نصاب میں تبدیلیاں اور ایچ ای سی
نصاب میں تبدیلیاں کرنا اک کٹھن اور مسلسل عمل ہے مگر ہمارے ہاں اس مسئلے کو فن تعلیم (pedagogy) کے بجائے نظریاتی و سیاسی مصلحتوں سے جوڑ کر دیکھنے کی غلط روایت موجود ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے کہ آخرکار فن تعلیم کے مسئلے پر ہی سمجھوتہ کرنا پڑ جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نصاب تعلیم کے مسئلے پر اساتذہ، طلبا اور تعلیم پر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کو ”تبدیلی نصاب“ کے عمل میں شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے فن تعلیم کا مسئلہ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
9/11 کے بعد دنیا کو بدلتا دیکھ کر ہم نے بھی اس نئے بندوبست سے خود کو ہم آہنگ کرنے کا اعلان تو کر دیا تھا مگر نصاب تعلیم پر چھائے ضیاالحقی سایوں کو ہٹانے کا بندوبست نہ کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل مشرف پر بجاطور پر ”دہرا معیار“ اپنانے کی تہمت بھی لگی تھی۔ 2007 میں انہوں نے ”1998 کی تعلیمی پالیسی کا وسط مدتی جائزہ“ سے اس کا آغاز تو کر دیا مگر اس اہم ترین اور متنازعہ کام میں مقبول عام سیاسی جماعتوں کو شامل نہ کرنے کا عندیہ دے کر نصابی تبدیلیوں کے عمل کو ”بن باپ“ پیدا کرنے کا اہتمام کیا۔
2008 میں نئی آنے والی سرکار نے پہلے سے کیے کام کو الٹا سیدھا کرنے کے بعد 2009 میں نئی تعلیمی پالیسی کے عنوان سے جاری کر دیا۔ ابھی اس پالیسی کے رموز و اسرار کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ 18 ویں ترمیم نے تعلیم کو صوبائی مسئلہ قرار دے ڈالا۔ اب یہ بحث شروع ہو گئی کہ کیا چاروں صوبے الگ الگ تعلیمی ترجیحات اپنائیں گے؟ 2007 ہی میں نئی ٹیکسٹ بک پالیسی کا آرڈیننس بھی آیا تھا اور رہنمائے اساتذہ (students learning outcomes) کی دستاویز بھی بن چکی تھی۔ اس آرڈیننس کے تحت پہلی دفعہ نجی شعبہ کو نصابی کتب کی چھپائی کے ساتھ ساتھ تیاری میں بھی شامل کر دیا گیا تھا۔
پڑھیے: خفیہ نصاب
بس 2010 سے تادم تحریر صوبے انہی تین دستاویزات کے سہارے قانون سازیاں بھی کرتے رہے اور نصابی کتب بھی چھاپتے رہے۔ مگر اس سارے عمل میں نہ تو اساتذہ، طلبا اور تعلیم کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کا کوئی عمل دخل تھا، نہ ہی سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ نے کوئی کردار ادا کیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جس نجی شعبے (پرائیویٹ پبلشروں) کو نصابی کتب کی تیاری میں حصہ دار بنایا گیا تھا اس کی اپنی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ نہ ہی ان پبلشروں کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے کوئی پروگرام ترتیب دیا گیا ہے اور نہ ہی نصابی لکھاریوں کو نئے بندوبست سے ہم آہنگ کرنے کی باقاعدہ کوششیں کی گئیں ہیں۔
جن صوبوں کو 18ویں ترمیم کے بعد شعبہ تعلیم ملا تھا انہوں نے مرکزی وزارت تعلیم کی تقلید میں نہ تو اسمبلیوں میں اس اہم ترین مسئلے پر خصوصی سیشن کیے نہ ہی اساتذہ، طلبا اورغیرسرکاری تنظیموں سے مشاورت کو ضروری گردانا۔ اس دوران مرکزی سرکار نے تربیت کے نام پر اسلام آباد میں تعلیم کا اک وزیرمملکت بنا ڈالا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ 18ویں ترمیم کے خالق بھی تعلیم کے شعبہ میں صوبوں کے ”کلی اختیار“ (sole prerogative) کے قائل نہیں۔ گذشتہ نو سالوں سے پاکستان کی تمام تعلیمی دستاویزات کہ جن کی تعداد 17 کے لگ بھگ ہے اور گذشتہ 6 سالوں سے چھپنے والی نصابی کتب کا جائزہ لینے کے بعد آج میں یہ بات وثوق سے بتا سکتا ہوں کہ ہمارے پالیسی سازچند اہم ترین بنیادی نقاط پر بھی منقسم نظر آتے ہیں۔
اگر آپ ان اعلی اذہان کو ایک چھت تلے بیٹھا کر یہ پوچھیں کہ ”ہم اپنے بچوں کو تعلیم کیوں دینا چاہتے ہیں؟“ تو آپ کو طرح طرح کو جوابات ملیں گے۔ اگر ہم تعلیم کے حوالہ سے 67 سالوں میں کوئی ”کم از کم تصفیہ“ (minimum consensus) بھی نہیں بنا سکے تو اس کی وجہ کوئی بین الاقوامی سازش نہیں۔ اگر آپ موجودہ نصابی کتب اور ان سے وابستہ دستاویزات کا جائزہ لیں تو بشمول 2006 کے دستاویزات برائے نصابی لکھاری (SLOs) سب پر غیر جمہوری ادوار کا سایہ فگن بدرجہ اتم موجود ہے۔
مزید پڑھیے: یکساں نصابِ تعلیم
یہی نہیں بلکہ صنفی، ثقافتی و قومیتی، شہری، مذہبی و فرقہ وارانہ تعصبات کے ساتھ ساتھ جدیدیت، ہنری تعلیم اور پاکستانی سٹیزن شپ سے وابستہ مسائل کا سامنا بھی ہے۔
اب گذشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے ہائر ایجوکیشن کو دو ماہ میں اس گتھی کو صوبوں کی مشاورت سے سلجھانے کا ”حکم“ دے ڈالا ہے۔ اس مختصر وقت میں اگر HEC والے یہی چارٹ بنا لیں کہ وہ کون کون سے امور ہیں جنھیں تعلیمی بندوبست اور نصابی کتابوں میں شامل کرنے کی سختی سے ممانعت ہو تو شاہد بہت سے ابہام دور کیے جا سکتے ہیں۔ تعلیم کے حوالے سے دوسرا اہم ترین مسئلہ ”ذریعہ تعلیم“ کا ہے کہ پاکستانی مادری زبانوں میں تعلیم ہر پاکستانی کا بنیادی حق بھی ہے اور خود ہماری ضرورت بھی۔
HEC والے انگریزی اور اردو کے کردار اور مادری زبانوں کو پرائمری کی حد تک بطور ذریعہ تعلیم لاگو کرنے کے حوالہ سے اک ایسے کمیشن کی سفارش کر سکتے ہیں جو اپنی سفارشات قومی اسمبلی، سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کو بھیجے۔ اگر حکومت نصابی ہدایات اور ان سے وابستہ معیارات کو دوبارہ سے مرکزی وزارت تعلیم کیے دائرہ اختیار میں لے جانا چاہتی ہے تو مرکزی وزارت تعلیم کو ماضی کی طرح ”کلی اختیار“ بالکل نہ دے بلکہ فیصلے کرنے سے قبل وسیع تر مشاورت کے اصول سے پہلو تہی نہ برتی جائے۔
عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔