کھانا پکاؤ، گھر کا کام کرو اور مردوں کو ووٹ دو!
الفاظ کہانیاں بیان کرتے ہیں پر نمبروں سے زیادہ بہتر سمجھ میں آتا ہے-
ایک ایسی ہی کہانی، پاکستانی عورت کے بارے میں وہ انکشافات ہیں جو جنوبی ایشیا میں سیاست میں خواتین کے کردار کے بارے میں کئے جانے سروے میں سامنے آئے ہیں اور جو کہ بہرحال کچھ خوشگوار نہیں- سروے کے مطابق، جو کہ سینٹر فور سوشل ریسرچ اینڈ یونائیٹڈ نیشنز وومن نے کروایا، پاکستانیوں کی اکثریت (تقریباً پچپن فیصد) یہ سمجھتی ہے چونکہ خواتین میں تعلیم اور سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی ہوتی ہے لہٰذا اگر وہ کسی انتخابی آفس کے لئے منتخب کر بھی لی جائیں تب بھی کسی مرد کو (شوہر یا باپ) اس کا قائم مقام مقرر کرنا چاہئے-
سیاسی میدان میں ذمہ داریاں سنبھالنے کی خواتین کی صلاحیت کے بارے میں اگر یہ عمومی حقارت کافی نہیں تو یہ لیجئے- تقریباً 78 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ خواتین کو کسی بھی قسم کا سیاسی کام کرنے سے پہلے گھریلو ذمہ داریاں سرانجام دینی چاہئیں- سروے کی شماریاتی کہانی کے اس حصے کو چند الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے- کھانا پکاؤ، کام کاج کرو اور مردوں کو ووٹ دو-
حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا نہیں کہ پاکستانی عورتوں (یا نیپالی یا ہندوستانی عورتیں، جو کہ سروے میں شامل تھیں) کے پاس سیاسی طور پر سرگرم ہونے کے مواقع موجود ہیں- اور اگر وہ سیاست کے کارزار میں قدم رکھنے کی ہمت جٹا بھی لیں، تب بھی سروے سے سامنے والے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے پاس اس میدان میں جمے رہنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے-
نہ صرف یہ کہ پاکستانی عورتوں کو آج، زیادہ نہیں بلکہ صرف پانچ سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ سیاسی تشدد کا سامنا ہے بلکہ بہت سوں نے تو اپنی صنف کی بنا پر ہراساں کئے جانے، دھونس اور دھمکیوں کے بارے میں بھی رپورٹ کیا ہے-
پچھلے برس ہونے والے انتخابات میں جہاں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بڑھا اور چالیس فیصد تک پہنچ گیا وہیں سیاسی دفتر کے لئے مقابلہ کرنے والی خواتین کا تناسب بارہ فیصد سے گھٹ کر تین فیصد سے ذرا ہی اوپر رہا-
تاہم کھانا پکانے، کام کاج کرنے اور مردوں کو ووٹ دینے والی خواتین کو پیچھے دھکیلے رکھنے سے جہاں خواتین کو اپنے گھروں تک محدود رکھنے کا صرف ایک حصہ سامنے آتا ہے وہیں اس سروے کی شماریاتی کہانی ایک اور تضاد کو بھی بیان کرتی ہے- پوچھے جانے پر، سروے کا جواب دینے والے ترانوے (93) پاکستانی سمجھتے ہیں کہ خواتین کو انتخابی سیاست میں شامل ہونے کا حق حاصل ہونا چاہئے-
اس کے ساتھ ساتھ، جواب دینے والوں میں سے اسی فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ "مددگار شوہر"، عورتوں کے سیاست میں حصہ لینے کیلئے ناگزیر ہیں- گو کہ خواتین کی شمولیت کا حق تسلیم بھی کیا جاتا ہے اور "مددگار شوہر" بھی ناگزیر قرار دیا جاتا ہے اس کے باوجود اس حق کے استعمال کو یقینی بنانے اور ایسے مددگار شوہر فراہم کرنے میں کسی کی بھی دلچسپی نہیں-
ان متضاد خیالات کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ خواتین کے سیاست میں حصہ لینے کا حق صرف تھیوری کی حد تک ہی ہے اور اس کا انحصار مردوں پر ہے جن کے عورتوں پر حقوق، خود عورتوں کے اپنے اوپر حاصل حق کے مقابلے میں زیادہ متقدم ہیں-
یہ ابہام اتنا بھی حیران کن نہیں- یقیناً، پاکستان اور جنوبی ایشیا میں عمومی طور پر، سیاست ایک خطرناک کھیل ہے جہاں عام گھرانوں سے تعلق رکھنے والے، مردوں اور عورتوں کے پاس زیادہ آگے جانے کے موقعے بہت ہی کم ہوتے ہیں-
اور اس میں آپ، حالیہ مذہبی انتہا پسندی کے ماحول اور عوام کی جانب سے حب الوطنی کی بحث کو بھی شامل کر لیں تو آپ کے سامنے ایسی صورتحال آتی ہے جس میں بدگوئی اور گھٹیا پن سے نفرت ایک فطری ردعمل بنتا ہے- تاہم، سیاست کے گندے دھندوں سے نفرت کا معاملہ چند آسان قدموں سے کہیں زیادہ خطرناک اور تباہ کن نسخہ بن جاتا ہے جس میں اس بات کا پرچار کیا جاتا ہے کہ عورتوں کو اپنی فطری نزاکت کی وجہ اس سے "محفوظ" رکھنا چاہئے-
اس نسخے کا زہر بس اتنا ہی ہے کہ یہ اس حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے کہ عورتیں عوامی جگہوں اور معاملات میں پہلے ہی سے موجود ہیں، ٹیچروں کی شکل میں، ڈاکٹرز، مزدور، پروفیسرز، طالبات، صحافی اور نہ جانے کتنی اور شکلوں میں- سیاسی نمائندگی کا فقدان اور اس بات پر اصرار کہ صرف مرد ہی آبادی کے نصف حصے کے خدشات کی نمائندگی کر سکتے ہیں اس حقیقت سے اپنے آپ میں انکار ہے جو کہ نہ صرف پہلے سے موجود ہے بلکہ آدھی آبادی کو سیاسی طور پر چھپائے رکھنے کے مترادف ہے-
یہ کہتا ہے کہ پاکستان میں ہر لڑکی کی ترجیح، کھانا پکانا، کام کاج کرنا اور مردوں کو ووٹ دینا ہونا چاہئے-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔