نقطہ نظر

بک ریویو: ایم آرڈی تحریک ۔۔ جب سندھ میں آگ لگی

ایک لحاظ سے یہ کتاب ضیا دور کی پوری تاریخ ہے جو عوامی مزاحمت کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔

*ماضی قریب میں سندھ میں دو بڑی تحریکیں چلیں جنہوں نے ملک کے اس جنوبی اور ساحلی صوبے کی سیاسی ساخت کی کایا پلٹ دی۔ ان تحریکوں میں عوام کے وسیع تر حلقوں نے حصہ لیا۔ پہلی تحریک ون یونٹ کے خلاف تھی جو انیس سو ساٹھ کی دہائی میں چلی۔ دوسری ایم آرڈی تحریک تھی جو ون یونٹ تحریک کے ٹھیک بیس سال بعد جنرل ضیا کے مارشل لا کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لیے چلائی گئی۔*

ان دو تحریکوں میں فرق یہ تھا کہ ون یونٹ کے خلاف تحریک نے سندھ کے متوسط طبقے کو متحرک اور سرگرم کیا جبکہ ایم آرڈی کی تحریک نے صوبے کے تمام طبقات کو متحرک کیا۔ سندھ میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس نے اس تحریک میں حصہ نہ لیا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔


محقق بدر ابڑو نے ایم آرڈی کی کہانی "جڈھن سندھ میں باہ بری" کے نام سے سندھی زبان میں کتاب لکھی ہے۔ بدر ابڑو اس تحریک کے نہ صرف عینی گواہ ہیں بلکہ وہ خود بھی اس کے متاثرین میں شامل تھے۔ وہ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران مشہور کمیونسٹ کیس --جو تاریخ میں 'جام ساقی کیس' کے نام سے جانا جاتا ہے-- کے سلسلے میں قید تھے۔

بدر ابڑو کی کے مطابق ایم آر ڈی تحریک صرف 14 اگست 1983 سے اگلے چار ماہ کی کہانی نہیں۔ دراصل یہ انگارہ بہت پہلے سے جل رہا تھا۔ بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے کے بعد جنرل ضیا نے اپنی اتحادی سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے باہر کر دیا۔ عدالتوں پر مزید پابندیاں عائد کر دیں تاکہ وہ مارشل لا عدالتوں کے کسی فیصلے پر نظر ثانی نہ کر سکیں۔

پاکستان قومی اتحاد جس کی تحریک کے نتیجے میں ستر کے عشرے کے آخر میں مارشل لا نافذ ہوا تھا، اس میں شامل جماعتوں نے مشترکہ جدوجہد چلانے کے لیے پیپلز پارٹی سے رابطے کیے۔ پیپلز پارٹی کو شبہ تھا کہ کہیں یہ جماعتیں ضیا کو بلیک میل کرنے کے لیے تو نہیں کر رہی ہیں کہ ہمیں اقتدار میں شامل کرو ورنہ ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ مل جائیں گے۔

اس دور میں بھٹو لیڈیز بہت ہی ہوشیاری سے پارٹی چلا رہی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ وہ وسیع تر اتحاد کے لیے ان جماعتوں کے ساتھ بیٹھیں جو بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور ان کو تختہ دار تک پہنچانے میں ملوث تھیں۔


بدر ابڑو نے ایم آر ڈی کی تشکیل کے وقت کے بعض دلچسپ واقعات بھی بیان کئے ہیں کہ کس طرح سے بیگم بھٹو گوریلا کاروائی کر کے برقعہ پوش ہوکر بذریعہ ٹرین اجلاس میں شرکت کے لاہور پہنچیں۔ اور یہ بھی کہ ابتدائی طور پیر پگارا کی مسلم لیگ اور سردار عبدالقیوم کی آزاد جموں کشمیر پارٹی بھی مذاکرات میں شامل تھیں۔ لیکن بعد میں پیر پگارا نے ایم آر ڈی نے اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔

پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کے قریب نہیں آرہی تھیں۔ اس کے لیے پیار علی الانا نے ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اتحاد کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی کاپی خواجہ خیرالدین کے ذریعے جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غفور احمد سے حاصل کی۔ جس سے مصالحتی ماحول بن پایا۔

اس کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ بیگم نصرت بھٹو بائیں بازو کی جماعتوں کو بھی اس اتحاد میں شامل کرنا چاہتی تھیں لیکن سردار قیوم اور دیگر بعض جماعتوں کی طرف سے اس کی سخت مخالفت کی گئی۔ بیگم بھٹو یہ اس لیے کرنا چاہتی تھیں کہ دائیں کی جماعتوں کو اتحاد میں کاؤنٹر کیا جاسکے۔

یہ تحریک مارچ انیس سو اکیاسی میں شروع ہونی تھی۔ لیکن پی آئی اے کا جہاز اغوا ہونے کی وجہ سے اس میں ڈھائی سال تاخیر ہوئی۔ جیسے ہی ایم آر ڈی کا قیام عمل میں آیا پی آئی اے کا جہاز اغوا ہوگیا اور ذمہ داری الذولفقار نامی ایک تنظیم پر ڈالی گئی۔

جہاز کے اغوا کی وجہ سے ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف تحریک ملتوی ہوگئی اور سیاسی فضا میں خوف کا عنصر شامل ہو گیا۔ پیپلز پارٹی پر الذولفقار کی پشت پناہی کرنے اور دہشتگرد کاروایوں کے الزام لگنے لگے۔ اس صورتحال سے بعض جماعتیں ڈر گئیں اور یوں ملک میں ایک طویل خاموشی چھا گئی۔

بدر ابڑو کے مطابق اس جمود کو توڑنے میں کمیونسٹوں کے کیس نے جو 'جام ساقی کیس' کے نام سے مشہور ہوا، بہت مدد کی۔ انہوں نے مارشل لا مخالف تمام سیاستدانوں کو دفاع کے گواہ کے طور پر فوجی کورٹ میں بلایا۔ ان میں بینظیر بھٹو اور ولی خان سے لیکر جے یو آئی کے مولانا شاہ محمد امروٹی، اور بیگم طاہرہ مظہر علی خان کے علاوہ کئی دانشور اور صحافی بھی شامل تھے۔ اس طرح ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر آکر بولنے اور مارشل لا کی مخالفت کرنے کا موقعہ ملا۔

فوجی عدالت نے ان سیاستدانوں کو اس لیے کمیونسٹوں کے مقدمے میں آنے کی دعوت دی کہ وہ امریکہ کو یہ دکھا سکے کہ یہ سب لوگ کمیونسٹوں کے ساتھ ہیں. دراصل کمیونسٹ اپنی سیاست کر رہے تھے۔ ضیا اپنا گیم کھیل رہا تھا۔ جبکہ سیاستدان ایک بار پھر اکٹھے ہورہے تھے۔ یہ وہ عنصر ہے جو اکثر تاریخدانوں کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ اس پلیٹ فارم کی اہمیت اتنی ہوگئی کہ ملک کے کونے کونے سے ملزمان کو یہ پیغامات ملنے لگے کہ وہ بھی بطور گواہ پیش ہونا چاہتے ہیں۔

ایم آر ڈی کی تحریک کی حکمت عملی کچھ اس طرح تھی کہ سیاسی قیادت کو گرفتاری پیش کرنی تھی۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک سیاسی قیادت کے ہاتھ سے نکل گئی اور عام کارکن اور عام آدمی کے ہاتھ میں چلی گئی۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی قیادت اور اسمبلی ممبران کو گرفتاری پیش کرنے کے لیے اس لیے کہا گیا تاکہ عام لوگ بھی تحریک میں حصۃ لینے کے لیے تیار ہو جائیں۔

تحریک کے تیسرے روز ہی تشدد کا عنصر شامل ہوگیا۔ جس کا فائدہ حکومت نے خوب اٹھایا۔ لیکن تشدد کے باوجود لوگوں میں جوش و خروش قائم رہا۔

صورتحال کو ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر سیاستدانوں سے خاص طور پر اس تحریک کی اہم شخصیت غلام مصطفیٰ جتوئی سے مذاکرات کیے گئے۔ جس پر انہوں نے بیان دیا کہ عوام ماضی کی تلخیاں بھلا دیں۔

جوں جوں تحریک چلانے کے دن قریب آرہے تھے، جنرل ضیا کی پریشانی بڑھ رہی تھی، لیکن وہ نئی نئی چالیں چل رہے تھے۔ انہوں نے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی کے قدم ڈگمگا گئے۔ پارٹی کی چیئرپرسن بیگم بھٹو نے کارکنوں کو ان انتخابات میں حصہ لینے کی ہدایت کردی۔ اسی کے ساتھ ضیا نے یہ چال چلی کہ انتخابات کی تاریخ قریب کردی اور 14 اگست کی تحریک کے آگے بند باندھنے کے لیے کاغذات نامزدگی 15 سے 17 اگست وصول کرنے اور چھان بین کی تاریخ 21 اگست مقرر کردی۔ شیرباز مزاری نے دباؤ ڈالا جس کے بعد پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ واپس لیا۔

تحریک شروع ہونے سے پانچ روز پہلے یہ خبر آئی کہ ولی خان اور بیگم نسیم ولی خان ایم آرڈی تحریک میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔ تحریک کے دوران ہی باچا خان کی پریس کانفرنس شایع ہوئی کہ ہمارا ایم آر ڈی تحریک سے کوئی تعلق نہیں۔ پنجاب ہمارا بڑا بھائی ہے۔

کتاب میں مختلف واقعات ترتیب وار دیئے گئے ہیں۔ 17 اگست تک پنجاب میں پارٹی کی قیادت کے بھرپور زور دینے کے باوجود تین چار رہنما گرفتاری پیش کر سکے۔ یہی صورتحال بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تھی جہاں پاکستان نیشنل پارٹی اور این ڈی پی اپنی بات پر قائم نہ رہ سکیں۔ یہاں پر تحریک کی اچھی ابتدا نہ ہو سکی۔ البتہ کراچی میں جھڑپیں اور گرفتاریاں تمام جماعتوں کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ سندھ کا دیہی علاقہ جیسے انتظار میں بیٹھا تھا۔ یہاں سے پارٹی کے لوگوں نے گرفتاری دی۔

22 اگست کو جنرل ضیا نے کراچی میں صحافیوں کو بتایا کہ تحریک کے پیچھے غیرملکی ہاتھ ہے۔ تین ستمبر کو عام ہڑتال کی اپیل کی گئی۔ اسی روز اجلاس میں ایک رائے یہ سامنے آئی کہ مزید تحریک کے بجائے حکومت سے بات چیت کی جائے۔

ضیا کی اپنی ٹیم بھی ان پر دباؤ ڈال رہی تھی۔ مجلس شوریٰ کے چیئرمین خواجہ صفدر نے تجویز دی کہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے مذاکرات کئے جائیں۔

یہ کتاب ایم آر ڈی موومنٹ کو سمجھنے کی ایک نئی کوشش ہے۔ کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جہاں تحریک کے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس وقت علاقائی صورتحال کیا تھی، ملک میں اور سندھ میں کیا ہورہا تھا۔ اس بیان سے خود تحریک کو سمجھنے میں بڑی سہولت ملتی ہے۔

جہاں ایم آر ڈی کے قیام کی کہانی اور پیش آنے والی رکاوٹوں کا تفصیلی ذکر ہے وہیں اس دور کے ملکی اور علاقے میں رونما ہونے والے واقعات کو بھی بیان کیا گیا ہے، جس سے اس تحریک کا پس منظر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

ایک لحاظ سے یہ ضیا دور کی پوری تاریخ ہے جو عوامی مزاحمت کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب اگر اردو میں بھی شایع ہوتی تو اس کی اہمیت اور عوامی پہنچ کئی گنا زیادہ ہوتی۔


کتاب کا نام: 1983: "جڈھن سندھ میں باہ بری" -- ایم آرڈی کی کہانی

لکھاری: بدر ابڑو

زبان: سندھی

صفحے: 352

پبلشر: کاچھو پبلکیشن، تھرڈ فلور، عابد چیمبرز، نیو چالی، شارع لیاقت، کراچی

پرنٹر: ذکی سنز پرنٹرز، کراچی

قیمت: تین سوپچاس پاکستانی روپے

سہیل سانگی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔