خفیہ نصاب
تعلیم میں لفظ "خفیہ نصاب" (Hidden Curriculum) اس برین واشنگ کو کہا جاتا ہے، جو یا تو مخفی طور پر کی جاتی ہے، یا پھر نصاب میں سے چیزیں غائب کر کے کی جاتی ہے۔ قومی آئیڈیولوجی، "دوسروں" کے بارے میں بیگانگی پر مبنی کہانیاں، اور سماجی و سیاسی رویے اسی خفیہ نصاب کے ذریعے مضبوط کیے جاتے ہیں۔ لیکن کتابوں، تدریس، اور امتحانات کے علاوہ وہ جگہ جہاں خفیہ نصاب سب سے بہترین انداز میں کام کرتا ہے، وہ قومی تعطیلات ہوتی ہیں، جن کے بارے میں ہر شہری کو پتا ہوتا ہے کہ ان کے منانے کا مقصد کیا ہے۔
حال ہی میں امریکا میں کولمبس ڈے کے پیچھے موجود خفیہ نصاب کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ لوگ اس حوالے سے سوالات اٹھا رہے ہیں کہ آیا امریکی بچوں کے سامنے ایک ایسے شخص کو ہیرو بنا کر پیش کرنا چاہیے، جس نے مقامی معصوم لوگوں پر حملہ کیا، ان کی زمینیں چھینیں، اور ان کو غلام بنایا۔
کرسٹوفر کولمبس کو ایک قومی تعطیل کے ذریعے عظیم شخصیت بنا کر پیش کرتے ہوئے تاریخ کے سیاہ باب کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس سے بچوں کو کم از کم یہ ضرور سیکھنا چاہیے، کہ تاریخ پڑھتے وقت اسے تنقیدی نگاہ سے پڑھنا چاہیے، کیونکہ تاریخ اگر جھوٹ نہیں تو متنازعہ ضرور ہے۔
اس دنیا میں شمالی کوریا جیسے معاشرے بھی موجود ہیں، جہاں اپنے "ہردلعزیز رہنما" کم جونگ ال کی موت پر بھالووں اور پرندوں کے رونے کی خبریں شائع ہوئیں، تاکہ ان کی عظمت ثابت کی جا سکے۔ ان کے بیٹے کم جونگ ان کا یوم پیدائش قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو "چمکتے ستارے کا دن" کہہ کر منایا جاتا ہے اور اسکول کے بچوں میں تحائف تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس طرح شمالی کوریا کے بچوں کو مطلق العنان حکومت کو بخوشی قبول کرنے اور حب الوطنی کی تعلیم دی جاتی ہے۔
پچھلے 3 عشروں میں پاکستان کے یوم آزادی کے حوالے سے پاکستان کا خفیہ نصاب غیر معمولی حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ ضیا دور کے یوم آزادی 21 ویں صدی کے یوم آزادی سے بالکل مختلف ہیں۔
1980 کی دہائی میں جب پی ٹی وی کی اجارہ داری تھی، تب اگر ٹرانسمیشن کو صرف تھوڑی دیر کے لیے بڑھا دیا جاتا، تو ناظرین کے لیے یہ انتہائی خوشی کا مقام ہوتا، بھلے ہی ٹی وی پر دکھایا جانے والا مواد سادہ ہوتا، اور ہمیشہ بس جنگی ترانوں کی گونج میں ہندووں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل کی یاد تازہ کی جاتی۔ ایک طرح سے یہ ریاست کے محافظوں کی جانب سے بنائی گئی ایک ایسی حکایت تھی، جس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا۔
لیکن اس دفعہ سیاسی گرما گرمی کے دوران گزرے یوم آزادی پر 1980 کے ملٹری ڈکٹیٹرشپ دور کے یوم آزادی کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔ نئی نسل کو یوم آزادی پر حقیقی جمہوریت، جمہوری حق، آئینی بالادستی، پر امن احتجاج، اور سول نافرمانی جیسے الفاظ سننے کو ملے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو 80 کی دہائی میں صرف سرگوشیوں میں ہی کہے جا سکتے تھے۔
اس یوم آزادی پر ہمارا خفیہ نصاب ہمارے ماضی کے دشمنوں کے بجائے ہمارے مستقبل کو صورت دینے والی اقدار کے بارے میں تھا۔
ہمارے کلاس رومز میں بحث مباحثے کا کلچر بھلے ہی موجود نہیں، لیکن ہمارے بچے سیاسی دلائل، اختلافات، اور بحثیں کرنا سیکھ رہے ہیں۔ کم از کم وہ لڑائی اور دلیل، منطق و غیر منطق، اور تشدد اور مذاکرات کے درمیان فرق کو سمجھنے لگے ہیں۔
وہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح کچھ شخصیات طاقت کے بجائے مزاح کے ذریعے اپنا نقطہ نظر بیان کرتی ہیں، اور یہ سب دیکھنے کے لیے ان کے پاس بیسیوں چینلز موجود ہیں۔ 1990 تک ہم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ چینل تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔
آج حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ووٹ بینک میں انویسٹ کر رہے ہیں۔ خفیہ نصاب یہ ہے، کہ طاقت عوام کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وہ نصاب ہے، جس کی وجہ سے اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والوں کے شہریت اور سیاسی سرگرمیوں کے معیارات ضیا دور کی نسل سے بنیادی طور پر مختلف ہوں گے۔
جب فکرمند والدین نے ایک ایلیٹ اسکول میں Comparative Religion پڑھانے کے خلاف ریلی نکالی، کہ کہیں اس سے ان کے بچے گمراہ نا ہوجائیں، یا کسی اور مذہب کو نا اپنا لیں، تو ایسا کرتے وقت انہوں نے غیر محسوس طریقے سے اپنے بچوں میں موجود عالم بننے کی صلاحیت کو دبا دیا، اور اس کے بدلے جہالت کو قبول کیا۔
پاکستان کے نوجوان اب حد سے زیادہ تحفظ اور استحکام پر مبنی نظریات کو رد کرتے ہوئے ریاست کو ایسا وجود سمجھتے ہیں، جس کو بچایا جانا ضروری ہے۔ بھلے ہی تبدیلی کے اس سفر میں مذہبی جذبات بھی شامل ہیں، پر مذہب شہ سرخی نہیں ہے، بلکہ کرپشن، احتساب، اور قانونی سیاست ہیں۔
لکھاری ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 31 اگست 2014 کو شائع ہوا۔