نقطہ نظر

ایک گمنام مندر کی کہانی

حیدرآباد میں اب بھی کئی جگہ اس شہر کے شاندار ماضی کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ مندر اس دور کی کئی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

اگر حیدرآباد سے آپ کا تھوڑا سا بھی تعلق رہا ہے، تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ سندھ کا یہ دوسرا بڑا شہر جمعے کے روز مکمل طور پر بند ہوتا ہے۔ خالی سڑکوں، سنسان بازاروں کی وجہ سے جمعے کے دن شہر میں گھومنے پھرنے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔

تو میں نے بھی اس اس شور ہنگامے کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھانے کا سوچا، اور ایک دلچسپ، مگر گمنام جگہ جانے کے لیے تیار ہوگیا۔ پکے قلعے کی مغربی دیوار کے ساتھ اس مندر جیسی عمارت کو میں پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا تھا لیکن کبھی اس کے سائے تلے کھڑے ہو کر اسے قریب سے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔

یہ عمارت نئے دور کی عمارتوں کے پیچھے کچھ اس طرح چھپ سی گئی ہے، کہ اگر صحیح سمت میں نہ دیکھا جائے، تو آپ اسے ڈھونڈ نہیں پائیں گے۔ مجھے اس کی بالکل درست لوکیشن کا اندازہ لگانے میں تقریباً پانچ منٹ لگے۔ عمارت پر نظر ڈالتے مجھے ایسا لگا، جیسے میں وقت میں پیچھے کی جانب سفر کر رہا ہوں۔ یہ ایک مندر ہی تھا، یا یوں کہہ لیں کہ ایک مندر کی باقیات ہی تھیں۔ مینار اپنی جگہ پر موجود تھا، اور میں نے یہ چیز حیدرآباد میں کسی اور جگہ نہیں دیکھی تھی۔ میں نے حیدرآباد میں تقسیم سے پہلے کے تعمیر شدہ کئی ہندو عبادت گاہیں دیکھی ہیں، لیکن اس مندر کا طرزِ تعمیر ان دیگر تمام مندروں سے مختلف ہے۔

تقسیم سے پہلے حیدرآباد میں سندھی ہندو اکثریت میں ہوا کرتے تھے۔ تاریخ اور طرزِ تعمیر کا تھوڑا سا مطالعہ بھی یہ جاننے کے لیے کافی ہے، کہ ان سندھی ہندوؤں کا تعمیر کردہ حیدرآباد بے مثال تھا۔ یہ لوگ زیادہ تر تجارت اور کاروبار پر انحصار کرتے تھے۔ وہ یہاں رہے، پھلے پھولے، لیکن جب انڈیا پاکستان کی تقسیم ہوئی، تو بڑھتے ہوئے فسادات کی وجہ سے زیادہ تر سندھی ہندو اپنے بڑوں کی سرزمین چھوڑ کر یہاں سے ہجرت کرگئے۔

مینار کو غور سے دیکھنے پر یہ صاف ظاہر تھا، کہ اس کا کچھ حصہ وقت کی بے رحمی کا شکار ہوچکا ہے، لیکن یہ اب بھی کافی بہتر صورتحال میں تھا۔ یہ روایتی سرخ اینٹوں سے تعمیر شدہ عمارت ہے، جس پر دیوی دیوتاؤں کے مجسمے موجود ہیں۔

مینار کی ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی، جس میں ایک کبوتر بیٹھا ہوا تھا۔ اب مجھے یہ یقین ہوگیا تھا، کہ یہ عمارت تقسیم سے پہلے کی ہی ہے، لیکن کتنی پرانی؟ اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ اس مندر کے مختلف طرزِ تعمیر کو دیکھ کر مجھے یہ شک گزرا، کہ کہیں یہ جین مذہب کا مندر تو نہیں؟ کیونکہ تقسیم سے پہلے حیدرآباد میں جین بھی کافی بڑی تعداد میں رہائش پذیر تھے۔ بہرحال، میں نے انڈیا میں مقیم ایک تاریخ اور آرکیولاجی کے ماہر دوست ارجن کمار سے رابطہ کیا، اور انہیں تصاویر دکھائیں۔ ارجن کمار کا کہنا تھا کہ شِکھر، یعنی چوٹی کی شکل میں بلند ہوتا مینار اور باہر موجود مجسمے یہ ظاہر کرتے ہیں، کہ یہ ہندو دھرم کا ہی مندر ہے۔

قریب پہنچنے پر یہ واضح تھا کہ عمارت کا صحن اب لوگوں کے لیے گھر کا کام دے رہا تھا۔ جیسے ہی میں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا، تو ایک شخص کی پیچھے سے آواز آئی، کہ میں آگے نہ جاؤں، کیونکہ یہ ایک گھر ہے۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ میرا مقصد صرف کچھ تصاویر لینا ہے، جس پر اس نے اجازت دے دی۔ اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلی چیز جو نوٹ کی، وہ لکڑی کا ایک دروازہ تھا، جو کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود اب بھی ہتھیار ڈالنے کو تیار نظر نہیں آتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سیڑھیاں تھیں، جو اوپر موجود ایک چھوٹے سے کمرے کی جانب جارہی تھیں۔ شاید اب وہاں کوئی رہائش پذیر تھا اس لیے میں نے وہاں جانے کا ارادہ ترک کردیا۔ اندر ایک ورانڈہ بھی تھا۔ گیٹ کے ساتھ ہی دائیں جانب ایک کمرے کے اوپر مینار تعمیر شدہ ہے۔ میں نے اندر موجود لوگوں کو اپنا تعارف کرایا، اور تصویریں لینا شروع کردیں۔

صرف مندر ہی نہیں، بلکہ یہ پورا کمپاؤنڈ ہی برٹش دور میں تعمیر شدہ ہے۔ ویرانڈے کے اوپر پرانے زمانے کی چھوٹی چھوٹی محرابیں صاف دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ میں تصویریں کیوں لے رہا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرا مقصد اس تاریخی جگہ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ وہ یہاں کتنے عرصے سے مقیم ہیں۔ انہیں یہ تو معلوم نہیں تھا، لیکن انہوں نے بتایا کہ دو نسلوں پہلے ان کا خاندان تقسیم کے بعد یہاں منتقل ہوگیا تھا۔ ان کا تعلق انڈیا کے کس علاقے سے تھا، یہ خاتون وہ نہیں جانتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مندر کے بارے میں بھی زیادہ کچھ نہیں جانتیں۔

اس کے بعد انہوں نے مجھے کوریڈور دکھایا، اور بتایا کہ کیسے ایک دفعہ چھت بارشوں کی وجہ سے گر گئی تھی۔ چھت اب بھی کافی خراب حالت میں تھی اور کسی بھی وقت گرنے کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔ مندر کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ نچلا حصہ کچھ عرصے پہلے کافی بری طرح نقصان جھیل چکا ہے، جبکہ مینار کے اوپری حصے تک اب جایا نہیں جاسکتا۔

انہوں نے چائے کی پیشکش کی، جس پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ میں اس جگہ کے بارے میں مزید جاننا چاہتا تھا، لیکن اس کے بارے میں نہ ہی مقامی لوگوں کو معلوم ہے، اور نہ ہی تاریخی ڈاکیومینٹس میں اس کا کچھ ذکر ہے۔ میں نے سوچا کہ کاش ہمارے حکام اس عمارت کی بحالی کے لیے کچھ کریں، لیکن میں جانتا ہوں کہ ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔

ڈھلتے سورج کی روشنی جب مندر پر پڑی، تو یہ منظر ناقابِل بیان حد تک دل کو چھو لینے والا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ شام کی یہ خوشگوار دھوپ ان مجسموں میں کسی بھی لمحے روح پھونک دے گی۔ عمارت سے دور جاتے ہوئے میں نے ایک بار پھر مڑ کر دیکھا، اور پھر باہر نکل آیا۔ مجھے اس بات پر خوشی اور حیرانی ہے کہ کس طرح حیدرآباد کا شاندار ماضی اب بھی اس شہر میں جگہ جگہ اپنی یاد دلاتا ہے، اور ماہ و سال کی سختیوں کے باوجود اس شہر کو چھوڑ جانے کو تیار نہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

حوالہ جات:

Partition of India: The Case of Sindh - Migration, Violence and Peaceful Sindh - Ahmad Salim (http://www.sdpi.org/publications/files/A-97.pdf)

سید ذیشان احمد

ذیشان ٓاحمد ادبییات، موسیقی، فلموں، ماضی، اور مستقبل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرImZeesh@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔