نقطہ نظر

تحریکِ طالبان پاکستان ٹوٹ پھوٹ کا شکار

طویل عرصے سے جاری جنگ، اور ملا فضل اللہ کی بحیثیت امیر نامزدگی کی وجہ سے تحریک طالبان شدید کمزور ہوچکی ہے۔

آپریشن ضربِ عضب اور اس سے بھی پہلے سے جاری ایک طویل مرحلے وار فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ڈرون حملوں نے کالعدم تحریکِ طالبان کے بنیادی ڈھانچے کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر تھوڑے عرصے کے بعد کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کا کوئی نہ کوئی اہم رہنما ڈرون حملے کا شکار ہوجاتا ہے اور نیک محمد سے لے کر بیت اللہ محسود، قاری حسین، ولی الرحمان محسود، ملا نذیر، حکیم اللہ محسود کے علاوہ لاتعداد اہم جنگجو مارے جاچکے ہیں جب کہ پنجابی طالبان کے کمانڈر الیاس کشمیری اور قاری ظفر جیسے منصوبہ ساز بھی پن پوائنٹ نشانہ بنے۔

اسی طرح تحریکِ طالبان پاکستان کے گڑھ وزیرستان اور ملحقہ قبائلی پٹی میں موجود القاعدہ کی مرکزی قیادت کا بھی یہی حشرہوا۔ متعدد عرب وافریقی القاعدہ رہنما مختلف اوقات میں امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ ان کامیاب حملوں میں جہاں انٹیلی جنس اداروں کے کامیاب نیٹ ورک کا کمال ہے، تو وہیں ان جنگجوؤں کے آپس کے سنگین اختلافات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی لڑائیاں اور ایک دوسرے کی مخبری بھی ایک بہت بڑا سبب ہے۔


پڑھیے: وزیرستان میں طالبان کی آپس میں جھڑپیں، سات ہلاک


اب حالت یہ ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے تمام اہم رہنما اور کمانڈرز افغانستان فرار ہوچکے ہیں اور وہیں سے کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی طرح طویل جنگ اور ساتھ ساتھ اندرونی کشمکش کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کے بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ سے نمٹا جائے۔

جب سے ملا فضل اللہ کو تحریکِ طالبان پاکستان کا امیر مقرر کیا گیا ہے، تنظیم میں زبردست دھڑے بندی سامنے آئی ہے۔ محسودوں کے مختلف دھڑے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں۔ گو کہ حکیم اللہ محسود کے وقت بھی ولی الرحمان محسود سے اس کی چپقلش چل رہی تھی اور دونوں گروپ ایک دوسرے کی مخبری سے لے کر خون خرابے سے بھی دریغ نہیں کر رہے تھے، پر جب تنظیم کے بڑوں نے دونوں گروپس کو ایک جگہ بٹھا کر آپس میں صلح صفائی کروائی، تو عارضی طور پر یہ سلسلہ رک گیا، مگر آگے چل کر آخر کار اس کا نتیجہ حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمان محسود کی ہلاکت کی صورت میں آیا، جب دونوں رہنما مختلف اوقات میں ڈرون حملوں کا نشانہ بنے اور دونوں گروپس کے لوگوں نے ایک دوسرے پر مخبری کا الزام عائد کیا۔

لیکن ٹی ٹی پی میں اختلافات اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئے جب حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ملا فضل اللہ کو نیا امیر تحریکِ طالبان پاکستان مقرر کیا گیا جس کا تعلق سوات سے تھا۔ محسود جنگجوؤں نے اس فیصلے کا بہت برا منایا اور اندرونِ خانہ مخالفت شروع ہوگئی لیکن تنظیمی نظم وضبط کی وجہ اس پر پردہ پڑا رہا۔

وہ سمجھتے تھے کہ ٹی ٹی پی کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں انہوں نے دی ہیں اور ٹی ٹی پی کی بنیاد بھی بیت اللہ محسود نے رکھی تھی اس لیے اس کی قیادت پر بھی ان کا سب سے زیادہ حق ہے۔

اس سلسلے میں وہ بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کے دور میں ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی اور اس کے نتیجے مں وزیرستان میں فوجی آپریشن اور ڈرون حملوں کی صورت میں بیت اللہ اور حکیم اللہ محسود کے علاوہ سینکڑوں جنگجوؤں کی ہلاکت کو وہ ایسی قربانیاں تصور کرتے تھے جس کا کوئی جواب نہیں۔

اسی طرح ملا فضل اللہ کو سوات میں شریعت کے نفاذ اور سخت اسلامی سزاؤں والی عدالتیں قائم کرنے کے علاوہ پاکستانی فوج اور حکومت کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے پر تحریکِ طالبان پاکستان و افغانستان میں ایک ممتاز حیثیت حاصل تھی اور ملا عمر نے بھی حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ملا فضل اللہ کو ٹی ٹی پی کا امیر مقرر کرنے کی سفارش کی تھی۔

محسودوں کے علاوہ مہمند ایجنسی کے طالبان بھی اس فیصلے پر کچھ زیادہ خوش نہیں تھے لیکن وہ بھی مصلحت کی وجہ سے خاموش رہے۔ ملا فضل اللہ اپنی سخت گیر طبیعت اور بے لچک رویے کی وجہ سے کبھی بھی طالبان کے مختلف کمانڈرز میں اپنے سابقہ امیروں کی طرح مقبول نہ ہوسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بجائے افغانستان کے شہر کُنڑ سے جس طرح وہ تنظیم چلارہے ہیں وہ بھی تنظیم پر اپنا اثر کھونے کا ایک سبب ہے جبکہ اس سے پہلے سابقہ امیر بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود دونوں وزیرستان سے بیٹھ کر قیادت کے فرائض انجام دیتے رہے تھے۔ گو کہ ملا فضل اللہ نے امیر بننے کے بعد ملک بھر میں متعدد دہشت گردی کی کارروائیاں کروائیں جن میں دفاعی اداروں اور فورسز کو خصوصآ نشانہ بنایا گیا لیکن وہ پھر بھی اپنے مخالفین کو متاثر نہ کر سکے۔


مزید پڑھیے: ثالث یا تحریک طالبان پاکستان کے اتحادی؟


ٹی ٹی پی کو ملا فضل اللہ کےامیر منتخب ہونے کے بعد اس وقت سب سے بڑا دھچکا لگا جب اس کے ایک گروپ کے ترجمان اعظم طارق نے 28 مئی 2014 کو کمانڈر خالد محسود عرف خان سیّد سجنا کی قیادت میں ٹی ٹی پی سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ تحریکِ طالبان پاکستان اپنے مقاصد سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور عام مقامات پر معصوم لوگوں کو اپنے بم حملوں کا نشانہ بنارہی ہے اور حملوں کے لیے فرضی گروپس کا نام استعمال کیا جارہا ہے، جب کہ درحقیقت ٹی ٹی پی ہی ان حملوں کے پیچھے ہوتی ہے، مدارس اور مساجد سے بھتہ وصولی بھی ان کا ہی کام ہے۔ اس کے علاوہ اغوا برائے تاوان کے مکروہ دھندے میں بھی ملوث ہیں۔

اعظم طارق کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح بھی تنظیم میں رہ کر ان تمام باتوں کا حل نکالا جائے اور تنظیم کو متحد کرکے صیح خطوط پر چلائیں، لیکن قیادت نے ایک نہ سنی اور انفرادی طور پر وہ فیصلے کیے جو تنظیم کی بنیادی روح کے خلاف تھے، اس لیے اب ہم نے اپنا گروپ تشکیل دے دیا ہے اور جلد ہی دوسرے گروپس بھی ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔ واضح رہے کہ ماضی میں یہ گروپ ولی الرحمان محسود کی قیادت میں کام کر رہا تھا۔

اسی طرح اگست 2014 میں قاسم خراسانی کی قیادت میں ایک اور گروپ کا جنم ہوا جس نے ایک وڈیو پیغام کے ذریعے اپنے گروپ کا نام جماعت احرار الھند بتایا اور ساتھ ساتھ اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ہم اپنی جدوجھد جاری رکھیں گے اور شریعت قائم کرنے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں ہوگا۔ انہوں نے اپنا نیا گروپ قائم کرنے کے باوجود اپنے آپ کو تحریکِ طالبان کا ہی حصہ قرار دیا۔ قاری شکیل جو کہ اس گروپ کے ترجمان ہیں انہوں نے قاسم خراسانی کو جماعت الاحرار الھند کا امیر بتایا لیکن اپنے پورے پیغام میں کہیں بھی تحریکِ طالبان کے باقاعدہ امیر ملا فضل اللہ کا نام نہیں لیا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب یہ گروپ بھی اپنے راستے جدا کرچکا ہے اور تٹی ٹی پی سے اب اس کا کوئی تعلق نہیں رہا۔

اس گروپ کی سب سے بڑی قوت اس میں شامل وہ کمانڈرز ہیں جنہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنی دھاک بٹھائی ہوئی ہے اور ماضی میں ان کی وجہ سے ہی ٹی ٹی پی اس قابل ہوئی تھی کہ حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ مھمند ایجنسی کے کمانڈر عبدالولی عرف عمر خالد خراسانی نے نہ صرف مھمند ایجنسی بلکہ ملک بھر میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے طالبان کمانڈرز میں اپنا قد بہت اونچا کر لیا تھا۔ خصوصآ کراچی میں اس گروپ نے پے در پے خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے یہ ثابت کردیا تھا کہ یہ گروپ ملک بھر میں کہیں بھی کوئی بھی کارروائی کرسکتا ہے۔

عمر خالد خراسانی کے سالے خان بہادر نے کراچی میں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کا نیٹ ورک قائم کیا ہوا تھا جس سے تحریکِ طالبان مہمند ایجنسی کے تمام اخراجات پورے ہوتے تھے۔ عسکریت پسند حلقوں میں عمر خالد خراسانی بہت اثرورسوخ کا حامل تصور کا جاتا ہے۔


مزید پڑھیے: عمر خالد خراسانی کو ٹی ٹی پی سے نکال دیا گیا


قاری شکیل حقانی جو کہ طالبان کی مرکزی شوریٰ کے ممبر تھے، وہ بھی اس گروپ میں شامل ہیں جبکہ ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان بھی ملا فضل اللہ کو چھوڑ کر اس گروپ کے ساتھ مل گئے ہیں۔ ٹی ٹی پی کراچی کے سابقہ امیر مصباح الدین بھی اس گروپ کے بانیوں میں شامل ہیں جس کے ساتھ کراچی اور پشاور کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہری علاقوں کے سخت گیر عسکریت پسندوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے۔

اسی طرح باجوڑ، خیبر ایجنسی، دیر، بنوں، ٹانک اور اورکزئی ایجنسی کے تمام اہم کمانڈرز بھی اس گروپ کی حمایت کرچکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تمام اہم اور قدآور کمانڈرز کی موجودگی کے باوجود کیا یہ گروپ ٹی ٹی پی کی جگہ لے سکتا ہے؟ اس حوالے سے کوئی رائے قائم کرنا ابھی قبل ازوقت ہوگا۔

تحریکِ طالبان پاکستان کے سائے تلے کام کرنے والی اور پاکستان کے شہری علاقوں کی سب سے خطرناک تنظیم پنجابی طالبان نے ماہ ستمبر 2014 میں ایک اہم اعلان کیا کہ وہ اپنی عسکری سرگرمیاں ختم کررہے ہیں اور آئندہ وہ صرف دین کی دعوت اور تبلیغ کریں گے۔

پنجابی طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ کی قیادت میں ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ پاکستان میں کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ ٹی ٹی پی سے بھی لاتعلقی کا اعلان کیا گیا۔ عصمت اللہ معاویہ نے یہ بھی کہا کہ وہ جہاد ترک نہیں کر رہے اور ان کی کارروائیاں افغانستان میں جاری رہیں گی اور وہ افغان طالبان کے امیر ملا عمر کی قیادت پر یقین رکھتے ہیں۔ اب پنجابی طالبان ملک بھر میں پر امن طور پر شریعت کے نفاذ کے لیے جدوجہد کریں گے۔

اگر پنجابی طالبان کا ماضی دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جتنی منظم اور خطرناک دہشت گردانہ کارروائیاں اس گروپ نے کی ہیں، وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ پرویز مشرف پر متعدد خودکش حملے، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز پر حملہ، کراچی میں امریکی قونصل خانے پر خود کش حملہ، سری لنکن ٹیم پر خوفناک حملہ جس کی وجہ سے پاکستان میں انٹر نیشنل کرکٹ کا خاتمہ ہوا، پنجاب بھر میں پولیس ٹریننگ کالجز پر حملے، ملک بھر میں حساس اداروں کے دفاتر پر متعدد خودکش حملے، اور جی ایچ کیو پر حملہ ان کی دہشت گردی کی کاروائیوں کی طویل فہرست سے کا ایک تھوڑا سا حصہ ہیں۔


جانیے: پنجابی طالبان کا ’ پاکستان میں جہادی سرگرمیاں‘ روکنے کا اعلان


اس گروپ کے اہم دہشت گردوں میں امجد فاروقی، الیاس کشمیری، استاد یاسین، مطیع الرحمان، عاصم غفور، قاری ظفر اور عثمان عرف ڈاکٹر عقیل شامل رہے ہیں جنہوں نے متعدد دہشت گردی کی کاروائیاں کرکے اپنے گروپ کو پاکستان کے شہری علاقوں کی سب سے خطرناک عسکری تنظیم ثابت کیا۔ یہ گروپ بھی جماعت احرارالھند کے قریب تصور کیا جارہا ہے۔

ان طالبان منحرف گروپوں کے وجود میں آنے سے یہ ضرور ثابت ہوگیا ہے کہ ملا فضل اللہ کے امیر بننے کے بعد ٹی ٹی پی تیزی سے اپنی قوت کھوتی جارہی ہے اور اب بھی اس میں روزبروز ٹوٹ پھوٹ بڑھتی جارہی ہے۔ ممکن ہے مستقبل میں آگے چل کر یہ تمام گروپ دوبارہ ایک ہوجائیں جو کہ فی الحال بہت مشکل نظر آتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کا وجود ہی ختم ہوجائے اور اس کی جگہ کوئی اور تنظیم میدان سنبھال لے۔ ہوسکتا ہے کہ ملا فضل اللہ خود کو تنہا پاکر تحریکِ طالبان پاکستان کا الحاق کسی دوسری طاقتور عسکری تنظیم کے ساتھ کردے اس امکان کو بھی رد نہیں کرنا چاہیے۔

فیّاض خان

لکھاری کاؤنٹر ٹیررازم ایکسپرٹ اور سابق ایس ایس پی، سی آئی ڈی ہیں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔