نقطہ نظر

مزدور جاگنے لگا

بنگلہ دیش نے ملازمین کے تحفظ اورحادثات کی روک تھام میں سبقت حاصل کرلی ہے تاہم اس نے یہ سبق کافی مشکل راستے کے بعد سیکھا۔

دفاتر میں تحفظ ایک بنیادی انسانی حق ہے تاہم ہمارے جنوبی ایشیائی معاشرے کے مخصوص مزاج یعنی قسمت کو ہی ہر چیز کا ذمہ دار سمجھنے کا تصور اس کی پیشرفت کو سست کرنے کا سبب بن رہا ہے، مثال کے طور پر "اگر چھت آپ کے سر پر گرپڑے تو یہ بہت برا ہے مگر دفتر میں کام کرنے کے دوران اس طرح مرنا تو آپ کی قسمت میں تھا"۔

تاہم اب ملازمین اور دیگر اسٹیک ہولڈرز مزدوروں کے ساتھ غیرانسانی سلوک اور اس مضحکہ خیز دلیل کے خلاف اٹھنا شروع ہوگئے ہیں، اگر پاکستان میں نہیں تو کم از کم بنگلہ دیش میں تو ورکرز نے تحفظ کا مطالبہ کرنا شروع کردیا ہے اور اسٹیک ہولڈرز اس کو سن بھی رہے ہیں۔

بنگلہ دیش نے ملازمین کے تحفظ اور صنعتی حادثات کی روک تھام میں سبقت حاصل کرلی ہے تاہم اس نے یہ سبق کافی مشکل راستے کے بعد سیکھا یعنی 2005 سے 2013 تک متعدد صنعتی حادثات میں دو ہزار سے زائد ورکرز ہلاک اور بڑی تعداد میں زخمی ہوئے۔

یہ حادثات بلڈنگ سیفٹی کوڈز اور لیبر اسینڈرڈز کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں ہوئے، تاہم بنگلہ دیش کو قابل عمل میکنزم پر عملدرآمد میں ایک دہائی سے زائد عرصہ لگ گیا۔

آج بنگلہ دیش میں 'فائر اینڈ بلڈنگ معاہدہ' کے تحت بنگلہ دیشی،عالمی ٹریڈ یونینز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں(ایم این سی) کے درمیان پانچ سالہ قانونی معاہدہ ہوا ہے جسے جنوبی ایشیاءمیں تبدیلی لانے کے لیے سراہا جارہا ہے۔

اس معاہدے کا خیال ابتداءمیں 2010 میں سامنے آیا تھا اور بنگلہ دیش اور بیرون ملک متعدد اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مشاورت کے بعد مئی 2013 میں اس پر دستخط اس سانحے کے ایک ماہ بعد ہوئے، جبکہ رانا پلازہ منہدم ہونے سے 1138 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس معاہدے پر 170 ایم این سیز، سات بنگلہ دیشی مزدور یونین فیڈریشنز اور تین عالمی ٹریڈ یونینز نے دستخط کیے، جس کے تحت ایک اسٹئیرنگ کمیٹی کا قیام عمل میں آیا جس میں مزدور یونینوں اور کمپنی مالکان کو یکساں نمائندگی دی گئی ہے، جبکہ یہ معائنے، اصلاحات اور تربیت وغیرہ مکمل شفافیت کے زیرتحت فراہم کرنے کا کام کرتی ہے۔

اس معاہدے کے تین عناصرقانونی عملدرآمد، حکومتی معاونت اور ورکرز کو آگے لانا قابل ذکر ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے کو بڑی پیشرفت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔

اس معاہدے کے بعد سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیرتحت کام کرنے والی پندرہ سو میں سے آٹھ سو فیکٹریوں کا معائنہ اگست 2014 تک مکمل ہوگیا تھا، اس کے علاوہ ایک اور چیز 26 امریکی و کینیڈین کمپنیوں کی جانب سے الائنس فار بنگلہ دیش ورکرز سیفٹی کا قیام عمل میں لانا تھا تاکہ پانچ سالہ منصوبے پر عملدرآمد کرایا جاسکے۔

رواں برس کے شروع میں اس اتحاد نے اپنے اراکین کی سات میں سے چھ سو ایک فیکٹریوں کا معائنہ کیا تھا۔

ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت بنگلہ دیش کے جی ڈی پی میں مجموعی طور پر سترہ فیصد تک اضافہ کرتی ہے، جبکہ برآمدات سے حاصل ہونے والا 78 فیصد حصہ بھی اسی صنعت کی بدولت خزانے کا حصہ بنتا ہے، ملک بھر میں چار ہزار کے لگ بھگ کارخانوں میں 42 لاکھ افراد کام کررہے ہیں جن میں 75 فیصد خواتین ہیں۔

ان دونوں اہم ابتدائی اقدامات میں مرکزی شراکت دار جیسے ایم این سیز جنھوں نے سرگرمیوں پر عملدرآمد کے لیے فنڈز مہیا کیے، مقامی صنعت کار جن کے ذمے فیکٹریوں کی مرمت یا تزئین نو کے اخراجات کا ذمہ لگایا گیا، نے اہم کردار ادا کیا ہے، تو پھر بنگلہ دیشی حکومت کا کیا کردار ہے؟

ریاست کا کردار ایک ایسے قابل اعتبار تحفظ اور صحت کے نظام کو قائم کرنا ہے جو اس وقت بنگلہ دیش میں بہت کمزور ہے، حکومت نے کوشش تو کی مگر بنگلہ دیش(پاکستان کی طرح) میں فیکٹری مالکان پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ 'لیبر اخراجات' میں اضافے کا باعث بننے والی تبدیلیوں کی مزاحمت کرتے ہیں۔

2005 میں ایک کارخانے کے مہندم ہونے سے ستر ہلاکتوں کے بعد بنگلہ دیشی حکومت نے مقامی مزدور یونینز، عالمی تجارتی اداروں اور لیبر آرگنائزیشنز کے دباﺅ پر ایک ٹاسک فورس قائم کی تھی، جس کو بنگلہ دیش مینوفیکچررر و ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کی ملکیت میں موجود بڑے کارخانوں میں سخت آڈٹ اور غیراعلانیہ معائنے جیسے اقدامات کے ذریعے کور کرنا تھا، تاہم یہ اقدام ناکام ثابت ہوا۔

اس کے بعد حکومت نے حفاظتی معیار کو یقنی بنانے کے لیے 2005 میں ہی ایک کمپلینس مانیٹرنگ سیل تشکیل دیا مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، جس کے بعد ایک اور اقدام 2006 میں حکومت، صنعت، خریداروں اور مزدور یونینز کی نمائندگی سے ملٹی فائبر ایگریمنٹ فورم کی تشکیل کی صورت میں سامنے آیا مگر وہ بھی ناکام ثابت ہوا۔

ان ناکامیوں کی وجہ سیاسی عزم میں کمی اور بڑے صنعتکاروں کا سیاسی گروپ کی شکل میں ایک ہونا تھا۔

نومبر 2012 میں جب ایک فیکٹری میں آتشزدگی سے ایک سو بارہ افراد ہلاک ہوئے تو جنوری 2013 میں وزارت محنت، صنعتکاروں، مزدور یونینز اور آئی ایل او نے 'مشترکہ عزم' اختیار کرتے ہوئے بلڈنگ اینڈ فائر سیفٹی کے ایک 'قومی سہ طرفہ منصوبے' پر کام شرع کیا، جس کی توثیق گزشتہ برس مارچ میں کی گئی۔

اس منصوبے میں قوانین اور پالیسیوں، انسانی وسائل کی ترقی اور انتظامیہ وغیرہ کے امور کو کور کیا گیا تھا۔

اسی کے زیرتحت بنگلہ دیش لیبرایکٹ 2006 میں جولائی 2013 میں ترامیم کی گئیں، جبکہ اکتوبر 2013 میں قومی پیشہ وارانہ تحفظ و صحت پالیسی کی منظوری دی گئی، ایم این سیز کے فنڈز سے طے پانے والے معاہدے کو قومی منصوبے کی شکل میں ڈھال دیا گیا۔

زمینی حقائق کی یہ کہانیاں بنگلہ دیش میں اس صنعت میں کام کرنے کی صورتحال اور ورکرز کی ترقی جیسی اہم پیشرفت کا عندیہ دیتی ہےمگر مقامی صارفین کے لیے کام کرنے والی فیکٹریوں کے بارے میں کیا سوچا گیا؟ اس کے علاوہ اگر بین الاقوامی برانڈز کی جانب سے فنڈنگ روک دی جاتی ہے تو کیا یہ قومی پیشہ وارانہ تحفظ و صحت نظام مستحکم رہ سکے گا؟

علاوہ ازیں اب وقت ہے کہ پاکستان میں بھی اسٹیک ہولڈرز تحفظ کے معاملات پر آگے آئیں اور اپنے ملازمین اور ریاست کے اندر اس معاملے پر کھڑے ہونے کی حوصلہ افزائی کریں اور اس بات کا تنقیدی جائزہ لیں کہ آخر صرف آئی ایل او پر انحصار کرنے کی بجائے کیوں نہ ورکرز کے تحفظ کے لیے مشترکہ ایکشن پلان پر کام کیا جائے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری پاکستان انسٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سے وابستہ ہیں۔


زینت حسام
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔