لائف اسٹائل

بولی وڈ نہیں پاکستان کو ترجیح دینی چاہئے، شان

ڈان کو ایک انٹرویو میں شان نے اپنی فلم آپریشن 021، پاکستانی سینماء کے احیا اور ہندوستان سے اشتراک پر روشنی ڈالی ہے۔

پاکستانی سپراسٹار شان شاہد کی ایکشن تھرلر فلم کا ٹریلر آپریشن 021 سوشل میڈیا میں بہت زیادہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور پرستار بے تابی سے عیدالاضحیٰ پر اس کی ریلیز کے منتظر ہیں۔

اس فلم میں ایک افغان شخص (ایوب کھوسو) اور اس کے پاکستانی ساتھی (شان) کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اپنے اپنے ممالک کو بچانے کے لیے مل کر ایک منصوبہ بناتے ہیں، ایسا منصوبہ جس کے لیے وہ اپنی اور اپنے خاندانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں، اس منصوبے پر اکیس گھنٹے کے اندر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے اور اسی پر فلم کا نام رکھا گیا ہے۔

ڈان ڈاٹ کام کے ساتھ ای میل انٹرویو کے دوران شان نے اپنی فلم، پاکستانی سینماءکے احیا اور خطے کی فلمی صنعتوں کی ترقی کے لیے پاک ہندوستان اشتراک کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔

سوال: آپ کی آپریشن 021 سے کیا توقعات ہیں؟

شان: مجھے توقع ہے کہ ہمارا فرنچائز کردار جلد بدل جائے گا، مجھے لگتا ہے کہ پاکستان نئے عہد کی فلموں کے لیے تیار ہے اور 021 رواں برس سامنے آنے والی بڑی فلموں میں سے ایک ہے۔ مجھے توقع ہے کہ یہ پاکستان کے لیے زبردست زرمبادلہ کمانے میں کامیاب ہوگی اور پاکستانی سینما کو بین الاقوامی سطح تک لے جانے کے لیے پلیٹ فارم ثابت ہوگی۔

سوال: آپریشن 021 کے یوم آزادی پر سامنے آنے والا پرومو صرف پانچ الفاظ پر مشتمل تھا" میرے دوست پاکستان میں خوش آمدید"، جس نے شائقین کو اشتیاق کو بڑھادیا، کیا آپ اس پرومو کے پیغام کے بارے میں ہمیں کوئی اشارہ دیں گے؟

شان: یہ فلم کے فائنل کٹ کے لیے اچھا آخری جملہ ہے مگر اس اقتباس سے آپ فلم کو دیکھ کر زیادہ لطف اندوز ہوں گے، وہ واقعی زبردست ہے۔

سوال: کیا آپ کے خیال میں وار کی بے مثال کامیابی کے بعد لوگوں نے آپ سے زیادہ توقعات وابستہ کرلی ہیں؟

شان: جی ہاں، یہی وجہ ہے کہ میں نے وار کے بعد کوئی وار فلم سائن نہیں کی، ہم نے اپنی دوسری فلم کی ریلیز کے لیے ایک سال تک انتظار کیا۔

ہمارے فلمساز اور اداکاروں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ بہت زیادہ نظر آنا فلموں کے لیے بہترین حکمت عملی نہیں، نایاب چیز زیادہ فروخت ہوتی ہے، لوگوں کو آپ کی مصنوعات کے آنے کا منتظر ہونا چاہئے، اچھے سے عظیم تک کی چھلانگ مشکل ہوتی ہے، اس کے لیے قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے، آپ کو بہترین کے لیے انکار کرنا چاہئے، کیونکہ ایسا نہ کرنا آپ کو عظیم بننے سے روک دیتا ہے۔

سوال: آپ نے پاکستانی سینماءکے احیاءکے لیے بہت اہم کردار ادا کیا ہے، متعدد نئے فلم ڈائریکٹرز تجربات کررہے ہیں اور اپنی فلمیں رواں برس کے اختتام تک ریلیز کریں گے، آپ اس بارے میں کیا تبصرہ کریں گے؟

میں کچھ لوگوں کو دیکھ رہا ہو جو بہت باصلاحیت اور پرجوش ہیں، کچھ واقعی بہت اچھے ہیں مگر انہیں مرکزی سینما کے لیے گائیڈلائنز کی ضرورت ہے، میرا ماننا ہے کہ احیا کے لیے کوپروڈکشن کی ضرورت ہے،ابھی کسی اور ملک کے ساتھ نہیں بلکہ کراچی کے ساتھ، یہ شہر فلمی صنعت کی نئی زندگی کے لیے کنجی ثابت ہوسکتا ہے۔

اس وقت انفراسٹرکچر کی منصوبہ بندی اور مجموعی تصور کی کمی ہے، اور ہر شخص وہ کام کررہا ہے جس کے بارے میں وہ سوچتا ہے، اس وقت ہمیں مزید بڑی فلموں کی ضرورت ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہم نے فیشن انڈسٹری کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر آگے بڑھایا ہے، متوازی تھیٹر بہت اچھا ہے مگر ان فرنچائزز کے لیے جو سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں، ہمیں زیادہ تعداد میں بڑی فلموں کی ضرورت ہے جس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

ہمیں مل کر ورکشاپس کرنی چاہئے، اس وقت ہمارے پاس بہت زیادہ باصلاحیت ٹی وی ڈائریکٹرز موجود ہیں، ٹی وی ڈراموں کا معیار کافی اچھا ہے ، تاہم لگتا ہے کہ اسی وجہ کے باعث وہ اپنے مخصوص حد سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔

فلم مجموعی طور پر ایک مختلف میڈیم ہے، ہمیں ایسے فورم کی ضرورت ہے جس میں کراچی اور لاہور کے مرکزی اسٹیک ہولڈرز کو اکھٹا کرکے انفراسٹرکچر کی تشکیل پر توجہ مرکوز کی جاسکے، فلمساز، مصنفین، ڈائریکٹرز اور کیمرہ مینوں کو اکھٹا ہونا چاہئے، کیونکہ لاہور کو مستقبل کی جبکہ کراچی کو ماضی کی ضرورت ہے۔

سب مل کر کام کرکے ہم آہنگی سے حال کو تشکیل دیں اور اپنی اگلی نسل کے لیے ایک پلیٹ فارم قائم کردیں، ہمیں ہر شعبے میں مشترکہ کوششوں کے لیے دس سالہ منصوبے کی ضرورت ہے، اپنی انا کو ایک طرف کرکے اپنی آستنیں چڑھائے اور مل کر کام کریں۔

سوال: کیا آپ کے خیال میں ہماری فلموں کی پروموشن ٹھیک ہورہی ہے؟ کیا اس حوالے سے آپ تجاویز دینا پسند کریں گے؟

شان: میرا ماننا ہے کہ ہم مزید بہتر کام کرسکتے ہیں، میڈیا ایک برانڈ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور تمام ملٹی نیشنل برانڈز کو آگے آکر ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہئے تاکہ ہم اس سے تقویت حاصل کرسکیں، ان کی حمایت ملنے کے بعد پروڈیوسرز فکرمندی یا اسکرپٹ کے لیے درکار بجٹ میں کٹوتی کی پریشانی سے نجات حاصل کرلیں گے، جبکہ ان کے پاس مناسب مارکیٹنگ بجٹ بھی ہوگا، اس میدان میں کافی کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے، نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ اجتماعی سطح پر بھی، جتنا بڑا کیک ہوگا اتنا ہی بڑا حصہ اسٹیک ہولڈرز کو ملے گا۔

اس کے علاوہ ایک مسئلہ کوئی قومی پالیسی نہ ہونا ہے، ہماری حکومت کو فلم انڈسٹری کے ساتھ تعاون کے لیے ایک پالیسی مرتب کرنی چاہئے کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہوگا، ہمارے سفارتخانوں کو فلمسازوں اور ان کی فلموں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے تاکہ پاکستانی فلموں کو عالمی حمایت مل سکے، اس سے پاکستان کا نرم چہرہ بھی دنیا کے سامنے آئے گا، دنیا دیکھنا چاہتی ہے کہ ہم کیا بناتے ہیں، ہماری چیزوں کی بہت زیادہ طلب ہے مگر سپلائی ہی نہیں۔

سوال: متعدد پاکستانی اداکار اب بولی وڈ فلموں میں نظر آرہے ہیں آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟ کیا آپ کے خیال میں اس سے پاکستانی فلمی صنعت پر اثرات مرتب ہوں گے؟

شان: کچھ زیادہ نہیں کیونکہ ہندوستان میں کام کرنے والے اداکار پاکستان کے مرکزی فلمی ستارے نہیں، لوگوں کی ہندوستان میں کام کرنے کے حوالے سے آراءمختلف ہے، میں اس سے متفق نہیں کیونکہ یہ خیال مجھے تکلیف پہنچاتا ہے کہ ہماری صلاحیت کو گریڈ بی فلموں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، وہ عمران ہاشمی یا ہمیش ریشم میاں سے زیادہ بہتر ہیں، میں اپنے اداکاروں کو بڑی فلموں جیسے دھوم 4 کے مرکزی کردار میں دیکھنا زیادہ پسند کروں گا۔

میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ میرے نقش قدم پر چلے مگر میں ان سے یہ توقع ضرور رکھتا ہوں کہ وہ میرے نقطہ نظر کا احترام کریں جیسے میں ان کے خیالات کا کرتا ہوں، مگر ان سے متفق نہیں۔ ہمارے اداکار اپنی صلاحیت کو کم قیمت میں فروخت کررہے ہیں، وہ زیادہ بہتر کردار اور بڑی پروڈکشن کے حقدار ہیں۔

آخر بولی وڈ دنیا کے کسی اور حصے سے اداکار کیوں حاصل نہیں کرسکتا صرف پاکستان سے ہی کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بولی وڈ ایک پاکستانی لیبل چاہتا ہے جو ایک کونے میں موجود ہو، ہم جب بھی ہندوستان جائیں ہمیں پاکستان کو بھی اپنے ساتھ لے کر جانا چاہئے اور اپنی صلاحیت کے مطابق یکساں مواقعوں کا مطالبہ کرنا چاہئے۔

ہندوستان پاکستانی پروڈکٹس کی حمایت نہیں کرتا جیسے وار اور 021 وہاں ریلیز نہیں ہورہی، مگر لگتا ہے کہ ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ مقامی میڈیا نے اسے مکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے، جب پاکستانی ٹی چینیلز روزانہ کی بنیاد پر غیر ملکی مواد دکھایا جائے تو ڈرامہ انڈسٹری کا ہر شخص اس کے خلاف ایک آواز ہوکر پالیسی تبدیل کرادیتا ہے، تو آخر ہم اپنی فلموں کے لیے ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟

یہ بہت افسوسناک ہے کہ ہم الگ ہوچکے ہیں، ہم اپنے ڈراموں کو تو تحفظ دیتے ہیں مگر فلموں کو نہیں۔

سوال: کیا آپ کبھی بولی وڈ فلم میں کام کریں گے؟ اگر ہاں کس کے ساتھ اور کیسا کردار کرنا پسند کریں گے، اگر نہیں تو اس کی وجہ کیا ہوگی؟

شان: جب میں نے ایک بولی وڈ پیشکش پر انکار کیا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ایک اداکار کی حیثیت سے میں خود کو اس قابل نہیں سمجھ رہا تھا کہ منفی کردار ادا نہیں کرسکوں گا، مگر میں نے سوال کیا تھا کہ آخر وہ ایک پاکستانی اداکار سے ولن کا کردار ہی کیوں کرانا چاہتے ہیں، جبکہ ان کے پاس اس طرح کے کرداروں کے لیے اداکاروں کی کوئی کمی نہیں۔

آپ کو سمجھنا چاہئے کہ بولی وڈ پاکستانی لیبل کو خریدتا ہے ہماری صلاحیت کو نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اداکار کرش، سنگھم یا ایسے ہی کردار کرنے سے قاصر رہتا ہے، جب تک وہ اس خیال کو پیچھے نہیں رک دیتا، چیزیں کام نہیں آسکتی کیونکہ ہندوستان فلمی دنیا میں بڑا مقام رکھتا ہے مگر بڑا ہونے کے لیے دل بھی بڑا کرنا پڑتا ہے۔

دیکھیں ہالی وڈ کیسے کام کرتا ہے، وہ ہر جگہ سے اداکار لیتے ہیں، اطالوی، آئرش، برطانوی وغیرہ، مثال کے طور پر کرس ہیمزورتھ کا تعلق آسٹریلیا سے ہے مگر وہ ہالی وڈ میں کام کررہا ہے اور جن فلموں میں اس نے کام کیا ان کا کوئی تعلق اس کے آبائی وطن سے نہیں تھا، امریکن ہیرو سپرمین کے بال سنہرے نہیں۔

بولی وڈ کو فیز ٹو میں داخل ہونے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس کی وسعت کے ساتھ اس کی ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں، بولی وڈ ہمارے ساتھ وہی کررہا ہے جو ہالی وڈ ہندوستانی اداکاروں کے ساتھ کرتا ہے، سننے میں تو یہ بہت اچھا لگتا ہے مگر ہندوستانی سینماءکے بڑے ستاروں کو ہالی وڈ اسکرین میں چیونٹیوں کی طرح دیکھنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔

اگر ہم مل کر کام کریں تو ہم کافی پرکشش کاروبار حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں فلم بنانے کا خرچہ کافی کم ہے، ہماری افرادی قوت بہت محنتی اور کم قیمت میں دستیاب ہے، یہاں کئی زبردست کہانیاں اور اسکرپٹ دریافت نہیں ہوسکے ہیں، اور یہاں کسی بھی بین الاقوامی فلم ساز کے لیے زبردست مواقعے دستیاب ہیں۔

بولی وڈ اور لالی وڈ کو مل کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، ہم اکھٹے ہوکر بہت کچھ سیکھ سیکتے ہیں، یہ دونوں اطراف کے آرٹسٹک اور دانشور افراد کی ذمہ داری ہے، مگر میرے خیال میں دونوں اطراف سیاست کھیلنے میں مصروف ہے۔

باہمی اشتراک کے مواقعوں کو دیکھے ہندوستان متعدد فلمیں بناتا ہے مگر پاکستان اسکرپٹ کے حوالے سے سونے کی کان ہے، ہم بیس سال سے حالت جنگ میں ہے اور جنگ نے علوم و فنون کے احیاءکو فروغ دیا ہے، اگر ہم یکساں شرائط پر مل کر کام نہیں کریں گے تو ہم کبھی ہم آہنگی سے نہیں رہ سکیں گے۔

مگر جب میں ایل او سی سے ہٹ کر ایک اور خلاءکو دیکھتا ہے جو رابطے کی کمی اور یکساں مواقعوں کی تشکیل سے انکار کے باعث وجود میں آیا ہے، تو اس بارے میں میرا خیال ہے کہ اسی وجہ کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے وطن کو پہلی ترجیح دینا چاہئے، ہماری حمایت نہ کرکے ہندوستان بہت بڑی غلطی کررہا ہے، پاکستان میں فلمی کلچر اور انفراسٹرکچر فروغ پارہا ہے، اور آپ کو فلم سازی کے علم کے دروازے پورے مشرق کے لیے کھول دینے چاہئے تاکہ ہم ایک عظیم قوت بن کر ابھرے اور مغرب کو چیلنج کرسکیں۔

بین الاقوامی سطح پر مشرقی کارپوریشن یعنی چین، پاکستان، ہندوستان، ایران اور افغانستان سب مل کر فلموں کے لیے اکھٹے ہو۔

سیاستدانوں کو سیاست کرنے دیں، کاروباری حضرات کاروبار کریں، مگر میری درخواست ہے کہ اس خطے کے تمام فلمی حلقے ملکر فلمیں بنائیں۔