتا ہے اور سب کچھ پہلے جیسا ہوجاتا ہے۔

اگر جون میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے ساتھ ہونے والے واقعے کے بعد حکومت کا رویہ سنجیدہ ہوتا، تو کیا اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آتا؟ بالکل نہیں۔

کیا سزا کے طور پر کسی کو معطل کرنا کسی پہلے سے ہی استحصال زدہ گروپ کے وقار کی دھجیاں بکھیرنے کی سزا ہوسکتی ہے؟ بالکل نہیں۔ اور ہم معطلی کی بات کر رہے ہیں برخاستگی کی نہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ معطل ہونے والے افراد بہت جلد کسی اور عہدے پر اپنے غیرانسانی کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور کوئی سبق نہیں سیکھتے۔

اگر ایک قانون کا مقصد مزاحمت ہے تو اس پر عملدرآمد نہ ہونا قانون سازی اور قانون کے پاس ہونے کے پورے مرحلے کو لاحاصل بنا دیتا ہے۔ پولیس آرڈر 2002 کی شق 155(d) کو اسی ایکٹ کی شق تین اور چار سے ملا کر پڑھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ فرائض کی ادائیگی کے دوران اس سطح کی ناکامی پر تین سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس ایکٹ کی شق 156(d) تشدد کے ذمہ داران کے لیے پانچ سال قید کی سزا کا ذکر کرتی ہے (اگرچہ یہاں حراست کی تعریف غائب ہے)۔

علاوہ ازیں سزا یافتہ پولیس اہلکار کو 'عوامی خدمت' (اس ملک میں تو اسے عوام کو سزا دینا ہی کہا جانا چاہئے) کرنے سے بھی روک دیا جائے گا۔

ان قانونی مباحثوں کو پاکستان میں کوئی سننے والا نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 6 کی طرح میں نے کبھی بھی کسی ایک فرد پر اس پولیس ایکٹ کے تحت فردِ جرم عائد ہوتے نہیں دیکھا، سزا پانا تو دور کی بات ہے۔

تو اوپری سطح سے سرپرستی، اور باقی تمام حلقوں کی بے توجہی کی وجہ سے برطانوی دور کی یہ پیداوار، جس نے اپنے برطانوی آقاؤں سے تشدد کے بے رحمانہ طریقے میراث میں پائے ہیں، بغیر کسی شرمساری کے اپنے ظلم و تشدد کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے لیے عوام صرف ایسا گوشت ہے، جسے پکایا جانا ضروری ہے۔

میں اس حد سے زیادہ کام کرنے والی، کم تنخواہ پانے والی، شدید تنقید اور بہت کم تعریف پانے والی اور شدید سیاست زدہ پولیس فورس سے ہمدری رکھتا ہوں مگر اس کی صفوں میں جتنی بھی پریشانی اور تکلیف ہو، کیا ایسے حربوں کو معاف کیا جاسکتا ہے؟

پولیس اپنے بنیادی کام یعنی پولیسنگ سے ہٹ کر ہر معاملے میں مہارت رکھتی ہے۔ یہ سانحہ صرف ایک علامت ہے کہ یہ گلا سڑا نظام اندر ہی اندر مزید گل سڑ رہا ہے۔

آخر ہمیں پاکستان میں پولیس کے مکمل ڈھانچے کی ناکامی کو درست کرنے کے لیے مزید کتنی مثالوں کی ضرورت ہے؟

پولیس کے لیے اسکینڈی نیوین ممالک کا ماڈل اپنانا تو دور دراز کا خواب ہے، مگر کیا ہم بنیادی انسانیت کی بھی قابلیت نہیں رکھتے؟

اگر وارڈنز ٹریفک پولیس کے خراب تصور کو تبدیل کرسکتے ہیں، تو کیا باقی پولیس میں بھی اسی طرح کی تبدیلی نہیں لاسکتے؟

انگلش میں پڑھیں۔

بدر اقبال چوہدری

بدر اقبال چوہدری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے انگلینڈ کی بی پی پی یونیورسٹی سے قانون کی، اور ویلز کی کارڈف یونیورسٹی سے الیکٹرانکس اور کمیونیکشن کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور میگزینز میں لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔