میرے ایماندار مبصر، آپ کے 'لفافہ' صحافی
ملکہ نے ایک دفعہ پوچھا تھا "مررر مررر آن دی وال، ہو از دی فیئرسٹ آف دیم آل؟
جواب یہ آیا "یقیناً وہ تم نہیں میری پیاری ملکہ چاہے تو کسی سے بھی تصدیق کرالو"۔
ناراض ہوکر ملکہ چلائی"اے لفافہ مرر تمہارے اوپر تو مٹی کے داغ ہیں"۔
بدقسمتی سے بیچاری ملکہ یہ جان کر دیوانی سی ہوگئی کہ یہ بات شیشے کی رائے سے سامنے آنے والی حقیقت کو تبدیل کرنے کے لیے کافی نہیں مگر یقیناً آپ یعنی میرے پیارے ہم وطن اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔
ورنہ ہمارے ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں جو ہر اس صحافی جس کے الفاظ سے وہ اتفاق نہ کرتے ہوں، کو لالچی اور بکا ہوا میڈیا مین قرار دیتے ہیں۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہم ان جیسے نہیں۔
یہاں ایسے بیوقوفوں کی بھی کمی نہیں جو سوچتے ہیں کہ پیغامبر کو ہدف بنانے سے وہ اپنی پسند کا نتیجہ حاصل کرسکتے ہیں۔
جب جب ایک ایلچی نے تگارنز کو لوکولوس کی فوج کی آمد پر خبردار کیا تو تگارنز نے اس موت کی سزا دے دی، اس سے تمام قاصدوں ک اندر اپنی زندگیوں کا خطرہ لاحق ہوگیا اور انہوں نے بادشاہ کے پاس کوئی بھی خبرپہنچانے سے انکار کردیا، آدھا شہر پہلے ہی اس وقت منہ چھپا کر بیٹھ گیا جب تگارنز آخرکار اپنے زیراقتدار علاقوں میں لوکولوس کے حملوں پر سامنے آیا۔
مگر یقیناً چاروں موسموں، سمندروں، پہاڑوں ، صحراﺅں اور سطح مرتفع وغیرہ کی سرزمین کی عالمانہ میراث کے حامل ہیں اور خدا جانتا ہے کہ حماقت میں کون سب سے اوپر ہے ۔
یا ہم ہیں؟
یہ ملک میں تیزی سے عام ہوتا جارہا ہے کہ تمام پیغام بر لہروں پر سفر کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور بری خبروں کی تمام رکاوٹوں کی توہین کی جاتی ہے، اور بری خبروں کی جہاں تک بات ہے ہمارے ہاں اس کی کمی نہیں۔
جب کوئی کاغذ پر اپنا قلم رکھتا ہے تو اس کا ذہن ہماری سرحدوں کے اندر کامیابی کی کہانیوں کی جانب چلا جاتا ہے بلاشبہ کوئی بھی قوم کے ان چند بچوں کو سراہ سکتا ہے جو بلندی کی جانب جاتے ہوئے متعدد مقاصد کے لیے خدمات سرانجام دیتے ہیں، مگر ان سے کیا اچھا سامنے آتا ہے؟
لکھے جانے والے ہر لفظ کا مقصد اور ارادہ عوام کو یہ یاد دلانا ہوتا ہے کہ انہیں سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے، اطمینان کے گڑھے میں گرنے کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ فیض احمد فیض نے کہا تھا:
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو ک وہ منزل ابھی نہیں آئی
تو بیشتر احمقانہ دلیرہ دکھانے والے صحافیوں کو یہ باتیں یاد دلانے کی ذمہ داری احتیاط سے پوری کرنی چاہئے، یہاں تک کہ کئی بار جو مبالغہ آرائی کی جاتی ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
یہ اس لیے بھی خاص ہے کیونکہ اس سے ہم بغیر کسی ملاوٹ کے کوئی واضح تصویر دکھا سکتے ہیں، بلندیوں کے درمیان واقع کچی بستیوں پر بات کرسکیں گے اور سیاسی تجزیوں کو چیلنج کرسکتے ہیں، جو صحافی ایسا کرتے ہیں انہیں کرپٹ، معتصب بلکہ غدار تک کہا جاتا ہے۔
یہ بدمزگی صرف صحافیوں تک ہی محدود نہیں اگر کوئی سوشل میڈیا میں جاری مباحثوں کا جائزہ لیں تو یہ دو نتائج اس کا جامع تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
پاکستان کے دانشورانہ طبقے صرف مذہب اور سیاست تک محدود ہیں۔
اور یہ کہ پاکستانی کبھی کسی نکتہ نظر کا دفاع کرتے ہوئے کچھ زیادہ معقول دلائل تلاش نہیں کرپاتے۔
کوئی سقراط، اطلاطون، ابن خلدون، مارک ٹوئن اور اقبال کا حوالہ کسی رائے کے دوران دے سکتا ہے، دیگر ہوسکتا ہے کہ واحد اصطلاح لوٹے کو استعمال کریں اور اس طرح دوسرے فرد کو ہاتھ گرانے پر مجبور کردیں۔
باقی بچ جانے والے اس بات کو یقینی بناسکتے ہیں کہ اصطلا حق پر کسی کی اجارہ داری نہ ہو، ہمیں کسی معاملے میں امتیاز سے گریز کرنا چاہئے اس کے لیے تو بس مخالفانہ رائے کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے زیادہ دائیں، دائیں، سینٹر، بائیں یا فار لیفٹ کا حصہ بن جاتے ہیں اور آپ ہمیشہ یہی کچھ سنتے رہتے ہیں۔
یہ کہا جاتا ہے کہ تشدد کمزوروں کا ہتھایر ہے، اگر یہ ٹھیک ہے تو پھر کسی بحث میں پیغام بر کو منطقی دلائل کی بجائے ذاتی حملے، دغا بازی وغیرہ سے ہدف بنایا جاتا ہے، کو غیرعقلی حوالہ قرار دیا جانا چاہئے، اور ایسے عقل سے پیدل مسابقین کی تعداد کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں۔
یہ چیز کسی انکاری شخص کا ٹاسک زیادہ مشکل بنادیتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آپ کا کام کسی جانب سے سراہا نہ جائے،کیونکہ ایسے ماحول جہاں تعمیراتی تنقید بھی حقارت کا نشانہ بنے اور مخالفین کے چھوٹے دل کی نشانی سمجھا جائے،اور جہاں جہاد شیطان کی بجائے مثالی تبدیلی کے خلاف ہو وہاں یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔
مگر یہ بھی حقیقیت ہے کہ اس کی جستجو ہر معاشرے کو خیالی دنیا سے نکال کر اس تبدیلی کی جانب لے جاتی ہے جس کی خواہش میں وہ مرا جارہا ہوتا ہے۔
نظرانداز کرنا کوئی فرحت بخش عمل نہیں مگر کسی کی سخت دشمنی سے زیادہ بہتر ہے۔
جب کوئی حقائق سے ناواقف ہوتا ہے، خیالات کی بحث میں شامل ہونے سے انکار کردے اور ہمیشہ کسی دوسرے کی کمزوریوں، تعصب کو بڑھاوا دے تو کیا اس سے کوئی بدترین امر ہوسکتا ہے؟
اگر کوئی ظالم بادشاہ اپنی کمزوریون کی ہر خبر کو خوش آمدید کہے، تو دیواریں یقیناً دور ہٹ جائے گی۔
یہ وقت کا سچ ہے، استحکام کسی کی خوشامد سے نہیں آتا بلکہ ذاتی تجزیے اور بہتری سے آتا ہے، جب کوئی نڈھال ہوجاتا ہے تو یہ دیگر کا فرض ہے کہ وہ اس کی جگہ لیں، یہی تاریخ کا سبق ہے۔
جب کوئی بحث برداشت کرنا مشکل ہوجائے اور کسی مباحطے کا جواب دینا بہت زیادہ مشکل لگے تو لوگوں کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ یہ مسلمہ خبرپہنچانے والے کی غلطی ہے یا یہ کسی شخص کی اپنی منطق کی غلطیاں ہیں جس نے اسے ہچکچانے پر مجبور کردیا ہے؟
اس کے علاوہ اگلی بار کسی کی ذاتی رائے کا مذاق اڑاتے ہوئے شکسپیئر کی انتھونی اور قلوپطرہ کی کہانی کو یاد رکھیں، انتھونی کی آکوٹیوا سے شادی کی خبر قلوپطرہ کو سنانے پر موت کی دھمکی پر پیغام بر کا کہنا تھا: مہربان مادام، میں صرف خبر لایا ہوں میں نے یہ جوڑی نہیں بنائی"۔
بحث میں ذاتی حملوں کو شامل کرنا بلاشبہ دنیا بھر میں عام حربہ ہے مگر یہ بات ہمیں ہمارے اپنے معقول نظریات کی جانب پہلا قدم بڑھانے سے نہیں روک سکتی۔
بدر اقبال ایک وکیل ہیں جنھوں نے بی پی بی یونیورسٹی یوکے سے قانون جبکہ الیکٹرونک اور کمیونیکشن میں کارڈف یونیورسٹی سے انجنئیرنگ کی ڈگری حاصل کرکھی ہے۔
بدر اقبال چوہدری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے انگلینڈ کی بی پی پی یونیورسٹی سے قانون کی، اور ویلز کی کارڈف یونیورسٹی سے الیکٹرانکس اور کمیونیکشن کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور میگزینز میں لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔