ملینیئم ڈیویلپمنٹ گولز۔۔۔ پاکستان کیوں ناکام؟
سنہ 2000 میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تو یہ بیسویں صدی کا آخری اجلاس تھا اور دنیا اکیسویں صدی میں قدم رکھ رہی تھی۔ ساری دنیا جوش و خروش کے ساتھ اکیسویں صدی کے استقبال کی تیاریاں کررہی تھی۔ بیسویں صدی کی کامیابیوں اور مسائل کا جائزہ لیا جارہا تھا اور اکیسویں صدی کے لیے نئے مقاصد (Millennium Development Goals) مقرر کیے جارہے تھے۔
اقوام متحدہ کی ملینیئم سربراہ کانفرنس نے ایک اعلامیہ منظور کیا جسے ملینیئم ڈیولپمنٹ گولز (MDGs) کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے 189 رکن ممالک (موجودہ تعداد 193) نے اور اس کے علاوہ 23 بین الاقوامی تنظیموں نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ 2015 تک مندرجہ ذیل آٹھ اہداف حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
1۔ دنیا سے بھوک اور افلاس کا خاتمہـ: دنیا کی غریب آبادی روزانہ اوسطاً 1.25 ڈالرز پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔ یہ طے کیا گیا کہ 1990 سے لے کر 2015 تک غربت کی لکیر سے نیچے گزارہ کرنے والی آبادی کی تعداد میں نصف کمی کی جائے گی۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو جن کا وزن متوازن غذا نہ ملنے کی وجہ سے اوسط سے کم رہ جاتا ہے، متوازن غذا فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ عورتوں، مردوں اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے تاکہ ان کی آمدنیوں میں اضافہ ہو اور وہ اپنے خاندانوں کی کفالت کرسکیں۔
2۔ تعلیم کا نفاذ: تمام بچوں کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ اسکول میں داخلہ لیں اور پرائمری تعلیم مکمل کریں۔
3۔ جنسی ناانصافیوں کا خاتمہ: عورتوں اور مردوں کے درمیان مساوات قائم کی جائے گی۔ جنس کی بنیاد پر تفریق نہیں ہوگی اور عورتوں کو بااختیار بنایا جائے گا۔ اسکولوں میں داخلے کے وقت لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان تفریق نہیں ہوگی۔ عورتوں کو مساوی کام کا مساوی معاوضہ ملنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔ پارلیمنٹ میں عورتوں کو ان کی تعداد کے لحاظ سے نمائندگی دی جائے گی۔
4۔ نوزائیدہ بچوں اور ایک سال تک کی عمر کے بچوں کی شرح اموات میں کمی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
5۔ ماؤں کی شرح اموات میں کم از کم تین چوتھائی کمی کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جس کے لیے ہنرمند مڈ وائفوں کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ زچگی کے بعد ماؤں کی دیکھ بھال اور خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں گی۔
6۔ ایچ آئی وی/ایڈز کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تاکہ 2015 تک ان کی تعداد گھٹ کر نصف رہ جائے۔ 15 سال سے 24 سال تک کے نوجوانوں کو اس مرض سے محفوظ رہنے کی معلومات فراہم کی جائیں گی، اور انھیں علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔
7۔ ماحول کا تحفظ۔: اس پروگرام کے تحت رکن ممالک کا فرض ہوگا کہ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا جائے، کاربن کے اخراج میں کمی کی جائے، اوزون کی تہہ کو محفوظ کیا جائے، پانی کے وسائل کی حفاظت کی جائے، سمندروں کوآلودگی سے پاک رکھا جائے، اور جنگلی جانوروں خاص طور پر نایاب نسل کے جانوروں کی حفاظت کی جائے۔ کم از کم نصف آبادی کو پینے کا صاف پانی اور ڈرینیج کی سہولتیں فراہم کی جائیں اور جھونپڑیوں اور کچی آبادیوں میں رہنے والوں کے رہائشی حالات کو بہتر بنایا جائے۔
8۔ ترقیاتی کاموں کے لیے بین الاقوامی شراکت داری اور تعاون کو فروغ دیا جائے جس کے تحت غریب ممالک کو ٹیرف کی سہولتیں دینا، قرضوں کو کم کرنے کے اقدامات کرنا شامل ہے۔
پاکستان بھی ان ممالک میں سے ایک تھا جس نے ان اہداف کو حاصل کرنے کا عزم کیا تھا۔ اس اعلامیہ کو منظور ہوئے پندرہ سال گزرچکے ہیں اور دنیا بھر میں اس بات کا جائزہ لیا جارہا کہ ان MDGs کے اہداف کو حاصل کرنے میں کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی۔
پاکستان کی منصوبہ بندی کی 2013 کی رپورٹ کے مطابق ہم سوائے سات نمبر کے ہدف یعنی ماحولیات کے تحفظ کے کسی اور ہدف کی تکمیل کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کرسکے۔ ہمارا ریکارڈ مایوس کن ہے، جبکہ ہندوستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا، یہاں تک کہ افغانستان کا ریکارڈ بھی ہم سے کہیں بہتر ہے۔
اور خود ماحولیات کے تحفظ میں ہم کس حد تک کامیاب رہے یہ بھی بحث طلب ہے۔ کیونکہ 2010 اور اب حالیہ سیلاب سے ہونیوالی تباہیوں سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جاتے تو اتنے بڑے پیمانے پر تباہیاں نہ ہوتیں۔
منصوبہ بندی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نسبتاً بہتر کارکردگی صوبہ پنجاب کی رہی۔ سندھ میں کراچی اگرچہ تجارتی اور مالیاتی سرگرمیوں کا دل ہے لیکن اس صوبے کی کارکردگی بھی ناقص رہی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں پی پی پی کی حکومت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اگلے انتخابات تک اپنے لیے کامیابی کی راہ ہموار کرتی۔ خیبر پختونخواہ بھی کسی خاطرخواہ کامیابی کی مثال نہ پیش کرسکا۔ سب سے بدترین کارکردگی صوبہ بلوچستان کی رہی۔
مسئلہ غربت کا ہو یا لازمی تعلیم کا، جنس کی بنیاد پر مساوات کا ہو یا بچوں اور ماؤں کی شرح اموات اور ان کی صحت کا، پولیو کا ہو یا دیگر وبائی امراض کا، ماحولیات کے تحفظ اور بین الاقوامی تعاون کا ہو یا شراکت داری کا، اعداد و شمار کی ضرورت نہیں کیونکہ زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ ہم آج بھی وہیں ہیں جہاں پندرہ سال پہلے تھے۔
امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے، بچوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر بھیک مانگتی، کچرا چنتی اور کارخانوں میں کام کرتی نظر آتی ہے۔ عورت آج بھی تشدد کا شکار ہے، بچوں کی شادی کو اسلامی نظریاتی کونسل جائز قرار دیتا ہے، لڑکیوں کے اسکول دھماکے سے اڑا دیے جاتے ہیں، جانوروں کی غیرقانونی تجارت ہوتی ہے اور ان کا شکار کیا جاتا ہے، زلزلوں اور سیلابوں کی تباہیوں سے آبادیوں کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی قابل اعتماد انفرا اسٹرکچر موجود نہیں، دہشت گردی اور لا اینڈ آرڈر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔
مسائل کا ایک انبار ہے جن کو حل کرنے کے لیے عزم اور اس سے بھی بڑھ کر سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ حکومت کی اولین ترجیح لازمی تعلیم ہونی چاہیے لیکن اسے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔ تعلیم گو کہ صوبائی مسئلہ ہے لیکن یہ صوبوں کے ترجیحی منصوبوں میں شامل نہیں ہے۔ طبقاتی امتیاز تعلیم کے میدان میں نمایاں طورپرنظرآتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مدرسوں میں پڑھنے والوں کو اسکولوں میں پڑھنے والوں کے جیسے ترقی کے مواقع حاصل نہیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے ملک کی آبادی کے لیے یکساں نصاب رائج کیا جائے جیسا کہ ہمیں ترقی یافتہ ممالک میں نظر آتا ہے۔
اقوام متحدہ کے رواں اجلاس میں تمام ممالک 2015 کے بعد کے اہداف کے لیے نئی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ پاکستان جس کا پچھلا ریکارڈ مایوس کن ہے، وہ ان نئے اہداف کو کیسے حاصل کرپائے گا، یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے۔
لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔