پاکستان

پاکستان کے دس بہترین ٹی وی رائٹر

‫ٹی وی کی خوش قسمتی یہ رہی ہے کہ اسے شروع سے ہی ایسے رائٹرز کی خدمات حاصل رہیں‬ جن کی تحریروں نے تہلکہ مچا کر رکھ دیا۔
|

پاکستان کے دس بہترین ٹی وی رائٹر

سعدیہ امین اور فیصل ظفر


پاکستانی ڈراموں کا جادو ہمیشہ سے لوگوں پر چلتا رہا ہے اور جب بھی ڈراموں کی بات ہوتی ہے تو لوگ اداکاروں، اداکاراﺅں اور ڈائریکٹرز کے سامنے رائٹرز کو فراموش کردیتے ہیں۔

حالانکہ لکھاری وہ فرد ہوتا ہے جس کے بغیر کسی ڈرامے کی مقبولیت کا سوچا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ مضبوط اور اچھی کہانی ہی کسی ڈرامے کی کامیابی کی بنیادی ضمانت ہوتی ہے اور پاکستان میں ٹی وی کی خوش قسمتی یہ رہی ہے کہ اسے شروع سے ہی ایسے رائٹرز کی خدمات حاصل رہیں جن کے تحریر کردہ ڈراموں نے تہلکہ سا مچا کر رکھ دیا اور ہم نے ان میں سے ہی چند سب سے بہترین کو منتخب کیا ہے جنھیں ٹی وی ڈراموں کا معمار بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔


منشا یاد


منشا یاد 5 ستمبر 1937 کو حافظ آباد کے قریب ایک گاﺅں میں پیدا ہوئے تھے، ان کا اصل نام محمد منشاء تھا، تاہم انہوں نے منشا یاد کے قلمی نام سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا افسانہ 1955 میں منظرِعام پر آیا تاہم افسانہ نگاری اور ناول کے مقابلے میں لوگ انہیں ڈراموں کے حوالے سے زیادہ جانتے ہیں: جنون، بندھن، آواز اور پورے چاند کی رات ان کے معروف ٹیلی ویژن ڈرامے ہیں۔ منشا یاد پنجابی میں بھی اسی روانی اور سہولت سے لکھتے تھے جیسے اردو میں، چنانچہ ان کے پنجابی ناول ’ٹاواں ٹاواں تارا' کو انتہائی کامیابی کے ساتھ ایک ڈرامہ سیریل میں ڈھالا گیا جو کہ 'راہیں' کے نام سے پی ٹی وی سے نشر ہوا اور اپنے عہد میں تہلکہ مچا گیا۔ حکومت پاکستان نے 2004 میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا جبکہ پندرہ اکتوبر 2011 کو ان کا انتقال ہوا۔


اشفاق احمد


اشفاق احمد 22 اگست 1925 کو فیروز پور ہندوستان میں پیدا ہوئے، لاہور سے ایم اے اردو کرنے کے علاوہ اٹلی، فرانس اور نیو یارک کی یونیورسٹیوں میں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ مشہور افسانے 'گڈریا' سے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ انھوں نے1965 میں ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک فیچر پروگرام 'تلقین شاہ' کے نام سے شروع کیا جو تقریباً تین دہائیوں سے زائد تک عوام میں بے حد مقبول رہا۔ ان کا ٹی وی کے لیے اصلاحی پروگرام 'زاویہ' بھی عوام میں بے حد پسند کیا گیا تاہم پی ٹی وی کے لیے لکھے ان کے ڈرامے اس چینیل کو ہر دلعزیز بنانے کا اہم سبب بنے۔ معاشرتی اور رومانی موضوعات پر 'ایک محبت سو افسانے' کے نام سے ایک ڈرامہ سیریز لکھی اور اسی کی دہائی میں ان کی سیریز 'توتا کہانی اور من چلے کا سودا' نشر ہوئی۔ اسی طرح 'حیرت کدہ' کے نام سے لکھی سیریز کون بھول سکتا ہے جبکہ 'فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی' جیسا شاہکار لانگ پلے بھی ان کے ہی قلم کا اعجاز تھا، اشفاق احمد سات ستمبر 2004 کواس دنیا سے چل بسے۔


یونس جاوید


یونس جاوید نے 23 اکتوبر 1944 کو لاہور میں میاں عبدالحمید کے ہاں آنکھ کھولی، پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی اور خود کو ادب کی دنیا سے منسلک رکھنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ درحقیقت ان کا ڈرامہ نگار بن جانا بھی اتفاق ہی تھا، معروف شاعر سرمد صہبائی سے ملنے ان کا پی ٹی وی لاہور سینٹرجانا ہوتا تھا ایک بار وہاں انہیں ایک ڈرامہ لکھنا پڑا جس کو پسند بھی کیا گیا تاہم اصل شہرت1981 میں نامور پروڈیوسر محمد نثار حسین کے کہنے پر طویل دورانیہ کا کھیل 'کانچ کا پل' لکھا، جو بیجنگ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ اسی طرح ہیروئین کی لعنت پر ان کے لانگ پلے 'رگوں میں اندھیرا' نے خوب کامیابی حاصل کی اور اس سے ہی پی ٹی وی کی کامیاب ترین سیریلز میں سے ایک 'اندھیرا اجالا' کی بنیاد پڑی، انہوں نے ٹی وی کے لیے پت جھڑ، رنجش، خواب عذاب، سل، کانٹے، شہرِ مراد، مٹھی بھر آسمان جیسے کامیاب سیریلز اور دھوپ دیوار، وادی پرخار، پھولوں والا راستہ، ساون روپ، عہد وفا اور دیارِ عشق جیسے عمدہ طویل دورانیے کے ڈرامے تحریر کیے۔


فاطمہ ثریا بجیا


یکم ستمبر 1930 کو پیدا ہونے والی فاطمہ ثریا بجیا مقبول ترین ڈرامہ رائٹر بھی ہیں، ان کے لکھے گھریلو ڈرامے ہر دور میں سب کی پسند رہے ہیں، ان کے بیشتر ڈرامے جیسے شمع، افشاں، عروسہ اور انا بہت بڑی کاسٹ اور بڑے خاندانوں کے مسائل کی بہترین عکاسی کرتے رہے ہیں جبکہ انارکلی، زینت، آگہی، بابر اور سسی پنوں ان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے چند نام ہیں۔ فنی خدمات پر انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغۂ حسن کارکردگی اور جاپان کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نواز گیا تاہم طویل عرصے سے علالت کے باعث وہ پردہ اسکرین سے دور ہیں۔


حسینہ معین


کون ہے جو ٹی وی ڈراموں کا ذکر کرے اور حسینہ معین کا نام بھول جائے، وہ 20 نومبر 1941 کو ہندوستان کے شہر کانپور میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے اور تقسیم ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئیں۔ وہ کافی سالوں تک راولپنڈی میں رہیں، پھر لاہور چلی گئیں اور 1950 میں کراچی میں مقیم ہوگئیں۔ انہوں نے جامعۂ کراچی سے 1963 میں تاریخ میں ماسٹر کیا۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے بہت سے یادگار ڈرامے لکھے جن میں: شہزوری، زیر زبر پیش، انکل عرفی، ان کہی، تنہایاں، دھوپ کنارے، دھند، آہٹ، کہر، پڑوسی، آنسو، بندش، آئینہ جیسے مشہور ڈرامے شامل ہیں اور انہیں پی ٹی وی کا سب سے مقبول ترین رائٹر رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔


شوکت صدیقی


بیس مارچ 1923 کو لکھنؤ میں پیدا ہونے والے شوکت صدیقی ممتاز ناول نگار، افسانہ نگار اور صحافی مانے جاتے ہیں تاہم ان کے حصے میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے مقبول ترین ڈرامہ سیریل لکھنے کا اعزاز بھی آیا جو ان کے ایک ناول 'خدا کی بستی' کو ڈرامائی تشکیل دینے کے سبب انہیں ملا۔ اسے 1969 میں پاکستان ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا، خدا کی بستی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسے تین مرتبہ ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا اور اس کے 42 زبانوں میں تراجم ہوئے۔ اس ناول کے اردو زبان میں بھی پچاس سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ ان کا ایک اور مشہور ناول 'جانگلوس' ہے جو سب سے پہلے سب رنگ ڈائجسٹ میں قسط وار شائع ہوا اور پھر اسے پاکستان ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا تاہم بعض وجوہات کی بنیاد پر اسے مکمل نشر نہ کیا جاسکا۔ حکومت پاکستان نے ان کی اعلیٰ ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا، اٹھارہ دسمبر 2006 کو شوکت صدیقی کراچی میں وفات پاگئے۔


انور مقصود


انور مقصود پاکستان شوبز کی مشہور ترین شخصیات میں سے ایک ہیں جو 35 سال سے اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ وہ ایک اداکار، شاعر، مصنف، ٹی وی میزبان، مزاح نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مصور بھی ہیں۔ انور مقصود نے اپنے 35 سالہ دور میں معاشرے کے اہم معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کیا ہے، ان کے کیے گئے تمام پروگرام ناظرین میں بے پناہ مقبول ہوئے اور پاکستان ٹیلی وژن کی پہچان بنے۔ اہم معاشرتی مسائل کو انتہائی سادہ اور ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں ناظرین کے سامنے پیش کرنا ان کا خاصہ ہے جیسے 'آنگن ٹیڑھا' جیسی کلاسیک سیریل کو کون فراموش کرسکتا ہے۔ اپنے اسی انداز کی وجہ سے وہ پاکستان ٹیلی وژن کے مداحوں کی پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کے مشہور پروگرامز میں ففٹی ففٹی، شو ٹائم، ہاف پلیٹ، ستارہ اور مہرالنسا، نادان نادیہ اور دیگر شامل ہیں۔


امجد اسلام امجد


امجد اسلام امجد چار اگست 1944 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے جبکہ ابتدائی تعلیمی مراحل لاہور میں طے کیے۔ بنیادی طور پر شاعری کے میدان کے شہسوار ہیں تاہم ٹی وی ڈراموں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں، خاص طور پر ان کا تحریر کردہ ڈرامہ 'وارث' اپنے دور میں تو سپرہٹ تھا ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ایسا سدا بہار سیریل ہے جو موجودہ عہد کے پاکستان کو لاحق مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ ریڈیو پاکستان سے بطور ڈرامہ نگار چند سال وابستہ رہنے کے بعد امجد اسلام امجد نے پی ٹی وی کے لیے کئی سیریلز لکھیں، جن میں ’وارث‘ کے ساتھ ساتھ دہلیز، دن، سمندر، رات، وقت اور اپنے لوگ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔


اطہر شاہ خان، جیدی


اطہر شاہ خان 1943 میں ہندوستان کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے، آپ پاکستانی ڈرامہ نگار، مزاحیہ و سنجیدہ شاعر اور اداکار ہیں۔ اپنے تخلیق کردہ مزاحیہ کردار 'جیدی' سے پہچانے جاتے ہیں جبکہ اصلی نام اطہر شاہ خان ہے۔ مزاحیہ شاعری میں بھی 'جیدی' تخلص رکھتے ہیں۔ انہوں نے ٹیلی وژن اور اسٹیج پر بطور ڈرامہ نگار اپنے تخلیقی کام کا آغاز کیا۔ آپ کے تحریر کردہ مزاحیہ ڈراموں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں اطہر نے بتایا کہ وہ ایک دفعہ اپنے ہی ایک ڈرامے کے ایک اداکار کے ساتھ موٹر سائیکل پر سفر کر رہے تھے کہ سواری میں کوئی نقص پیدا ہو گیا، جب اسے ٹھیک کرنے کیلئے رکے تو لوگوں نے اداکار کو پہچان لیا لیکن مصنف (یعنی اطہر شاہ خان) کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔ بقول اطہر شاہ خان کے اس واقعے نے انہیں اداکاری پر مائل کیا جس کے نتیجے میں جیدی کا کردار تخلیق ہوا۔ جیدی کے کردار پر مرکوز پاکستان ٹیلی وژن کا آخری ڈرامہ 'ہائے جیدی' 1997 میں پیش کیا گیا۔


اصغرندیم سید


اصغر ندیم سید ٹی وی ڈراموں کے شعبے کے مقبول ترین لکھاریوں میں سے ایک ہیں، جو کہ افسانہ نگاری اور صحافتی کالموں کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوانے میں کامیاب رہے ہیں، لاہور میں پیدا ہونے والے اصغر ندیم سید کے کریڈٹ میں کئی معروف ترین ڈرامے جیسے ہوائیں، چاند گرہن، نجات، غلام گردش اور پیاس موجود ہیں۔