نقطہ نظر

چینی علاج

خطے میں چین کی سخاوت سے فائدہ اٹھانے والوں میں اب صرف پاکستان نہیں بلکہ دوسرے ممالک بھی شامل ہیں۔

ہمارے وزیر اعظم واپس فارم میں آچکے ہیں۔ دھرنے کے تاریک دنوں سے باہر نکلنے کے بعد وہ اب خود کو فتح یاب محسوس کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے اپنی کابینہ سے سختی سے بات کی ہے۔ انہوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوٹ رادھا کشن میں عیسائی جوڑے کے قتل کو جرم قرار دیا، اور پولیو کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ اور گذشتہ ہفتے وہ چین کے ساتھ 19 یادداشتوں پر دستخط کرنے کے لیے بیجنگ روانہ ہوگئے۔ ان یادداشتوں میں زیادہ تر بجلی اور صنعتی ترقی کے متعلق ہیں۔

دورہِ چین کچھ لحاظ سے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں سے پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کی کوشش ہے۔ چینی صدر کا ستمبر میں دورہِ پاکستان اس لیے ملتوی ہوگیا تھا کیونکہ اسلام آباد میں دھرنے جاری تھے۔ اس کی وجہ سے چینی صدر نے نئی دہلی جانا پسند کیا لیکن اسلام آباد آنا نہیں۔ اس کے علاوہ اپنے لوگوں اور باقی دنیا کو 'سب ٹھیک ہے' کی رپورٹ دینے کے لیے اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ چینی سرمایہ کاری پاکستان لائی جائے؟

پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات ایک طویل عرصے سے ملک کے لیے قابلِ فخر ہیں۔ یہ تعلقات ایک ہی وقت میں معاشی ترقی، مغرب پر انحصار کے خوف سے نجات، اور ہندوستان کے ساتھ توازن برقرار رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ایسا دوطرفہ تعلق ہے، جو پاکستان کی اسلامی شناخت، چین کے سرکاری طور پر لادین ہونے، یا مسلم اقلیتوں کے ساتھ اس کے برے سلوک کی وجہ سے تناؤ کا شکار نہیں ہوتا۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی زخموں پر چینی مرہم کے دن گنے جاچکے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ خطے میں چین کی سخاوت سے فائدہ اٹھانے والوں میں اب صرف اسلام آباد ہی شامل نہیں ہے۔ ستمبر میں اپنے دورہِ ہندوستان کے دوران چینی صدر نے اعلان کیا تھا کہ چین اگلے پانچ سالوں کے دوران ہندوستان کے ریلوے، صنعتی پارکس، اور ایٹمی توانائی کے پراجیکٹس میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ سرمایہ کاری دہلی کی امیدوں سے کم ہے، لیکن اس کو کسی بھی طرح ادنیٰ یا حقیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی بھی اکتوبر میں بیجنگ سے اچھی خبر اپنے وطن لے کر گئے، کہ چین افغانستان کو اگلے تین سالوں میں 30 کروڑ ڈالر کی گرانٹس دے گا۔ یہ امداد 2001 سے لے کر اب تک بیجنگ کی جانب سے کابل کو دی جانے والی تمام امداد سے زیادہ ہے۔

پاکستان کی سول سوسائٹی بھی اب زیادہ سمجھدار اور بااختیار ہوتی جارہی ہے، اور وہ چینی سرمایہ کاری کے فوائد پر سوال اٹھانے لگی ہے۔ گذشتہ ماہ سندھ ہائی کورٹ نے کراچی میں چینی فنڈز سے ایٹمی پاور پلانٹس کی تعمیر پر ماحولیاتی نقصانات کا حوالہ دیتے ہوئے اسٹے آرڈر جاری کیا۔ یہ حکم ایک صحافی، ایک آرکیٹیکٹ، اور کچھ اساتذہ کی جانب سے فائل کی گئی پٹیشن پر جاری کیا گیا، جبکہ نامور سائنسدانوں کی جانب سے میڈیا میں مہم بھی چلائی گئی، جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ ایٹمی پاور پلانٹ کے لیے مجوزہ ڈزائین APC-1000 پہلے کہیں بھی بنایا اور ٹیسٹ نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ چین میں بھی نہیں۔

پاکستان اور چین کے درمیان سائن کی گئی حالیہ یادداشتوں میں کوئلے کی مائننگ بھی شامل ہے۔ یہ ایک اور ایسا مسئلہ ہے، جو کہ فکرمند شہریوں کی جانب سے اٹھائے جانے کا امکان ہے، خاص طور پر ان افراد کی جانب سے جو کہ ورلڈ بینک کے فیصلے کے تحت کوئلے سے چلنے والے پراجیکٹس کے ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے تھر پراجیکٹس سے اپنا پیسہ نکالنے میں آزاد ہیں۔

گوادر پورٹ میں چین کی سرمایہ کاری صوبے میں سیکیورٹی صورتحال اور بلوچ بغاوت کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔ ہماری ریاست کا رویہ یہ ہے کہ بلوچ بغاوت کو کچل کر چینی پراجیکٹس کا جال بچھا دیا جائے۔ لیکن سول سوسائٹی کی مداخلت، خاص طور پر قانونی ذرائع سے ہونے والی مداخلت اور چینی سرمایہ کاری کے خلاف عوامی مزاحمت کو کچلنا شاید اتنا آسان نہیں ہوگا۔

پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے بارے میں چینی خدشات بھی نوٹ کیے جانے چاہیئں۔ صرف ایک مثال کے طور پر تھر پاور پراجیکٹ میں ہونے والی تاخیر کو دیکھیں، جو صرف اس وجہ سے ہے کہ چینی بینک گارنٹیاں قبول کرنے اور مالیاتی رسک اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان اوئغور عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے چین کی جانب سے بڑھتے ہوئے پریشر کے لیے بھی تیار رہے۔ پورے خطے میں دہشتگردوں کی تربیت، نیٹ ورک، منصوبہ بندی، اور مالی مدد کے لیے ہمارا ملک بیس کیمپ کا کام دیتا ہے، اور جیسے جیسے اوئغور لوگوں پر چینی جبر بڑھتا جائے گا، ہمارے اپنے ہی علاقے میں مزید لوگوں کے انتہاپسندی کی جانب مائل ہونے کا خطرہ ہے۔ چین پاکستان کو اس مسئلے پر پہلے ہی کئی مواقع پر خبردار کرچکا ہے، اور چین میں عسکریت پسندوں کے مزید حملوں سے دوطرفہ تعلقات تناؤ کا شکار ہوسکتے ہیں۔

کابل نے بھی اوئغور مسئلے کو بیجنگ کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی اور پاک چین تعلقات کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ پچھلے سال افغان انٹیلیجنس ایجنسیوں نے درجنوں اوئغور جنگجوؤں کو گرفتار کر کے بیجنگ تک خصوصی رپورٹس بھیجیں، جن میں اس بات کے ثبوت فراہم کیے گئے تھے کہ یہ جنگجو پاکستان میں موجود ٹریننگ کیمپوں سے تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ اس میں حیرت کی بات نہیں کہ اشرف غنی اپنے دورہِ بیجنگ کے دوران اوئغور عسکریت پسندی سے نمٹنے میں چین کی مدد کرنے کا وعدہ کرچکے ہیں۔

چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں احتیاط کا مظاہرہ کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ ایک آزاد، معاشی طور پر مستحکم ملک بننا پاکستان کا حق ہے، اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مغربی امداد پر انحصار کے بدلے پاکستان چینی میگا پراجیکٹس پر بغیر تنقید کے مکمل انحصار کرنے لگے۔ امید ہے کہ دوطرفہ تعلقات میں تھوڑا سا کھنچاؤ پاکساتان کی اقتصادی اور خارجہ پالیسیوں کی پختگی میں کردار ادا کرے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @humayusuf کے نام سے لکھتی ہیں۔

huma.yusuf@gmail.com

یہ مضمون ڈان اخبار میں 10 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔

ہما یوسف

لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس huma.yusuf@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔