نقطہ نظر

کشمیر: آگے بڑھنے کا ایک راستہ

پاکستان کے لیے آسان آپشن یہ ہوگا کہ وہ ہندوستانی ہٹ دھرمی کا سامنا کرنے کی بجائے ہار مان لے اوراس کھیل میں شکست کھاجائے۔

آخر کشمیر ہمارے لیے ابھی تک اتنا اہم کیوں ہے؟ تاریخ ، مذہب اور دیگر عوامل کو ایک طرف کردیں تو بھی پاکستان اس تنازعے کا ایک قانونی فریق ہے اور یہ اس کا فرض ہے کہ وہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کا معاملہ اٹھائے اور اس کو آگے بڑھائے، اگر وہ اپنی اس ذمہ داری سے منہ موڑے گا تو بطور قوم اس کی قدر گھٹ جائے گی۔

یقیناً ہمارے اوپر ہمارے اپنے لوگون کی زیادہ بڑی ذمہ داری ہے جنھیں نظر انداز کیا جاتا ہے اور ہم جغرافیائی اور اخلاقی طور پر اپنی اہمیت کم کرچکے ہیں، ہم نے اپنے کشمیری بھائیوں کے حقوق کی حمایت کرکے کافی بڑی قیمت چکائی ہے، جبکہ ہم دیگر مسائل کے بھی شکار ہیں جن سے ہمارے دوبنے کا خطرہ ہے۔

اس لیے کئی بار یہ تجویز آتی ہے کہ اگر ہمارے ہندوستان سے تعلقات بہتر ہوجائیں تو مسئلہ کشمیر بھی خود حل ہوجائے گا، آخرکار یہ ایک نامکمل دنیا ہے اور ہم کشمیری حقوق کی حمایت میں درست باتیں کہتے رہیں گے۔

ایک ملک جو اپنے مقصد تخلیق کو عوام کو قابل قبول گورننس فراہم نہ کرکے یا عالمی سطح پر تسلیم کیے گئے عوامی حقوق کی پروا نہ کرکے کمزور کررہا ہے، تاکہ ان کی موثر حمایت کرسکے جو قانونی طور پر اس کی ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں۔

ہندوستان سے کم از کم تعلق یا ایڈونچرازم پر زور دینے کی بجائے پالیسی کی تشکیل، عوامی رابطوں، سیاسی تدبر اور تعلیم پر زور دیئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ انتہائی پیچیدہ اور مورچے میں بند مسائل اور رویوں کا حل نکالا جاسکے۔

ہماری آج کی ناگفتہ بہ سیاست اور گورننس کا انتظام کو دیکھتے ہوئے اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے؟

امکانات جو بھی ہو، ہمیں ہندوستان کے ساتھ اپنے تعاون کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اور اپنے پالیسی موقف کے مقصد میں بہتری لائی جانی چاہئے جس کے ذریعے ایسی پیشرفت کی جاسکے تاکہ سب کے لیے قابل قبول مسئلہ کشمیر کے تصفیے کے امکانات کھل سکیں، کچھ حلقے اصرار کرتے ہیں 2004 سے 2007 کے دوران 'بیک چینیل' مذاکرات کافی کارآمد ثابت ہوئے تھے۔

درحقیقت پیشرفت ہوئی تھی، ہمارے وزیر خارجہ نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ خطے میں اسٹیس کو اور غیر فوجی علاقے پر مبنی ایک 'عارضی' معاہدے جس کے 'نرم ایل او سی; اور کشمیر کو محدود خودمختاری دی جانی تھی، پر بس دستخط ہونا باقی رہ گئے تھے۔

یہ معاہدہ مستقبل کے مذاکرات کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرسکتا تھا اہم اس وقت یہ "ایک آبدوز ثابت ہوا جو کبھی سطح پر نہیں ابھرا" کیونکہ عوامی رائے اس کے نتائج اور سابقہ موقف سے انحراف کے لیے تیار نہیں تھی۔

پرویز مشرف کی دسمبر 2003 کی تجاویز جس میں میں کہا گیا تھا"کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف کردیا جائے" کسی بھی طرح مددگار نہیں تھی کیونکہ ان قراردادوں کی وجہ سے ہی پاکستان کو قانونی طور پر اس مسئلے میں فریق کی حیثیت حاصل ہے اور وہ ہندوستان کے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے کہ کشمیر کا اس کا اٹوٹ انگ ہے۔

ہماری مذاکرات کی پوزیشن میں کشمیری آراءخاص طور پر وادی کی رائے کو جگہ دینا لازمی ہے، تو ہمارے موقف کو اقوام متحدہ کے فریم ورک کے اندر رکھنے کو یقینی بنایا جائے، کشمیری نمائندوں(صرف کل جماعتی حریت کانفرنس ہی نہیں) کو سہ فریقی بات چیت کا حصہ بنانا پالیسی ترجیح ہونی چاہئے۔

بیک چینیل آپشن صرف مسائل کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہئے۔

پاکستان اپنا کیس اپنے آئین کے آرٹیکل 257 کی بنیاد پر پیش کرے جس میں تیسری رائے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے الگ ہو، کی مخالفت کی گئی ہے، یہاں تک کے اگر ہندوستان سے سمجھوتا ممکن ہو جس کی ہمیں توقع کرنی چاہئے، تو بھی ضروری ہے کہ پاکستانی اور کشمیری مذاکراتی پوزیشن بات چیت کے دوران اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہو۔

علاوہ ازیں یہ بھی ضروری ہے کہ آرٹیکل 257 کے مکمل فوائد آزاد کشمیر کو فراہم کیے جائیں جسے ابھی ہندوستانی قبضے میں موجود کشمیر کے مقابلے میں کم خودمختاری حاصل ہے، اس سے بھی وادی کی رائے میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

نریندرا مودی "نئی انقلابی فکر" کے خواہشمند ہیں جس کے تحت پاکستان کو کشمیر کے تصفیے سے نکالنا ان کا مقصد ہے، خارجہ سیکرٹری سطح کی بات چیت کی منسوخی اس تبدیلی کا اشارہ دیتی ہے، مودی ہندوستانی آئین نے آرٹیکل 370 کو کالعدم کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں، جس کے تحت ہندوستان کے زیرقبضہ کشمیر(آئی ایچ کے) کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے تھری پی(پرکاش، پریا وارانہ، پریاتن آسان الفاظ میں توانائی، ماحول اور سیاحت) نامی ترقیاتی حکمت عملی کو غیرمقبول سیاہ قوانین سے ملا دی ہے تاکہ آئی ایچ کے اسمبلی میں بے جے پی اکثریتی پارٹی بن سکے۔

اس کے نتیجے میں آئی ایچ کے میں پہلی بار بی جے پی کا وزیراعلیٰ آسکتا ہے اور کچھ رپورٹس کے مطابق وہ "سہ شاخی" پالیسی کو سہولت فراہم کرسکتا ہے جس کے ذریعے لداخ کو مرکز کے زیراقتدار علاقے کی حیثیت دی جاسکتی ہے، جبکہ جموں کو وادی سے الگ کرکے وہاں سے چلے جانے والے پنڈتوں کو واپس گھروں میں لایا جاسکتا ہے۔

اس سے نمایاں سرمایہ کاری اور ڈیموگرافک انجنئیرنگ کا راستہ کھل جائے گا، وادی کی اکثریتی آبادی کو مزاحمت یا دستبرداری کے بے رحم انتخاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان کے ساتھ کشمیر پر بات چیت اس نکتے کو یقینی بنانے کے لیے ہوگی کہ شملہ معاہدے کے تحت" ایل او سی کے احترام" کو یقینی بنایا جائے اور اسٹیٹس کو کو مستحکم رکھنے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں، اس میں مشترکہ میکنزم، آئی ایچ کے میں ہندوستانی اقتدار اعلیٰ کی کوئی حد نہیں ہوگی اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کا کوئی کردار ہوگا۔

پاکستان کے لیے ایک آسان آپشن یہ ہوگا کہ وہ ہندوستانی ہٹ دھرمی کا سامنا کرنے کی بجائے ہار مان لے اور اس کھیل میں شکست کھاجائے جیسا بار بار ہوچکا ہے، دیانتدارانہ آپشن یہ ہوگا کہ اس بات کو قبول کیا جائے کشمیر کا کوئی مختصر المدت حل نہیں اور پرتشدد شارٹ کٹس سے صرف فرسٹریشن، تنہائی اور جوابی جھٹکوں سے قومی ڈھانچہ کمزور ہوتا ہے، رہنماﺅں کے دوسرا راستہ اپنے لوگوں سے جھوٹ بولنا ہوگا۔

تاہم امکانات جتنے بھی حوصلہ شکن ہو ہمیں باہمی طور پر قابل قبول تصفیے کے لیے کامیاب طویل المدت حکمت عملی کو تعمیر کرنا ہوگا، جو کہ تمام فریقین کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ ہوگا اور پہلے اقدام کے طور پر آئی ایچ کے میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنایا جانا چاہئے، وزیراعظم کو نیویارک میں مودی سے ون آن ون میٹنگ میں اس کے لیے دباﺅ ڈالنا ہوگا، متعدد باہمی دھوکوں کے برخلاف باہمی اعتماد پر ذاتی تعلقات دونوں رہنماﺅں کی ترجیح ہونا چاہئے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری امریکہ، ہندوستان، اور چین میں پاکستان کے سفیر جبکہ عراق اور سوڈان میں اقوام متحدہ مشنز کے سربراہ رہ چکے ہیں۔


اشرف جہانگیر قاضی

لکھاری امریکا، ہندوستان اور چین میں پاکستانی سفارتکار رہ چکے ہیں اور عراق اور سوڈان میں اقوام متحدہ کے مشنز کے سربراہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔