نقطہ نظر

دہشت گرد سوشل میڈیا پر

دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے بیچ رابطے کا سب سے اہم ذریعہ انٹرنیٹ کسی بھی قسم کے آپریشن سے ابھی تک آزاد ہے.

آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضربِ عضب میں دہشت گردوں کے ٹھکا نے تباھ و برباد کردئے گئے ھیں اور بہت سے خطرناک دہشت گرد مارے جا چکے ھیں.

قوم کے لئے یہ ایک اچھی اور حوصلہ افزا خبر ھے. لیکن اس کے باوجود دھشت گردوں اور شدت پسندوں کے درمیان رابطے کا سب سے اھم ذریعہ انٹرنیٹ کسی بھی قسم کے آپریشن سے ابھی تک آذاد ھے.

جس طرح دنیا بھر کے دھشتگرد سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر رھے ھیں بالکل اسی طرح پاکستانی جہادی گروپس بھی فیس بک اور ٹوئٹر کو اپنے مقاصد کیلے پوری آزادی کے ساتھ استعمال کر رھے ھیں، جہاں یہ لوگ ایک دوسرے سے رابطے کرتے ھیں، انکےایجنڈے کی تشہیر اور ترویج بھی یہیں ھوتی ھے۔ یہ گروپس روزانہ کی بنیاد پر اپنے اکاؤنٹس اپ ڈیٹ کرتے ھیں اور انہوں نے اپنے اکاؤنٹس کو عام پبلک کیلئے بلکل اوپن بھی کر رکھا ھے بغیر کسی پرائویسی سیٹنگ کے.

ریاست کیخلاف یہ گروپس باقائدگی اور دھوم دھڑلے کے ساتھ اپنے پروپیگنڈے میں مصروف ھیں.

اس سلسلے میں انٹرنیٹ کو بطور میدانِ جنگ استعمال کرنے کیلئے دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیموں کی طرح پاکستانی جھادی اور جنگجو گروپس نے بھی بڑی مؤثر حکمتِ عملی سے کام لیا ھے اور اپنے ایجنڈے کی تشہیر، نیٹ ورکنگ و رابطہ اور ٹریننگ مینئول کو عام کرنے کیلئے اپنی اپنی ویب سائٹس ترتیب دے دی ھیں اور سب سے بڑھ کر جو چیز خطرناک ھے وہ مقامی اور عالمی دھشت گردوں کے درمیان رابطے کا سب سے اھم ذریعہ بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ھی ھے.

پاکستان میں طالبان کے علاوہ بہت سی جہادی اور فرقہ ورانہ تنظیمیں بھی شدت پسندی میں ملوث ھیں جو اپنی اپنی ویب سائٹس کے علاوہ مختلف ناموں سے جعلی اکاؤنٹس بنا کر سوشل میڈیا پر فیس بک اور ٹؤٹر کے زریعے نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ھیں.

ان تنظیموں کا اشتعال انگیز لٹریچر جلتی پر تیل کی طرح اثر انداز ھوتا ھے جسکی سب سے بڑی مثال سابقہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا اپنے ہی محافظ کے ھاتھوں قتل ھے جس میں سوشل میڈیا میں انکے خلاف نفرت انگیز مھم جوئ کا سب سے اھم کردار نظر آتا ھے.

اسی طرح حالیہ دنوں میں فرقہ ورانہ کلنگ اور احمدیوں کےخلاف تشدد پر اکسانے والی کاروائیوں کیلئے بھی سوشل میڈیا پر ھی آگ لگائی گئی جس کے نتیجے میں مختلف شہروں میں پرتشدد کاروائیاں کی گئیں.

اشتعال انگیز غیر ملکی لٹریچر کو اردو زبان میں ترجمہ کرکے ان فرقہ ورانہ اور دھشت گرد گروپوں نے عام نوجوان کی رسائی اس تک بہت آسان بنادی ھے. بھت سے گروپس کھلے عام ریاست کیخلاف لڑأئی کی ترغیب دے رھے ھیں اور سیکیورٹی فورسز کے لوگوں کو بےدردی سے ذبح کر کے ویڈیوز اپلوڈ کر کے اپنی دھشت پھیلا رھے ھیں.

یہ تنظیمیں سینکڑوں عام پاکستانیوں کے قاتلوں کو ھیروز کے طور پر پیش کرنے کے لئے اپنے ھمدردوں اور ھم خیال لوگوں کی مدد سے سوشل میڈیا پر کھلے عام سرگرم ھیں. جبکہ بہت سی تنظیمیں فنڈ ریزنگ کے کیلئے بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر مہم چلاتی ھیں جھاں سے انہیں ایک خطیر رقم حاصل ھوتی ھے.2004 میں کراچی سے گرفتار ھونے والے القاعدہ کے ایک آئ ٹی ایکسپرٹ نے انٹرنیٹ کے زریعے ایک دوسرے سے جڑے ھوئے مختلف ممالک کے دھشتگردوں کے ایک عالمی نیٹورک کے بارے میں انکشاف کرکے تفتیش کاروں کو اھم معلومات کا خزانہ دیا تھا.

اسکے مطابق یورپ کے مختلف شھروں کے علاوہ قندھار، کراچی اور تکریت میں موجود مختلف دھشت گرد ایک دوسرے سے انٹرنیٹ کے زریعے ھی رابطے میں ھوتے ھیں جبکہ فنڈ ریزنگ اور منی لانڈرنگ کا نیٹ ورک بھی انٹرنیٹ کے زریعے ھی کام کرتا ھے. بہت سے غیر ملکی جنگجو اپنے اپنے ممالک میں اپنے گھر والوں سے رابطے کیلئے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس کے علاوہ سکائپ بھی استعمال کرتے ھیں

القاعدہ اور اسکی بہت سی زیلی تنظیموں نے زہن سازی کے مقصد سے مختلف زبانوں میں بہت سا لٹریچر تیار کرواکر مختلف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر ڈالا ھوا ھے. لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ محمد کے ھمدردوں نے بھی ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر جیسے آگ سی لگائ ھوئ ھے. اس سلسلے میں نہ جانے کہاں کہاں سے ویڈیوز ڈھونڈ کر اپ لوڈ کی جاتی ھیں.

مشاہدہ میں آیا ھے کہ جہادی ویب سائٹس کی فین فالوونگ بھی بہت ھوتی ھے اور لوگوں کی ایک بھت بڑی تعداد ان ویب سائٹس پر باقائدگی کے ساتھ جہادی سرگرمیوں سے باخبررھنے کیلئے رجوع کرتی ھے.

اکثر کسی فدائی مشن پر جانے سے پہلے دھشت گرد گروپس کی جانب سے خودکش حملہ آور یا فدائی کا آخری پیغام ریکارڈ کر کے مشن کی تکمیل کے بعد انٹرنیٹ پر ڈال دیا جاتا ھے جو لوگوں اور میڈیا کیلئے بہت دلچسپی کا باعث بنتا ھے اور دھشتگرد تنظیموں کا مقصد بھی مقبولیت اور تشہیر ھی ھوتا ھے جیسا کہ کراچی میں علامہ حسن ترابی کیس میں ھوا.

لشکرِجھنگوی کے عابد محسود گروپ نے ایک کم عمر بنگالی نوجوان کو خودکش حملہ آور کی حیثیت سے تیار کیا اور پہلے اسکی آخری وصیت اور پیغام ریکارڈ کیا گیا جس میں اس نے خودکش حملے کیلئے اپنے انتخاب کو اپنی اور اپنے خاندان کی انتہائی خوش نصیبی قراردیا اور اپنے ماں باپ کو جنتی ھونے کی پیشگی مبارکباد دی جبکہ اپنے مخالف مسلک کو واجب القتل قرار دیتے ھوے خودکش حملے جیسے انتہائی اقدام کی وجہ پیش کی. اس ویڈیو کو ریلیز کرنے کا مقصد بھی لوگوں کو اپنے خود ساختہ جہاد کی طرف مائل کرنا تھا.

مشرف دور میں دہشت گردی عروج پر تھی، جہاں مسلح جنگجوؤں سے نمٹنا حکومت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا وہیں پر لوگوں کو جہاد کے نام پر اپنے ھی ھموطنوں کو نشانہ بنانے کیلئے ذھن سازی کی غرض سے بہت سی ویب سائٹس متحرک تھیں جبکہ ریاست سے بغاوت پرآ مادہ کرنے کیلئے بہت سا اشتعال انگیز اور نفرت انگیز لٹریچر بھی باآسانی دستیاب تھا.

اس مسئلے سےنمٹنے کیلئے حکومت نے بہت سے قوانین بھی بنائے اور بہت سی جھادی تنظییموں کو کالعدم قرار دیا گیا. اسی طرح ان جہادی اور فرقہ ورانہ تنظیموں کے لٹریچر پر بھی پابندی لگائی گئی لیکن انٹرنیٹ پر موجود ان جہادی اور فرقہ ورانہ ویب سائٹس اور نفرت انگیز مواد کی روک تھام کیلئے کوئی موئثر اور عملی کاروائی کے بجائے محض نوٹیفکیشن کی حد تک کاروائی کی گئی.

اب جبکہ پاکستان کی بقاء کی آخری لڑائی کیلئے پاک فوج نے دھشت گردوں کو کچلنے کیلئے ایک زبردست اور مؤثر آپریشن شروع کر رکھا ھے اور انکے ٹھکانے تباھ کردئے گئے ھیں. روزانہ سینکنڑوں کی تعداد میں انکی ھلاکتیں بھی ھو رھی ھیں جبکہ پاک فوج کے جوان بھی اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کر کے ایک نئی تاریخ رقم کررھے ھیں، ایسے میں حکومت کو چاھیے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر سرگرم دھشتگرد گروپس کے میڈیا سیل پر بھی نظر ڈالے اور انکا بھی کچھ تدارک کرے.

پاکستانی خفیہ ادارے اس بات کی پوری اہلیت رکھتے ھیں کہ ان دھشتگرد تنظیموں اور انکے میڈیا سیلز کا کھوج لگا کر انکا قلع قمہ کریں اور یہ قصہ ھمیشہ کیلئے ختم کردیں.

فیّاض خان

لکھاری کاؤنٹر ٹیررازم ایکسپرٹ اور سابق ایس ایس پی، سی آئی ڈی ہیں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔