بمبئی نہ بنی ممبئی
ہندوستان کے صوبے مہاراشٹر کا دارالحکومت ممبئی کبھی بمبئی ہوا کرتا تھا لیکن بعد ازاں یہ نام تبدیل کر کے ممبئی رکھ دیا گیا۔ متحدہ ہندوستان میں بمبئی صوبے کا درجہ رکھتا تھا اور سندھ بمبئی کا حصہ تھا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد سندھ بمبئی سے الگ ایک صوبہ بنا تو بمبئی انڈیا میں ممبئی ہو گئی لیکن کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر حصوں میں بمبئی ہی رہی۔
کراچی میں آپ کو ”بمبئی والا“ کے نام سے کپڑوں پر دست کاری کی دکان بھی ملے گی تو بمبئی بریانی، فروٹ اور بمبئی ناریل والا بھی نظر آئے گا۔ چیمبر آف کامرس کے قریب ایک عمارت پر تقسیم سے قبل کی بمبئی انشورنس کمپنی کا بورڈ بھی آویزاں نظر آتا ہے جو موسمی حالات کے باعث اپنا رنگ و روپ کھو چکا ہے۔
بندر روڈ پر ہی بمبئی بازار بھی ہے۔ بمبئی بازار تقسیم سے بہت قبل 19ویں صدی کے بیچ میں قائم ہوا تھا۔ اس بازار کے قیام کا بنیادی سبب کراچی کے سابق انگریز کمشنر اور گورنر بمبئی سر بارٹل فریئرکی سندھ میں صنعتی ترقی کی کوشش تھیں۔ ”لُب تاریخ سندھ“ مطبوعہ 1900کے مولف خان بہادر خداداد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1869کے دور میں فریئر ہال کراچی میں ایک عجیب نمائش منعقد کی گئی جو سندھ اور گرد و نواح کے لوگوں کے گھریلو ہنر سے متعلق تھی اور ایک ہفتہ تک جاری رہی، جس وجہ سے لوگوں میں عجیب و غریب ہنروں کا شوق پیدا ہوا اور وہ مختلف اشیاء کی خرید و فروخت کی طرف متوجہ ہوئے۔
مورخ عثمان دموہی کے مطابق فروری 1867 میں جب بارٹل فریئر گورنر بمبئی کی حیثیت سے کراچی آئے تو انہوں نے اس عمارت میں ایک دربار منعقد کیا تھا۔ اس کے بعد دسمبر 1869 میں اس عمارت میں ایک صنعتی نمائش بھی منعقد کی گئی تھی جہاں برطانیہ، ہندوستان اور وسط ایشائی ممالک کے تاجر اور صنعت کار اپنی مصنوعات کی تشہیر کرنے اور انہیں فروخت کرنے کے لیے لائے تھے۔
اس نمائش میں ہندوستان کے دیگر شہروں کے ساتھ ساتھ بمبئی کے تاجروں نے بھی شرکت کی تھی، اور ان کی مصنوعات کو کراچی میں بہت پسند کیا گیا تھا۔ نمائش کے دوران یہ تاجر کراچی میں اس وقت موجود محدود تعداد میں خرید و فروخت کی مارکیٹوں کا جائزہ لینے جاتے تھے۔ بندر روڈ پر ڈینسو ہال کے قریب کچھ زمین خالی پڑی تھی۔ بمبئی کے تاجروں نے نمائش ختم ہونے کے بعد اس خالی احاطے پر عارضی دکانیں بنا کر یہاں کاروبار کا آغاز کیا جو آہستہ آہستہ ایک اچھی خاصی مارکیٹ بن گئی۔ بمبئی کے تاجروں کی وجہ سے اس بازار کا نام بمبئی بازار پڑ گیا۔ یہ بازار آج بھی بمبئی بازار کے نام سے مشہور ہے۔ بارٹل فریئر سندھ کے دوسرے کمشنر تھے۔ وہ 1851 کی ابتداء میں سندھ کے کمشنر مقرر ہوئے۔ خان بہادر خداداد خان کے مطابق بارٹل فریئر کو غریبوں، بوڑھوں، اور مفلس لوگوں سے خاص ہمدر دی تھی۔ اس کا ذکر اپنی کتاب میں یوں کرتے ہیں؛
'کراچی کے میر بحروں کے محلے میں ایک بوڑھا رہتا تھا جس کا نام ”بڈھو“تھا۔ بہت ہی غریب اور عیال دار تھا۔ اس کے گھر کا خرچہ بھی بڑھا ہوا تھا۔ سر بارٹل فریئر اسے بابا بڈھو کہتا تھا۔ اور اس کے غریبی حال پرمہربانی کی نظر کر کے اس کی دوکشتیوں کا محصول بھی اس نے معاف کردیا تھا۔ آٹھویں دسویں دن یا کبھی کبھی مہینے مہینے بعد اس کے ہاں جاتا تھا، اس سے حال احوال لیتا تھا اور اس کے بیٹے کو کچھ پیسے دے کر آتا تھا۔ جسے اس نے اپنا بھائی بنایا تھا۔ وہ اس کی بیوی کو اپنی ماں بولتا تھا سلیمان نامی ایک درزی تھا جس کی دکان کلاتیوں کی مسجد کے نزدیک سیٹھ ناؤ مل کے محلے کے قریب ہوا کرتی تھی۔ وہ درزی بہت عمر رسیدہ اور نہایت ہی مسکین اور نادار تھا۔ سر بارٹل فریئر کو اس کی مسکینی کا پتہ چلا تو ہمیشہ اس کی دکان پر جانے لگے اور نقد رقم دے کر اس کی مدد کرتے رہے۔ تیسرا شخص ایک بوڑھا برہمن فقیر تھا جو کسی کام کی غرض سے اس کی خدمت میں عرض گزار ہوتا تھا لیکن چونکہ اس کا کام قانون کے دائر ے سے باہر تھا اس لیے وہ پورا نہیں ہوا۔ وہ ہمیشہ، صاحب بہادر کے پیچھے پیچھے پھرتا رہتا تھا۔ صاحب بہادر اسے ”چوب دار“ بابا کہتا اور اس سے بھنے ہوئے چنے لے کر کھا تا تھا سر بارٹل فریئر کراچی سے جاتے وقت ان تینوں کی تصویریں بھی اپنے ساتھ لے گیا تھا'۔
تو یہ تھے بارٹل فریئر صاحب جن کی وجہ سے کراچی میں بمبئی بازار کی بنیاد پڑی۔ کراچی میں بعض دکانیں ایسی بھی ہیں جو تقسیم کے بعد قائم ہوئیں اور ان کے نام بھی بمبئی سے منسوب ہیں۔ فریسکو چوک کے قریب خشک میوہ جات ایک بڑی دکان ہے، جس کے مالک ابوبکر صاحب ہیں۔ ابوبکر صاحب نے ہمیں بتایا کہ ان کے والدین کا تعلق بمبئی سے تھا۔ انہوں نے انتہائی غربت میں اپنی زندگی گزاری۔ وہ اسی سڑک پر دہلی اسٹور کے باہر ٹھیلا لگا کر گزر بسر کرتے تھے۔ دہلی اسٹور ایک قدیم دکان ہے۔ اس دکان کے کھلنے کے کچھ عرصے اس کے قریب ہی کراچی اسٹور کی بنیاد پڑی۔ میں اور میرا مرحوم بھائی اکثر سوچتے تھے کہ اگر ہمارے پاس پیسے ہوئے اور دکان کھولی تو اس کا نام بمبئی پر رکھیں گے۔ بالاآخر 1980 میں ہم نے بمبئی ڈرائی فروٹ کے نام سے اس کاروبار کا آغاز کیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ زندگی میں ایک بار بمبئی گئے تھے۔ ان کے رشتے دار محمد علی روڈ پر کوئیلسا محلہ (کوئلے والوں کا محلہ) میں رہتے ہیں۔ وہ بھی پاکستان آئے تھے اوردکان کا نام دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ”بمبئی والا“ نامی دکان کے مالک محمد اسماعیل صاحب نے بتایا کہ ان کے والدین بمبئی کے مستری محلے سے ہجرت کر کے کراچی آئے تھے۔ کاروبارکا آغاز انہوں نے 1948 میں کیا تھا۔ وہ کپڑوں پر ہاتھ سے نقش نگاری کا کام کرتے ہیں۔
”بمبئی ناریل شاپ“ پر موجود اقبال نے بتایا کہ بمبئی کا ناریل منفرد ہوتا ہے اور ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے خصوصاً بمبئی والوں میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ یوں تو دکان پر سری لنکا اور ڈھاکہ کا ناریل بھی فروخت کیا جا تا ہے لیکن بمبئی کے ناریل کی پسندیدگی کی وجہ سے دکان کا نام بمبئی سے منسوب ہے۔
سابقہ میکلوڈ روڈ اور موجودہ آئی آئی چندریگر روڈ پر شاہین کمپلیکس کے قریب ایرانی ہوٹل سے متصل بمبئی ہوٹل بھی تھی جسے اب منہدم کیا جا رہا ہے۔ اب سے چند برس قبل تک اس میں مختلف سندھی اور اردو اخبارات کے دفاتر تھے اور ہم بھی وہاں جانے والوں میں شامل تھے۔ غالباً عمارت کے مالک کی خواہش تھی کہ عمارت کے مکین خود ہی اسے خالی کر جائیں، اس لیے انہوں نے کبھی بھی اس کی مرمت نہیں کرائی۔ ٹوائلٹوں کے دروازوں میں کنڈیاں بالکل نہیں تھیں۔ یہی حال روشنی کا بھی تھا۔ اگر کبھی ٹوائلٹ جانا پڑتا تو اندر موجود شخص کسی بھی آہٹ پر اس وقت تک زور زور کھانستا رہتا تاوقتیکہ آنے والا الٹے پاؤں واپس نہ چلا جائے۔
ایک وقت تھا کہ لیاری کے علاقے میں شادی بیاہ کے موقع پر میوزیکل پروگرام منعقد کیے جاتے تھے۔ ان پروگراموں میں گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ نیپیئر روڈ کی مشہور رقاصائیں ان گانوں پر رقص کیا کرتی تھیں۔ بلوچی گانوں کے علاوہ انڈین گانوں پر بھی گلوکار طبع آزمائی کرتے تھے، لیکن جب اسٹیج پر اس وقت کے نامور گلوکار قادر بمبئی والا کو مدعو کیا جاتا تھا تو محفل عروج پر پہنچ جاتی تھی۔ ان محفلوں میں بڑا نظم و ضبط ہوتا تھا۔ مجال ہے کہ کسی رقاصہ سے چھیڑ چھاڑ کرے۔ اب ہمیں نہیں معلوم کہ قادر بمبئی والا کہاں ہے لیکن ایک وقت تھا کہ نا صرف لیاری بلکہ سندھ کے دیگر شہروں میں بسنے والے بلوچوں میں قادر بمبئی والا اتنا ہی مقبول تھا جیسے کہ انڈین گلو کار کشور کمار اور رفیع۔
میرپور خاص میں ایک استاد بمبئی بھی ہوتے تھے۔ نام ان کا محمد تھا لیکن مشہور استاد بمبئی کے نام سے تھے استاد فلمیں دیکھنے کے بڑے شوقین تھے خصوصاً انگریزی فلمیں۔ یہ فلمیں انہیں مفت دیکھنے کو ملتی تھیں۔ آج سے 30,40 برس قبل فلم دیکھنا عیاشی میں شمار ہوتا تھا۔ استاد مفت فلمیں اس لیے دیکھ پاتے تھے کیونکہ ان وقتوں میں کراچی سمیت سندھ کے دیگر بڑے شہروں میں فلمیں دیکھنے والوں کا بڑا رش ہوتا تھا۔ لوگ ہر نئی آنے والی فلم کا پہلا شو دیکھنا چاہتے تھے۔ نتیجتاً سنیما کے ٹکٹ گھروں پر رش کو قابو کرنے کے لیے ہٹے کٹے بلوچ ملازمین رکھے جاتے تھے۔ انہیں مقامی فلم بین جن کی اکثریت اردو بولنے والوں کی ہوتی تھی، بہت نفرت سے دیکھتے تھے لیکن ان کے آگے بے بس تھے۔ وہ جس طرح چاہتے قطار بنواتے، جس کو چاہتے پہلے ٹکٹ دلواتے تھے۔ سینمائی زبان میں انہیں ”پیداگیر“ کہا جا تا تھا۔ میرپور خاص کے سینماؤں کے یہ پیدا گیر استاد بمبئی کے یار ہوتے تھے ان کے ذریعے وہ فلم لگنے کے پہلے دن ہی شو دیکھنے میں کامیاب ہوتے تھے۔
فلم دیکھنے کے اگلے دن عشاء کی نماز کے بعد محلے کے بزرگ ایک مخصوص جگہ پر گپ شپ لگانے کے لیے بیٹھتے تھے اور اس دن نوجوان اور بچے بھی آس پاس جگہ سنبھال کر بیٹھ جاتے تھے۔ مجلس کے مہمان خاص استاد بمبئی ہوتے تھے اور پھر استاد بمبئی فلم کی کہانی داستان کے انداز میں بیان کرتے تھے۔ انگریزی جملے وہ اتنی تیزی سے بولتے تھے جو بمشکل ہی سمجھ میں آتے تھے، لیکن ان جملوں کا بلوچی ترجمہ بہت سلیس اندازمیں کرتے تھے۔ اسی طرح ریوالور کی گولی چلنے کی آواز مشین گن چلنے آواز سے مختلف ادا کرتے تھے۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ استاد انگریزی کا ایک لفظ نہ بول سکتے تھے نہ ہی سمجھ سکتے تھے بلکہ صرف اپنے مشاہدے کی بنیاد پر پوری فلم کی کہانی بلوچی میں بیان کرتے تھے اور وہ تقریباً فلم کے مطابق ہی ہوتی تھی۔واہ بمبئی واہ۔۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں کی بمبئی اب تک بمبئی ہے۔ یہاں بمبئی مصالحہ دستیاب ہے تو بمبئی بریانی بھی۔ سندھ میں بمبئی کی ایک اور شناخت حیدرآباد کی بمبئی بیکری ہے جس کی کہانی اگلی باری۔۔۔
اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔