نقطہ نظر

آپریشن ضرب عضب اور چچا عبدل

ہزارہ برادری کے افراد یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آپریشن کے باوجود بلوچستان میں حالات ٹھیک کیوں نہیں ہورہے۔

چچا عبدل میرے ان پڑوسیوں میں سے ایک ہیں جو ضرب عضب کے شروع ہونے سے بہت خوش تھے۔ ان کا نوجوان بیٹا ان سو سے زائد لوگوں میں شامل تھا جو جنوری 2013 میں ہونے والے علمدارروڈ خودکش حملے میں قتل ہو گئے تھے۔ وہ اس لحاظ سے زیادہ ہی بدقسمت تھے کہ انہیں دفنانے کے لیے اپنے بیٹے کے جسم کا کوئی ایک حصہ بھی نہیں مل سکا تھا۔ اس لیے انہوں نے ایک خالی قبر پر اپنے بیٹے کی ایک تصویر لگا رکھی تھی جس پر وہ روز حاضری دیتے۔

اگرچہ روتے روتے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے خالی ہوگئیں تھیں لیکن ان کے پاس شکایتوں اور سوالوں کا ہمیشہ ڈھیرلگا رہتا تھا۔ وہ موقع ملتے ہی ہر ملنے جلنے والے سے ایک سوال ضرور پوچھتے "کیا ان دہشت گردوں کوروکنے والا کوئی نہیں جنہوں نے ہزاروں گھرانے اجاڑ دیے؟"

میری ان سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ اپنا وہی سوال ضرور دہراتے جس کا جواب شاید میرے سمیت کسی کے پاس نہ تھا۔

پھرجون 2014 میں جب حکومت نے پاک فوج کی مدد سے دہشت گردوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا توعوام کی اکثریت کی طرح چچا عبدل بھی بڑے مطمئن نظر آئے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس آپریشن کے باعث دہشت گردوں کے ملک بھر میں پھیل جانے سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں لیکن چچا عبدل کو بہر حال اس بات کی خوشی تھی کہ دیر سے ہی سہی آخر کار حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کر تو لیا تھا جو پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے قتل کے ذمہ دار تھے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے قبائلی علاقوں پر قبضہ جمائے پاکستان سمیت پورے خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف تھے۔

ضرب عضب شروع ہوا تو ان لوگوں کی بے چینی بھی بڑھ گئی جن کا خیال تھا کہ اب حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوں گے۔ حالانکہ بلوچستان خصوصاَ کوئٹہ تو ایک عرصے سے آگ اور خون میں ڈوبا ہواتھا۔ جہاں اگر ایک طرف فرقہ واریت کے نام پرکئی سالوں سے ہزارہ قوم کا منظم قتل عام جاری تھا وہاں ویرانوں سے مسلسل بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں بھی مل رہی تھیں۔

اس دوران قانون نافذ کرنے والے ادارے بدامنی کے مرتکب افراد کو گرفتار کرنے کے بجائے عوام کے ارد گرد اونچی دیواریں تعمیر کرکے انہیں اپنے ہی گھروں میں قید کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ ہزارہ طالب علموں پر تو اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے تک مکمل بند کر دیے گئے تھے۔ ان کے تاجروں کو گھات لگا کے قتل کیا جارہا تھا، وہ اپنے مذہبی رسوم آزادی سے ادا نہیں کر سکتے تھے اور ان کے بچوں اور عورتوں کا قتل عام بغیر کسی روک ٹوک کے جاری تھا۔

دوسری جانب دہشت گرد اور ان کی سرپرست پارٹیاں بلا خوف و خطر جب جی چاہے کالے شیشے اور بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیوں اور مسلح نقاب پوشوں کے ساتھ جلوس نکال کے شہر کے بھرے بازاروں میں کافر کافر کے نعرے لگاتیں اور جلسے کرتیں۔ 14 مارچ کو ایک ایسے ہی "عظیم الشان" جلسے میں جو شہر کے حساس ترین علاقے یعنی صوبائی سیکریٹریٹ ، گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کے بغل میں واقع ہاکی گراؤنڈ میں منعقد ہواتھا۔

پچھلے سال کوئٹہ میں "دو میچوں کے دوران ڈبل سینچریاں" بنانے پر فخر کا اظہار کیا گیا لیکن صوبائی حکومت اور ریاستی ادارے ان سے بازپرس کرنے کے بجائے ان کی خاطر مدارات میں لگے رہے۔ تبھی شدت پسندوں کے سرپرست اپنی پریس کانفرنس میں صوبائی حکومت کی "مہمان نوازی" کا دل کھول کر شکریہ ادا کرتے دکھائی دیئے۔

شاید انہی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی سال جون میں ہیومن رائٹس واچ نے "ہم زندہ لاشیں ہیں" کےعنوان سے مرتب کردہ اپنی رپورٹ میں حکومت اور ریاستی اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "انہیں سمجھنا چاہیے کہ لشکر جھنگوی کے مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہزارہ اور دوسری شیعہ برادری کے قتلِ عام پر بے عملی نہ صرف اپنے ہی شہریوں سے بے حسی اور بے وفائی ہے بلکہ اس کا مطلب جرائم کو جاری رہنے میں حصہ دار بننا ہے۔"

بی بی سی اردو کے مطابق اس رپورٹ کے آخرمیں فرنٹیئر کور کے بعض ایسے سابق "گمنام" عہدیداروں کا بیان بھی شامل تھا جنہوں نے ہزارہ قوم کو ایران کا ایجنٹ اور ناقابل اعتبار قرار دیا تھا۔ ان نامعلوم عہدیداران کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہزارہ اپنی حالتِ زار کو ’مبالغے‘ کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ ان کو کسی دوسرے ملک میں پناہ مل جائے اور وہ ایران سے بھی مالی اور سیاسی امداد حاصل کر سکیں۔

ایک اہم ریاستی ادارے کے گمنام عہدیداروں کے مذکورہ بیانات سے ہزارہ قوم کے خلاف ان کے تعصب اور نفرت پر مبنی رویوں کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یقیناَ یہ وہی لوگ ہوں گے جن کی ملازمت کے دوران ہزارہ عورتوں، بچّوں اور مردوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا اور کسی نے قاتلوں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

شاید اسی لیے جب ضرب عضب کا آغاز ہوا تو اکثر لوگوں کی طرح چچا عبدل نے بھی سکھ کا سانس لیا۔

ضرب عضب جاری رہا اور ایسی خبریں ملتی رہیں کہ دہشت گرد داڑھی مونچھیں منڈوا کے علاقے سے بھاگ رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نےشیو بنوانے پر پابندی لگا رکھی تھی اور حجام کی دوکانوں کو زبردستی بند کروا دیا تھا۔

چچا عبدل کے لیے یہ خبریں اطمینان کا باعث تھیں کہ معصوم بچّوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کے قاتل پناہ کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں اور اب شاید کسی کو ان کی طرح اپنی باقی زندگی اپنے کسی پیارے کی قبر پر روتے ہوئے نہ گزارنی پڑے۔

لیکن ایسا ہوا نہیں۔ عید پر جب وہ دوبارہ نظر آئے تو ان کے چہرے پر وہی پرانی مایوسی تھی۔ سلام دعا کے بعد ہی پھٹ پڑے۔ کہنے لگے کہ کچھ نہیں بدلنے والا۔ ہم قتل ہوتے رہیں گے اور حکومت تماشا دیکھتی رہے گی۔

میں نے اسے تسلی دینے کی خاطر کہا کہ اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد ملک میں امن و امان کی صورت حال بہت بہتر ہوئی ہے؟ ذرا خود ہی سوچیں کہ اسلام آباد میں گزشتہ ڈیڑھ مہینے سے دھرنا ہورہا ہے لیکن اس دھرنے میں آج تک دہشت گردی کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا۔ حالانکہ عمران خان اور طاہرالقادری کے بارے میں حکومت کے بعض اتحادیوں کا یہی خیال ہے کہ وہ بہ یک وقت یہودی ، امریکی اور ایرانی ایجنٹ ہیں لیکن اس کے باوجود دھرنے میں دہشت گردی کا کوئی معمولی واقعہ بھی نہیں ہوا؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان تبدیل ہو رہا ہے اور دہشت گرد چھپنے کی جگہ تلاش کر رہے ہیں۔

چچا عبدل نے ایک سرد آہ بھر کر کہا کہ یہی بات تو مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اگر پاکستان تبدیل ہو رہا ہے تو یہ تبدیلی بلوچستان میں کیوں نظر نہیں آرہی؟ کیا بلوچستان کی صورت حال شمالی وزیرستان سے بہتر ہے؟ یہاں بھی تو آئے دن لوگوں کو سرعام قتل کیا جاتا ہے، بچّیوں کے اسکول جلائے جاتے ہیں، عورتوں پر تیزاب پھینکا جاتا ہے، ویرانوں سے نوجوانوں کی لاشیں ملتی ہیں، بم دھماکے ہوتے ہیں اور عبادت گاہوں پر حملے ہوتے ہیں۔ اگر حکومت اسلام آباد اور پنجاب کو ددہشت گردی سے بچا سکتی ہے تو ہمیں تحفظ کیوں نہیں دے سکتی؟

ابھی پچھلی عید پر بھی میرے بیٹے کی عمر کے دو نوجوانوں کو بڑی بے دردی سے قتل کیا گیا تھا جن کی لاشیں کئی گھنٹوں تک سڑک کنارے پڑی رہیں اوربے حس لوگ اندھے بن کرآس پاس سے گزرتے رہے۔ اورپھر اس عید پر کیا ہوا؟ ایک اور خود کش حملہ، جس میں بوڑھے سبزی فروش، ایک عورت اورتین معصوم بچّوں سمیت چھ لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ ایسے میں میں کیسے اس بات کا یقین کرلوں کہ آپریشن ضرب عضب سے بلوچستان میں امن قائم ہوگا؟ میں کیسے اپنے آپ کو تسلی دوں کہ کبھی ہمارے قتل عام کا سلسلہ بھی رکے گا اور ہم بھی پرامن زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں گے؟

چچا عبدل کے ان سوالوں کے میں خاک جواب دیتا جب کہ میرے اپنے ذہن میں کئی سوالات اٹھ رہے تھے اور آنکھوں کے سامنے پچھلے چند مہینوں کی یہ خبریں گردشش کر رہی تھیں:

مستونگ میں دو خواتین پر تیزاب سے حملہ

کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہزارہ برادری کے مزید 2 افراد کو قتل کر دیا جبکہ پشین میں تیزاب پھینکنے سے 6 خواتین جھلس کر زخمی ہو گئیں۔

ذکری بلوچ کمیونٹی پر حملہ۔ آٹھ افراد ہلاک

تربت : ضلع کیچ میں سکول نذر آتش

بلوچستان میں داعش کی موجودگی کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر مالک بلوچ

بلوچستان میں مذہبی گروہوں کے لیے جگہ بنائی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کا الزام

تین لاکھ افراد بلوچستان سے نقل مکانی پر مجبور۔ ایچ آر سی پی

حسن رضا چنگیزی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔