نقطہ نظر

ڈھاک کے تین پات

جب تک اعداد و شمار (سٹیٹسٹکس) سیاسی مفادات کے تابع رینگے، حقیقی منصوبہ بندی ناممکن ہے-

وزیر مالیات اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں 5 جون کو اپنی وزارت کے افسروں سے ایک میٹنگ کے دوران کہا تھا:

"ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں- ہم اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور خاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور اپنی کامیابی کے منتظر رہتے ہیں، جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہوگی کہ ہم نے اپنے وعدے پورے کئے-"

اسحاق صاحب کے ارادے بھلے ہی نیک ہوں لیکن عوام یہی دیکھتے آئے ہیں کہ وعدے وعدے ہی رہے- اس بار بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں- ویسے بھی ملک یکے بعد دیگرے جن بحرانوں سے گزر رہا ہے، سیاسی اور مالیاتی دونوں ہی لحاظ سے-----عوام کی یہ خوش فہمی کبھی کی ختم ہوچکی کہ بھاری مینڈیٹ والی یہ حکومت ان کی قسمتیں بدلے گی-

اس بار اگرچہ، قومی اسمبلی کی بجٹ تقریر کے دوران وہ روایتی ہنگامہ دیکھنے میں نہیں آیا (ہنگامہ تو کہیں اور ہو رہا تھا) جو ماضی کی خصوصیت رہا ہے، نہ تو بجٹ کی دستاویزات پھاڑی گئیں اور نہ ہی ڈیسک بجائے گئے، نہ ہی واک آؤٹ ریکارڈ کرائے گئے اور ڈار صاحب سکون کے ساتھ ملک کی تاریخ کی سب سے لمبی تقریر مکمل کر گئے، لیکن جب بجٹ تقریر ختم ہوئی تو عام رد عمل یہی تھا --- بجٹ کو کسی لحاظ سے بھی عوام دوست نہیں کہا جاسکتا-

اس بار بھی مراعات یافتہ طبقہ ہمیشہ کی طرح ٹیکسوں کے نیٹ ورک سے صاف صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا- اندازہ یہ تھا کہ ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کی جاتیں تو کم از کم تین لاکھ افراد اس دائرے میں شامل ہوجاتے جو نہ تو ٹیکس ریٹرنز فائل کرتے ہیں اور نہ ٹیکس دیتے ہیں- زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس نہیں لگایا گیا- مختصر یہ کہ مراعات یافتہ طبقہ کو ان کے 'بنکروں' میں محفوظ چھوڑ دیا گیا ہے-

جو ٹیکس تجاویز سامنے آئی ہیں ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ ہمیشہ کی طرح ان ہی کو اٹھانا ہوگا جو ہمیشہ ڈھوتے آئے ہیں، ان کی تکالیف یونہی بڑھتی رہینگی، نادار اسی طرح نادار رہینگے، ملک کی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والی نصف آبادی اسی طرح کسمپرسی کا شکار رہیگی، بچے اسی طرح تعلیم سے محروم رہینگے، صحت کی سہولتوں سے محروم آبادی اسی طرح سسکتی زندگی گزارتی رہیگی-

گو کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فی صد کا اضافہ کیا گیا ہے، کم سے کم اجرت بھی بڑھا دی گئی ہے، پنشن کی کم سے کم حد بھی پانچ ہزار سے بڑھا کر چھ ہزار کردی گئی ہے، انکم سپورٹ اسکیم کی حد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے لیکن افراط زر کی موجودہ شرح کے مقابلے میں جس میں ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال 60 فی صد کا اضافہ ہوا ہے یہ اقدامات قطعی ناکافی ہیں-

حکومت کی تمام تر توجہ بجٹ خسارے کو کم کرنے کی طرف ہے کیونکہ وہ آئی ایم ایف کو ناراض نہیں کرنا چاہتی خواہ اس کے لئے ترقیاتی منصوبوں میں کٹوتی کرنی پڑے. بجلی، پٹرولیم مصنوعات وغیرہ پر سبسیڈیز کا خاتمہ کردیا گیا ہے جس سے بالاخر عوام ہی متاثر ہونگے-

اگرچہ، حکومت نے ڈالر کی شرح کو روپیہ کے مقابلے میں کم کرنے میں اپنی کامیابی کا خوب ڈھول پیٹا لیکن اس کے نتیجے میں ہماری برامدآت متاثر ہو رہی ہیں اور تجارتی توازن خسارہ کا شکار ہورہا ہے جو 1.5 بلین ڈالر سے بڑھ کر 1۔2 بلین ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا ہے-

اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت نے چار فی صد سے زیادہ کی رفتار سے ترقی کی ہے لیکن ماہرین کے اندازوں کے مطابق اسکی شرح تین فی صد سے زیادہ نہیں تھی-

پاکستان تحریک انصاف سے سیاسی معاملات میں تمام تر تحفظات کے باوجود اسکی بعض تجاویز میں خاصا وزن دکھائی دیتا ہے- ایک تو یہ کہ کم سے کم پنشن کی سطح کم سے کم ماہانہ اجرت کے مساوی ہو اور دوسری سب سے اہم تجویز یہ ہے کہ محکمہ اعداد و شمار کو ایک آزاد ادارے کی حیثیت دیجائے اور ڈیٹا کلکشن اور ان کا تجزیہ ملک کی بیس بڑی یونیورسٹیوں کے حوالے کردیا جائے مثلاً، LUMPS ،IBA ،QAU وغیرہ-

اعداد و شمار (سٹیٹسٹکس) منصوبہ بندی میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ہمارے ملک میں حکومتیں اعداد و شمار کو مسخ کرکے پیش کرتی ہیں- جب تک اعداد و شمار سیاسی مفادات کے تابع رینگے حقیقی منصوبہ بندی ناممکن ہے-

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔