نقطہ نظر

ایک 'نوبیل' پنگا

ہندو اور مسلم ہیروز کو ساتھ سیلیبریٹ کرنے کا آئیڈیا سندھ کی صوبائی حکومت کا تھا، نوبیل کمیٹی نے یہ آئیڈیا چرایا ہے۔

ملالہ یوسف زئی اور کیلاش سیتارتھی کو امن کا مشترکہ نوبیل انعام ملنے کے بعد سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے بیان جاری کیا گیا ہے۔ بیان میں اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ نوبیل انعام ملنے کی خوشی اپنی جگہ لیکن صوبائی حکومت کو انعام دینے کے طریقہ کار پر شدید تحفظات ہیں۔

مصدقہ ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت نے معاملے پر غورو خوض کے لیے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا جس میں وزیر تعلیم اور سیکریٹری محکمہ تعلیم کابینہ کے اراکین کو اس حوالے سے خصوصی بریفنگ دی۔ باخبر ذرائع کے مطابق اجلاس کے آغاز میں سینئر وزیر کی جانب سے ملالہ یوسف زئی کو نوبیل انعام ملنے پر خوشی کا اظہار کیا گیا۔

سینئر وزیر کے بعد صوبائی وزیر تعلیم نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ ملالہ کو نوبیل انعام دیاگیا ہے، لیکن انعام دینے کے طریقہ کار پر اعتراض ہے۔ اس سلسلے میں نوبیل انعام دینے والی کمیٹی سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اقلیتی امور کے وزیر نے کہا کہ یہ معاملہ صرف صوبائی نوعیت کا نہیں بلکہ اب بین الاقوامی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ میں ملک کے مستقل مندوب سے بھی رابطہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھائیں۔

اس موقع پر سماجی بہبود کے وزیر نے کہا کہ یہ معاملہ جنرل اسمبلی میں نہیں بلکہ سیکیورٹی کونسل میں اٹھانا چاہیے کیوں کہ اس کے اثرات دو پڑوسی ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک پر ہوں گے۔ صوبائی وزیر داخلہ کو اس موقع پر ہدایت کی گئی کہ وہ بتائیں کہ صوبائی حکومت اس سلسلے میں کیا اقدامات کرسکتی ہے۔ وزیر داخلہ نے کابینہ کو بتایا کہ چونکہ یہ معاملہ اب ایک بین الاقوامی صورت اختیار کرگیا اس سلسلے میں جو قدم اٹھایا جائے گا وہ وفاقی حکومت اور دفتر خارجہ کی جانب سے ہوگا۔

اجلاس میں شریک ایک وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کابینہ میں اس معاملے پر خاصی لے دے ہوئی۔ بعض وزراء کا خیال تھا کہ وفاقی حکومت جو سیاسی دھرنوں اور جلسوں کی وجہ سے سخت دباؤ میں ہے، اس معاملے کو اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے استعمال کرے گی۔ ویسے بھی صوبائی حکومت کی جماعت پر یہ الزام ہے کہ وہ وفاق میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔

ملالہ یوسف زئی چوں کہ اب ایک عالمی شخصیت بن گئی ہیں اور نوبیل انعام حاصل کرنے والی سب سے کم عمر فرد کا درجہ بھی حاصل کرچکی ہیں تو بالآخر فائدہ وفاق کو ہی جائے گا۔ اس موقع پر ایک خاتون مشیر نے مشورہ دیا کہ ملالہ کے حوالے سے پہلے محکمہ تعلیم کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی پریزنٹیشن پیش کریں۔

اس بات پر اتفاق رائے ہوا۔ لیکن اس سے پہلے ایک وزیر نے مشورہ دیا کہ چونکہ یہ معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے اور اجلاس کے حوالے سے مختلف ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز آرہی ہیں، اس کے سدباب کے لیے سب سے پہلے تمام وزراء سے فون لے لیے جائیں اور کمیٹی روم مکمل طور پر بند کر دیا جائے اور کسی بھی ملازم کو اندر آنے کی اجازت نہ ہو۔ یہ مشورہ بھی اتفاق رائے سے منظور ہوا۔

دوسری جانب سیاسی تجزیہ نگاروں نے مختلف ٹاک شوز میں اسی صورت حال کو انتہائی گھمبیر قرار دیا۔ اجلاس کے خاتمے کے بعد اعلان کیا گیا کہ صوبائی وزیر اور سیکریٹری تعلیم ایک گھنٹے بعد پریس کانفرنس کریں گے۔ ٹی وی چینلز پر پریس کانفرنس سے قبل تبصرے اور تجزیے تواتر کے ساتھ پیش کیے جارہے تھے۔ ملالہ کو انعام ملنے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے پورا ملک افواہوں کی زد میں تھا۔ پڑوسی ملک کے ٹی وی چینلز بھی ملالہ اور سیتارتھی کے معاملے پر جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ آخر کار پریس کانفرنس کا آغاز ہوا۔ صوبائی وزیر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا؛

صحافی بہنوں اور بھائیو! آج کی اس پریس کانفرنس کا مقصد ملالہ یوسف زئی اور کیلاش سیتارتھی کو مشترکہ نوبیل انعام دیے جانے پر روشنی ڈالنی ہے۔ دوستوں ہمیں اس بات کی بے انتہا مسرت ہے کہ کیلاش اور ملالہ کو نوبیل انعام دیا گیا۔ لیکن ہمیں بات پر اعتراض ہے نوبیل انعام کمیٹی نے کہیں بھی ہماری صوبائی حکومت کا ذکر نہیں کیا جو انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ کیلاش اور ملالہ یعنی ایک ہندو اور مسلمان کی خدمات کو سراہنے کا بنیادی خیال ہماری حکومت نے دیا ہے۔ ہم اس منصوبے پر گزشتہ دو برسوں سے باقاعدہ کام کر رہے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے اس خیال کو چرایا گیا جو کہ ایک اچھا عمل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں جلد ہی ہماری جماعت اپنی حکمت عملی تیار کرے گی آپ لوگوں کی آمد کا بہت شکریہ، اس موقع پر سوال جواب نہیں ہوں گے یہ پھر کبھی سہی"۔

پریس کانفرنس ہال میں ایسا لگا کہ بھونچال آگیا ہو۔ کئی صحافی بیک وقت کھڑے ہوگئے اور چیخ چیخ کر وزیر سے پوچھنے لگے کہ ان کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ان کا منصوبہ چرایا گیا ہے۔ وزیر موصوف ہال سے نکلنا چاہتے تھے لیکن اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے مجبور صحافی ان کو روکنے کے لیے ان کی راہ میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ اس دوران دھکم پیل کی وجہ سے ایک صحافی کا دانت بھی ٹوٹ گیا اور ایک وزیر کی قیمتی گھڑی بھی ان کے ہاتھ سے غائب ہوگئی۔

اطلاعات کے وزیر نے فوراً زخمی صحافی کے لیے ایک لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا لیکن اس کے باوجود صحافی مُصر تھے کہ انھیں ان کے سوال کا جواب دیا جائے۔ آخر صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر وزیر موصوف نے سیکریٹری محکمہ تعلیم کو ہدایت کی کہ وہ اس حوالے سے صحافیوں کوبریفنگ دیں۔

سیکریٹری تعلیم نے مائیک پر آکر کہا کہ وہ صرف اس سوال کا جواب دیں گے کہ اس حوالے سے ان کے پاس کیا ثبوت ہیں۔ کانفرنس ہال کی بتیاں بند کردی گئیں۔ ہال میں لگی اسکرین پر تصویریں دکھائی گئیں جو ایک اسکول کے بیرونی گیٹ کی تھیں۔ سیکریٹری صاحب نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ صحافی بھائیو ان تصویروں کو غور سے دیکھیں یہ آج سے دو سال قبل کی ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر بھی موجود آپ اس کی تصدیق انٹرنیٹ کے ذریعے کرسکتے ہیں۔

اسکرین پر دکھائی جانے والی تصویر میں اسکول کی عمارت پر دو بورڈ آویزاں تھے۔ ایک پر اسکول کا نام "سیٹھ کوروجی کام جی لوہانہ" گجراتی اسکول اور دوسرے بورڈ پر ملالہ یوسف زئی گورنمنٹ سیکنڈری اسکول لکھا ہوا تھا۔

سیکریٹری صاحب دوبارہ بولے، "حضرات! ہندو مسلم یکجہتی کی بنیاد ہماری حکومت نے رکھی تھی۔ اس طرح کے کئی اور اسکول بھی ہیں جو ہندوؤں کے نام پر بھی ہیں اور ملالہ کے نام پر بھی۔ اب آپ ہی یہ فیصلہ کریں کہ یہ چوری نہیں تو کیا ہے"۔

ہال میں خاموشی چھاگئی۔ ہال کی بتیاں روشن کردی گئیں۔ صحافی وزیر موصوف اور سیکریٹری صاحب کو ان کی اس کاوش پر مبارک باد دینے لگے۔

آخر میں اس بلاگ کو پڑھنے والوں کی خدمت میں ہمارے عزیز شاعر دوست فاضل جمیلی کا منظوم خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

کہہ دو یہ ظلمتوں سے کہ لڑکی نہیں ڈری

بی بی کی شال آج ملالہ نے اوڑھ لی

تم نے تو لڑکیوں کے مکاتب جلا دیے

دیکھو تو شمع علم کی پھر بھی نہیں بجھی

کس کس کے راستے میں فصیلیں اٹھاؤ گے

خوشبو کسی گلاب کی روکے نہیں رکی

دیکھو تو اک جہاں ملالہ کے ساتھ ہے

اب کوئی بے نظیر نہتی نہیں رہی

جس گھر میں بیٹیوں کی دعائیں ہوں گلفشاں

اس گھر میں آسماں سے اترتی ہے روشنی

وضاحت: یہ ایک تفریحی بلاگ ہے جس میں شامل کردار اور کچھ معلومات حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔