جہادی برائے فروخت
پاکستان میں ضیاء دور میں سرکاری سرپرستی میں متعارف کروایا گیا جہادی کلچر دنیا بھر کے جنگجوؤں کیلئے دعوتِ عام ثابت ہوا اور دنیا کے ہر کونے سے عسکریت پسند جوق در جوق پاکستان کا رخ کرنے لگے۔
وہ دن اور آج کا دن ہمارا ملک بین الاقوامی، علاقائی اور مقامی جنگجوؤں کے ليے 'جہادستان' بن چکا ھے۔ عرب عسکریت پسند، چیچن، ازبک، افغانی اور افریقی مجاھدین نے مقامی جہادی تنظیمیوں کے ساتھ ملکر ایک مضبوط نیٹ ورک تشکیل دیا اور اسلامی خدائ فوجداری شروع کردی۔
امریکہ میں 9/11 ھو، لندن میں 7/7 ھو، انڈونیشیا میں بالی دھماکے ہوں، ایران میں بسوں پر حملے یا پھر افغانستان میں کاروائیاں، کوئی نہ کوئی سراغ ہمیشہ پاکستانی جہادی تنظیموں یا قبائلی علاقوں میں چھپے ہوے القائدہ کے نیٹ ورک کی نشاندہی کرتا رھا.
2005 میں عراقی شہر تکریت سے گرفتار ہونے والے پاکستانی نوجوان حسن گل --القائدہ کا ایک اہم رکن جسکا تعلق اندرونِ سندھ سے تھا-- نے انکشاف کیا کہ پاکستانی جہادیوں اور القائدہ کے درمیان بہت گہرا تعلق ھے اور پاکستانی قبائلی پٹی اس وقت القائدہ کی اھم پناہگاہ بن چکی ہے۔
اس انکشاف نے جہاں مغربی انٹیلیجنس اداروں کے شک کو یقین میں بدل دیا وہیں پاکستانی اداروں کو بھی پریشان کر دیا کیونکہ ان کے علم میں یہ تو تھا کہ القائدہ نے دنیا بھر کے جھادی گروپس کو اپنے ساتھ ملا کر ایک نہایت ہی خطرناک نیٹ ورک ترتیب دیا ہے؛ لیکن پاکستانی جہادی تنظیموں کا کردار اتنا اہم ہوگا یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
حسن گل خفیہ اداروں کیلئے القائدہ کا انسائکلوپیڈیا ثابت ہوا. اس نے اپنی انٹیروگیشن میں مختلف پاکستانی جہادی تنظیموں اور عرب جنگجوؤں کے درمیان تعلق کو کھل کر بیان کیا اور مستقبل میں دونوں کے جوائنٹ وینچرز کی پلاننگ بھی بتائ.
جو پاکستانی جہادی تنظیمیں دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک کے ساتھ وابستہ تھیں اُن میں جیش محمد، حرکت جہادِ اسلامی، حرکت المجاہدین العالمی، جنداللہ اور لشکرِ جھنگوی سب سے زیادہ متحرک تھیں جبکہ طالبان تو تھے ہی القائدہ کے میزبان
جیشِ محمد اپنے آپکو کشمیر اور ھندوستان تک محدود ہونے کا دعویٰ کرتی تھی لیکن جب امریکی اور برطانوی خفیہ اداروں نے امریکی ہوائی جہازوں کو فضا میں تباہ کرنے کے منصوبےکو بینقاب کیا تو پاکستانی نژاد برطانوی شہری راشدرؤف جو کہ جیشِ محمد کے سربراہ کے قریبی ساتھی نکل آئے انکو اس منصوبے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا اور پھر راشد رؤف برطانیہ سے فرار ہوکر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں روپوش ہوے۔
حرکت المجاہدین العالمی کراچی میں امریکی قونصل خانے پر خودکش حملے میں ملوث پائی گئی جس کا عسکری کمانڈر مصطفٰی نامی نوجوان افغانستان کے جہادی کیمپوں میں عربوں کے ساتھ وقت گزار چکا تھا.
مصطفٰی نے کراچی میں 2004 میں گرفتاری کے بعد بتایا کہ کس طرح اس کے بناے ہوئے ٹریننگ مینیول کو مختلف ممالک کی جہادی تنظیمیں ترجمہ کروا کے اپنے ٹریننگ کیمپس میں استعمال کر رہی ہیں اور القائدہ نے اسکو ایران اور عراق میں اپنا نیٹ ورک بنانے کیلئے ہر قسم کی مدد کی یقین دہانی بھی کروائی ہے.
اسی مصطفٰی نے بعد میں امریکی قونصل خانے اور پھر فرانسیسی انجینئرز پر خودکش حملوں کی ترتیب بنائ۔
حرکت جہادِ اسلامی کے جنگجوؤں نے کراچی میں فرانسیسی انجینئرز پر خودکش حملے اور سابق صدر پرویز مشرف پر راولپنڈی میں خودکش حملوں کے علاوہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر فتح جھنگ میں خودکش حملہ کیا، ان تمام حملوں کے پیچھے بھی القائدہ ہی تھی جس نے پاکستانی جہادی تنظیموں کو اس کام کیلئے استعمال کیا۔
جنداللہ نامی جہادی تنظیم کراچی کے تعلیمیافتہ نوجوانوں پر مشتمل تھی جس نے 2004 میں کراچی کے کور کمانڈر پر حملہ کرنے کے علاوہ پے درپے متعدد خوفناک دہشتگردانہ وارداتیں کر کے ملک بھر میں اپنی دھاک بٹھادی۔
یہ تنظیم بھی القائدہ کی چھتری تلے کام کر رہی تھی اور اس کا بانی بھی القائدہ کا مصری نژاد رہنما حمزہ الجوفی تھا جسنے اس تنظیم کو دہشتگردی کے علاوہ بینک لوٹنے، پولیس والوں پر حملوں اور معصوم بیگناہ پاکستانی شہریوں پر القائدہ اور جنداللہ کا خوف بٹھانے کے لئے استعمال کیا اور خصوصأ پاک فوج کے جرنیل اور جوانوں پر حملے القائدہ کی نفرت کا اظہار تھا۔ یہاں بھی پاکستانی جہادی نوجوانوں کو استعمال کیا گیا۔
اسی طرح ایک جنداللہ اور بھی تھی جسکا نشانہ ایرانی سیکیورٹی فورسز کے لوگ تھے۔ اس تنظیم نے بھی القائدہ کی طرز پر دہشتگردی کی ہولناک وارداتیں کیں اور مغوی ایرانی سیکیورٹی فورسز کے لوگوں کو اسی طرح سے ذبح کرکے انکی وڈیوز ریلیز کیں جو القائدہ کا مخصوص اسٹائل تھا۔
ایرانی حکومت کا الزام تھا کہ پاکستانی خفیہ ادارے اس تنظیم کو مدد فراہم کرتے ہیں لیکن جب پاکستانی اداروں کی مدد سے جنداللہ کا سربراہ مالک ریگی گرفتار ہوکر ایرانی حکومت کے ہاتھوں پھانسی چڑھا تو دونوں ہمسائہ ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہوئی۔
مالک ریگی بھی لشکرِجھنگوی بلوچستان کے سربراہ عثمان کرد کا قریبی دوست تھا اور جب مالک ریگی کے ساتھیوں کو پکڑے جانے کے خوف سے کوئی بھی پناہ دینےکے لئے تیار نھیں تھا تو عثمان کرد نے ہی انکو مستونگ میں ٹھرایا تھا۔ جبکہ القائدہ ارکان کو ایرانی سرحدی پٹی میں جب بھی پناہ کی ضرورت ہوتی تھی تو جنداللہ وہاں پر انکی میزبانی کے فرائض انجام دیتی رہی ہے.
2001 میں کراچی میں امریکی صحافی ڈینئل پرل کے اغوأ اور پھر ذبح کر کے وڈیو ریلیز کرنے کی واردات میں بھی دنیا کو پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ یہ القائدہ اور لشکرِجھنگوی کا جوائنٹ وینچر تھا اور کس طرح القائدہ نے پاکستانی فرقہ وارانہ تنظیم کو اپنے کام کیلئے استعمال کیا۔
اسی طرح افغانستان سے فرار ہوکر پاکستانی قبائلی علاقوں میں پناہ لینے والے غیرملکی جنگجوؤں نے پاکستانی طالبان اور دیگر جہادی تنظیموں کے ساتھ ملکر جو پاکستانی سرزمین پر اودھم مچائی اسکی مثال بھی دنیا میں کم ہی نظر آتی ہے۔ یہ جنگجو اتنے طاقتور ہوگئے کہ اپنے ہی میزبانوں کو مارنا شروع کردیا اور ساتھ ساتھ پاکستان میں کی مختلف جہادی تنظیمیں ان غیر ملکی شدت پسندوں کے ساتھ ملکر ازبک، چیچن اور القائدہ برانڈ اسلام نافذ کرنے کے لئے اپنے ہی ہموطنوں پر ٹوٹ پڑیں جس نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
ہمارے جہادی ثواب سمجھ کر بینک لوٹنا شروع ہوگئے، پاکستانی فورسز پر حملے عام ہوگئے، جہاں کوئی پولیس اہلکار نظر آتا مار دیا جاتا، ہمارے جہادی نوجوان کرائے کے قاتل بن گئےاور القائدہ کے کہنے پر 2001 سے لیکر دہشتگردی کی وہ وہ عظیم مثالیں قائم کی گئیں کہ دوسرے ممالک کے دہشتگرد گروپ بھی پاکستانی طالبان اور دیگر جہادی تنظیموں پر رشک کرنے لگے۔
اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد جب القائدہ اپنے زوال کی جانب گامزن ہے تو ایسے میں ہماری ملک کی بےروزگار جہادی تنظیمیں عراق و شام پر نظریں گاڑہے بیٹھی ہیں اور انکے کھانے پینے کا نیا سامان داعش نامی عسکریت پسند تنظیم کی صورت میں پیدا ہورہا ہے.
داعش (ISIS) مشرقی شام سے پیشقدمی کرتی ہوئی عراقی شہر موصل پر قبضہ کرنے کے بعد اب بغداد کی جانب رواں دواں ہے اور اس تنظیم کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے دولتِ اسلامیہ عراق و شام کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے اپنے آپکو خلیفہ قرار دیا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو عوت دی ہے کے جہاد کیلئے عربستان کا رخ کریں۔
اس تنظیم کی اٹھان بھی طالبان کی طرح ہے اور داعش نے بھی اپنی ہی طرز کا اسلام نافذ کرنے کیلئے لوگوں پر خوف بٹھانے کیلئے سخت سزایئں اور معمولی سی بات پر گردن زنی عام کردی ہے اور مخالف فرقے اور غیر مسلم عبادتگاہوں کو تباہ کرنا شروع کردیا ہے۔ عام سُنی بھی داعش سے سخت خوفزدہ ہے اور لوگ محفوظ مقامات کی تلاش میں گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔
اگر مشرق وسطٰئ کی موجودہ گھمبھیر صورت حال دیکھیں تو اس وقت دنیا بھر کی جہادی تنظیمیں عراق و شام کیے حالات کو اپنے لئے نہایت موزوں پلیٹ فارم پاتے ہوئے ادھر کا رخ کر رہی ہیں جبکہ اسرائیلی بہیمانہ کاروائیاں اس پر مزید تیل چھڑک رہی ہیں۔
پاکستانی افواج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن سے جہاں مقامی طالبان اپنے علاقے چھوڑ کر افغانستان فرار ھو چکے ھیں وھیں پر سب سے زیادہ کاری ضرب مقامی جہادی تنظیموں اور غیر ملکی جنگجوؤں پر پڑی ہے اور وہ اب ماضی کی طرح دوبارہ افغانستان میں پناہ لینے کا رسک نہیں لیں گے جہاں سے بمشکل جان بچا کر وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آبسے تھے۔
اب ُان کی نظر عراق و شام پر ہے جہاں داعش کے علاوہ القائدہ کا ایک قریبی لڑاکا گروپ النصر بھی موجود ہے اور ہر گروپ کو کرائے کے جنگجو تو ہر وقت درکار ہوتے ہیں۔
اب ھماری جہادی تنظیمیں پاکستان بھر سے نئی بھرتیاں کرینگی اور ایک بار پھر سے ہمارے معصوم نوجوانوں اور مدرسوں کے طلبا کو تیار کیا جایئگا۔ عام لوگوں کے بچے ایک مرتبہ پھر جہادی منڈی میں فروخت ہونگے اور ان جہادی لیڈران کی اولادیں پھر سے معصوموں کے خون پر لیڈری چمکایئں گی۔
لیکن اب کی بار یہ قوم اپنے بچوں کو نام نہاد مذہبی اور جہادی تنظیموں کے ہاتھ فروخت نہیں ہونے دیگی اور اب سب کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی ھوگی کہ خدائی فوجداری چھوڑیں اور پہلے اپنے گھر کو سنبھالیں
اگر اب بھی سمجھ نہ آئی تو پاکستان کا حشر بھی عراق و شام سے مختلف نہیں ہوگا۔
لکھاری کاؤنٹر ٹیررازم ایکسپرٹ اور سابق ایس ایس پی، سی آئی ڈی ہیں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔