پولیس کا مسئلہ
سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس اور کراچی کے پولیس چیف کا تبادلہ صرف پانچ اور نو مہینوں کے بعد جس کی وجوہات نااہلی کے علاوہ کچھ اور تھی، یقینی طور پر باعث تعجب ہے-
ان قبل از وقت تبادلوں کا جو برا اثر کراچی میں مشتبہ دہشت گردوں اور عام مجرموں کے خلاف جاری کارروائیوں پر پڑیگا وہ صوبائی حکومت کیلئے کسی پریشانی کا باعث نہیں دکھائی دیتا ہے- لیکن، بہرحال، اس کی وجہ سے ہمیں یہ تو پتہ چل جاتا ہے کہ ان مختصر تعیناتیوں کا پولیس کی کارکردگی پر کیا اثر پڑتا ہے-
موجودہ سسٹمپاکستان کا موجودہ پولیس سسٹم ایک چوں چوں کا مربہ ہے- دو صوبوں (پنجاب اور خیبرپختونخواہ) نے پولیس آرڈر 2002ء میں ترمیم کرکے پولیس کے بنیادی قانون کا حصہ بنایا ہے اور دوسرے دو صوبے سندھ اور بلوچستان، پولیس ایکٹ 1861ء کا دقیانوسی قانون استعمال کررہے ہیں-
اگرچہ کہ پولیس ایکٹ 1861ء میں پولیس افسروں کی تعیناتی کی مدت کے بارے میں کوئی واضح ہدایات نہیں ہیں، لیکن پولیس آرڈر 2002ء میں خصوصاً صوبائی پولیس افسروں (PPO) اور کیپیٹل سٹی پولیس افسروں (CCPO) کیلئے معینہ مدت کی اہمیت کو محسوس کرکے، تین سال کی مدت کا تعین کیا گیا ہے-
لیکن دراصل جو رائج طریقہ ہے، اس میں، صوبائی پولیس چیف کی اوسط مدت صرف آٹھ مہینہ بنتی ہے (سندھ چھ مہینہ، پنجاب نو مہینہ، خیبر پختونخواہ نو مہینہ، بلوچستان نو مہینہ) اور صوبائی دارالحکومتوں کے پولیس سربراہوں کی (جہاں لا قانونیت کے مسائل بہت زیادہ گمبھیر ہیں) صرف چھ مہینہ ہے، جبکہ پچھلے تین سال کے عرصے میں کراچی میں اوسطاً ہر چار مہینے میں پولیس چیف کا تبادلہ ہوجاتا ہے اور لاہور میں ہر ساڑھے چار مہینے میں-
جیسے جیسے آپ کو پولیس کے تنظیمی ڈھانچے کے بارے میں علم ہوتا جاتا ہے عہدے کی مدت میں کمی اور بھی بدتر ہوتی جاتی ہے.
پولیس اسٹیشن جو پولیس کی انتظامیہ کا سب سے اہم پرزہ ہے اس کی سربراہی کرنے والا ایس ایچ او لاہور میں اوسطاً صرف تین مہینے کیلئے تعینات ہوتا ہے اور کراچی میں تین مہینے سے بھی کم-
اس کے بعد جو سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہم ان پولیس افسروں سے عہدے کی اس محدود مدت کی تعیناتی میں کسی بھی قسم کی موثر کارروائی کی امید کرنے میں حق بجانب ہیں؟
گرچہ کہ پولیس افسروں کے ان فوری تبادلوں کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جس کی وجہ سے تعیناتی کی مدت میں کمی ہوتی ہے، سب سے زیادہ عام وجہ موجود پولیس افسروں کے مطابق، سیاسی مداخلت ہے-
سیاست دان اپنی مرضی کے پولیس افسروں کی تعیناتی مختلف جگہوں پر کرواتے ہیں اور وہ اس وقت تک وہاں رہتے ہیں جب تک وہ ان کی مرضی کے مطابق کام کرتے رہیں-
جہاں کسی نے ان کے غیر قانونی مطالبوں کو پورا کرنے سے انکار کیا، وہیں ان کا تبادلہ کردیا جاتا ہے- ہاں یقیناً، کچھ ایسے پولیس افسر بھی ہوتے ہیں جو سیاست دانوں کے ہر طرح کے مطالبات پورا کرنے کے وعدوں کے ساتھ ان کے پیچھے اچھی جگہوں کی پوسٹنگ کیلئے بھاگتے پھرتے ہیں-
اور ان کم مدت کی غیر یقینی تعیناتیوں کا اثر پولیس کی کارکردگی پر کیسا پڑیگا یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے-
پہلی بات، عوامی دلچسپی کے قوانین کے نفاذ کے بجائے پولیس چیف کو رکھنے اور ہٹانے کا من مانا طریقہ اپنے سیاسی ماسٹروں کی خدمت کی غلط روایت ہے- سیاسی لیڈرشپ کے غیرقانونی احکامات/ مطالبات پورا کرنے سے انکار کرنا ان افسروں کیلئے مشکل ہوتا ہے اور یہ اوپر سے لیکر نیچے تک ہر سطح کو متاثر کرتی ہے- اور سب سے بڑا نقصان عام آدمی کو ہوتا ہے-دوسری بات، اس کی وجہ سے پولیس افسران جز وقتی اقدامات اٹھاتے ہیں بجائے اس کے کہ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے طویل المدتی منصوبوں پر عمل کریں-
پولیس کی قیادت کا کام پالیسی سازی اور ان کا نفاذ ہے لیکن ان چند غیریقینی مہینوں کے عہدوں کی مدت میں وہ یہ سب تو نہیں کرسکتے ہیں- پولیس کے اعلیٰ افسران اس کمزور کارکردگی کی وجوہات بالکل جائز طور پر اس مختصر مدت کی تعیناتی کو بتاتے ہیں-
بالکل اسی طرح صوبائی سطح پر عہدوں کی مختصر مدت کا نتیجہ پوری صوبائی پولیس فورس پر ایک برا تاثر چھوڑتا ہے- احتساب اور نگرانی کے نظام پر اس کے برے اثر کا تو ذکر ہی کیا کرنا-
بین الاقوامی طور پر بہترین ضابطے
پولیس کی کارکردگی میں بہتری لانے کیلئے عہدوں کی مدت میں استحکام بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا ہوا ایک طریقۂ کار ہے- بین الاقوامی معیار پر تسلیم شدہ دنیا کی بہترین پولیس فورسز میں سے ایک لندن میٹروپولیٹن پولیس ہے-
برطانیہ کے پولیس ایکٹ 1996ء میں پولیس کمشنر کے عہدے کی مدت پانچ سال مقرر ہے- نہ صرف یہ، بلکہ پولیس چیف کو ہٹانے کیلئے ایک شفاف اور غیرجانبدار طریقۂ کار وضع کیا گیا ہے-
آگے کا راستہ
پولیس کے نظام میں اصلاحات کرنے کیلئے، طویل عرصہ کی کوششیں درکار ہوتی ہیں، ان کوششوں کی شروعات کرنے کیلئے چند اقدامات کی صورت مندرجہ ذیل ہوسکتی ہے؛
پولیس کے شعبہ میں تبدیلی لانے کیلئے پولیس کی قیادت کے رول کی اہمیت سے بڑی کوئی دوسری چیز نہیں ہے- GPs/CCPOS کو منتخب کرنے کے نظام کو درست کرنےکی ضرورت ہے تاکہ بہتر امیدواروں کی ایک چھوٹی لسٹ بن سکے جن میں سے سیاسی قیادت بالاخر بہترین امیدوار کا انتخاب کرے-
بالکل اسی طرح، پولیس افسروں کو ہٹانے کیلئے ایک شفاف اور غیرجانبدار نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے، خصوصاً صوبوں اور صوبائی دارالحکومتوں کے پولیس سربراہوں کو-
PPOs/ CCPOs کے عہدوں کی مکمل مدت تین سال کی ہونی چاہئے اور اس کے اختیارات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے- اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ بے حد بدنام تھانہ کلچرمیں تبدیلی پولیس کی قیادت کے کلچر میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں ہے- پولیس افسروں کے عہدوں کی مختصر مدت اور غیر یقینی کی کیفیت اس راستے کا ایک بہت بڑا پتھر ہے-
پولیس چیف اور CCPOs کا موثر احتساب اور عہدے کی معینہ مدت دونوں چیزیں ساتھ ہونی چاہئے تاکہ ہم بدعنوان اور نااہل پولیس افسروں کے چکر میں نہ پھنس جائیں- ویسے یہ کام بھی ایک آزاد شکایت درج کرنے والے ادارہ کے ذریعے ہونا چاہئے جو کسی کے اثر میں نہ آئے-
سول سوسائٹی، خصوصاً میڈیا کو چاہئے کہ پولیس کی قیادت کے عہدے کی مدت کے دوران جن واقعات اور پیچیدہ قانونی نظم وضبط کے مسائل سے وہ نبرد آزما ہوئے، عہدے کی مدت کا استحکام، پولیس کی اصلاح، یہ سب عوامی گفتگو کا حصہ بناۓ-
پاکستان میں پولیس کے معاملات میں سیاسی مداخلت زہر ہلاہل کا درجہ رکھتی ہے اور صوبائی پولیس افسروں کیلئے پہلے قدم کے طور پر، عہدے کی معینہ مدت کے ساتھ موثر احتساب کا نظام نہ صرف غلط کاموں سے انکار کی ہمت دیگا بلکہ عام آدمی کے مسائل کی طرف توجہ دینے کی ترغیب بھی دیگا- کیونکہ اس کے بغیر، تھانہ کلچر کو بدلنے کا خیال ایک خواب ہی رہے گا-
ترجمہ: علی مظفر جعفری