نقطہ نظر

پیمرا نے آخر کیا غلط کیا؟

باڈی کے حکام بالا نے بڑی بے دردی کے ساتھ ایک پہلے سے نازک معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا-

میں نہیں سمجھتی کہ منگل کی شام کو پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی اور جیو نیٹ ورک کو لے کر رونما ہونے والے واقعات کسی کی بھی سمجھ میں آئے ہیں-

مذکورہ اعلان کے بعد سے میرے کیبل نیٹ ورک پر جیو نیوز نہیں آ رہا حالانکہ پیمرا کی انتظامیہ نے اپنے چند ممبران کی جانب سے کئے جانے والے اعلان کو چند ہی گھنٹوں بعد معطل کر دیا تھا-

وہ عجیب سی پریس کانفرنس جس میں نیٹ ورک کے تین چینلز کے لائسنس کو معطل کرنے کا اعلان کیا گیا، انتہائی عجلت میں اور خراب تیار کی گئی معلوم ہوتی تھی اور ان چند ممبران کی میڈیا سے بات چیت کے بعد ریگولیٹری باڈی کے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے معطلی کے احکامات کو منسوخ قرار دے دیا-

پیمرا ممبران کا یوں روز روز اس معاملے پر آگے پیچھے ہونا نہ صرف نوکر شاہی کی مس مینجمنٹ، پروفیشنلزم کے فقدان اور بدانتظامی کی غمازی کرتا ہے بلکہ شاید اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ شاہ کی وفاداری میں وہ کسی حد تک جا سکتے ہیں-

اس حوالے سے قوانین بہت سادہ ہیں- یا تو چیئرمین، یا پھر جیسا کہ فی الوقت معاملہ ہے، چیئرمین کی غیر موجودگی میں اس کے آدھے سے زیادہ موجودہ ممبرز ایسا اجلاس بلا سکتے ہیں-

چونکہ پیمرا ممبران کی تعداد بارہ ہے لہٰذا اجلاس کے قانونی ہونے کیلئے سات ممبران کا ہونا لازمی ہے- تاہم اس اجلاس میں، اسرار عباسی کے دعوے کے مطابق، صرف پانچ ممبر موجود تھے گو کہ ان میں سے بھی صرف تین ہی اجلاس میں صلاح مشورے کے بعد، کیمرے کے سامنے آئے-

اب اگر پیمرا رولز کے مطابق ایسا اجلاس بلایا جائے تو باڈی کے حوالے سے جاری ہونے والے آرڈیننس کی شق چار کے مطابق اگر ایک تہائی ممبر بھی موجود ہوں تو کورم پورا ہو جاتا ہے یعنی کم از کم چار ممبران کی اجلاس میں شرکت لازمی ہے-

بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ منگل کو ایسا نہیں ہوا- پیمرا کے مذکورہ ممبران کا مسلسل یہ اصرار کہ اجلاس اور اس میں لئے جانے فیصلے قانونی تھے سوائے پراسیس کا مذاق اڑنے کے کچھ بھی نہیں- وہ پراسیس، جس پر پوری نیک نیتی اور شائستگی کے ساتھ عمل درآمد ہونا چاہئے تھا بجائے اس تماشے کے جو ہم نے دیکھا-

باڈی کو چلانے والوں نے بڑی بے دردی کے ساتھ ایک پہلے سے نازک معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا-

ریگولیٹری باڈی، یا آپ اسے جو بھی نام دیں، نیٹ ورک کی قسمت کا فیصلہ اس مہینے کی اٹھائیس تاریخ کو کرے گی جس میں جیو پر بنیادی طور پر آئی ایس آئی پر الزام تراشی اور ایک مارننگ شو میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے الزامات شامل ہیں- پر جو کچھ ہم نے منگل کی رات کو دیکھا اس سے ہم میں سے بہت سوں کے ذہنوں میں یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ اتھارٹی اپنے موجودہ آئین کے ساتھ اس کام کے لائق ہے بھی یا نہیں-

یہ تماشا چند گھنٹوں تک جاری رہا جس میں پیمرا ممبر اسرار عباسی نے ناظرین کو شام کے اچھے خاصے حصے تک 'حیران و پریشان' کئے رکھا اور پھر بعد میں باڈی کے ایگزیکٹو ممبر کلیم الدین نے اس پوری ایکسرسائز کو غیر قانونی قرار دے دیا-

ان حالات میں جب پیمرا اپنے پانچ یا سات ممبران کے اجلاس کے قانونی اور غیر قانونی ہونے کے بارے میں پھنسا ہوا ہے اور جو لائسنس کی معطلی کے احکامات جاری اور منسوخ کر رہا ہے، کیا اسے اس بات کا اختیار ملنا چاہئے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ لوگوں کو ٹی وی پر کیا دکھایا جانا چاہئے اور کیا نہیں؟

یہ کہنا بہت ہی مشکل ہے کہ آیا پیمرا نے منگل کو ہونے والے ڈرامے سے کچھ سیکھا ہے اور اب شاید وہ ٹکراؤ سے بچاؤ کا رستہ اختیار کرتے ہوئے اس معاملے کے حوالے سے تعمیری اپروچ اختیار کرے گا-

اگر اس کا مقصد واقعی میں "اطلاعات، تعلیم اور انٹرٹینمنٹ کے معیار" کی بہتری ہے تو بہتر ہو گا کہ یہ باڈی صحافیوں اور ٹیلی ویژن پروگرامنگ سے منسلک افراد کی بہتر ٹریننگ پر توجہ دے -

یہ بھی اہم ہے کہ جیو یا کسی بھی نیٹ ورک کی مکمل بندش فری میڈیا کے مفاد میں نہیں جس کو یقینی بنانے کیلئے بہت سوں نے کئی دہائیوں تک محنت اور کوششیں کیں ہیں-

پھر یہ بھی لگ رہا ہے کہ پچھلے چند دنوں سے ٹیلی ویژن پر چھائے اس شور و غل میں جیو کے انکرپرسن حامد میر پر حملے کے ذمہ داروں کو تلاشنے کی آوازیں گم سی ہوتی معلوم ہو رہی ہیں-

یہ بہت ضروری ہے کہ جوابات تلاش کئے جائیں اور یہ نہ بھولا جائے کہ آخر ہوا کیا تھا-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: شعیب بن جمیل

عائشہ خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔