نقطہ نظر

غیر ضروری بدحواسی

آئی ایس آئِی ایر مارشل ذوالفقار علی خان کمیشن رپورٹ کی سفارشات کو قبول کرلیتی تو ان تنقیدوں سے بچ سکتی تھی۔

چاروں طرف ہمارے ملک کے ٹیلی ویژن کی مقبول ترین شخصیت پر قاتلانہ حملے کے بعد چوبیس گھنٹوں مسلسل پل پل کی خبروں کو سنتے نہ رہنا مشکل تھا، گرچہ اکثر اوقات اس اہم واقعہ کی اصل خبر کو پس پشت ڈال کر غیر ضروری باتوں کو توجہ کا مرکز بنایا جارہا تھا-

میڈیا کی دیوانگی جو صحافیوں کی برادری کو(بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ان کے مالکوں کو) ناگوار نہیں گزرتی ہمیں راغب کرنے پر اس قدر تلی ہوئی تھی کہ اس میں دلچسپی نہ لینا مشکل تھا، لیکن میرا خیال ہے کہ اگر ہم غور کریں تو چند دلچسپ حقائق سامنے آسکتے ہیں-

عام حالات میں جیو کی پرائم ٹائم شخصیت حامد میر کی حمایت میں ایک طرف جذبات کے اظہار کا تانتا بن جانا چاہیئے تھا تو دوسری طرف قاتلوں کی کھلی کھلی صاف صاف مذمت- ایسا ہوا تو- لیکن اس کے ساتھ ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا جس نے اس سانحہ کے دیگر تمام پہلووں کو پس پشت ڈال دیا- کیوں؟

میری رائے میں تمام قومی اداروں کے تعلق سے قانون کی بالادستی، فرائض اور ضابطہ اخلاق کی غیر موجودگی کے نتیجے میں جو بحران پیدا ہوا ہے وہ اس خلا کو پر کرنے کے لئے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے-

اگر آئی ایس آئِی یک طرفہ طور پر ایر مارشل ذوالفقار علی خان کمیشن کی رپورٹ میں پیش کی جانیوالی سفارشات کو قبول کرلیتی تو وہ بڑی حد تک ان تنقیدوں سے بچ سکتی تھی جسکا آج اسے سامنا ہے-

مجھے اس امر میں قطعاً شبہ نہیں اور میں ایسی بہت سی مثالیں دے سکتا ہوں جب اس نے اپنے سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف تیسرے درجہ کے طریقے اپنائے اور صحافی بھی اس کا نشانہ بنے- اسے قومی سلامتی کے تحفظ کا فریضہ سونپا گیا ہے اور عام خیال یہ ہے کہ اس نےاپنے فرائض اچھی طرح سے سرانجام دیئے ہیں لیکن اب بلا چیلنج وہ یہ سمجھتی ہے کہ اس نےحب الوطنی کے واحد ثالث کا درجہ حاصل کرلیا ہے بلکہ "قومی- تعمیر" کرنے کی کوشش بھی کی ہے- بلوچستان کے معاملے میں اس کا خاصاعمل دخل ہے جہاں اس کی مبینہ زیادتیاں اور اسکے مدد گار سیویلین مذہبی گروہوں کا وجود محض خیالی نہیں ہے-

ایجنسی کا ضمیر اس بات پر بھی خلش محسوس نہیں کرتا کہ وہ سیویلین منتخب قیادت کی اہلیت، دیانت بلکہ اسکی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگاتی ہے اور اس مقصد کے لئے مبینہ طور پر میڈیا کے انھیں حامیوں کو استعمال کرتی ہے جو آج اس کے غیض وغضب کا نشانہ بن رہے ہیں- لیکن جب اس پر کسی بھی قسم کی تنقید کیجاتی ہے تو اس کا الزام غیر ملکی آقاؤں، ایجنٹوں، مالی مفاد اور قسم قسم کے گھناونے محرکات پر رکھ دیا جاتا ہے- دنیا بھر میں تمام انٹیلیجنس ایجنسیاں ڈھکے چھپے کام کرتی ہیں اور آئی ایس آئِی ان سے مختلف نہیں ہے- لیکن اگر دہشت گردی کا خطرہ ہے تب بھی اس کا کوئی جواز نہیں کہ وہ خود کو قانون سمجھ بیٹھے-

جنگ گروپ ہمیشہ سے ہی ہمارے ملک کا با اثر میڈیا ہاؤس رہا ہے- جیو کا قیام ایک کاروباری جینیئس کا کارنامہ تھا- یہ سب سے بڑا میڈیا ہاوس بن گیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سب سے بہترین بھی ہے بلکہ اسے فائدہ اس بات سے ہوا کہ اس نے اس میدان میں سب سے پہلے قدم رکھا- جنگ گروپ کے خبریں جمع کرنے کے وسیع نٹ ورک نے اور ہفتہ کے ساتوں دن اسکی چوبیس گھنٹوں کی نشریات نے اسے ایک غیر معمولی مقام پر فائز کردیا-

اس مقام کے ساتھ ساتھ اسکی آمدنی میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا-'ٹاک شو' کی ابتداء بھی سب سے پہلے اسی گروپ نے کی اور 'ایمان' سے لیکر 'انعام' کے شوز کے کامیاب تجربے کیے یعنی مذہبی معاملات سے لیکراس پرمختلف کمپنیوں کی جانب سے دیئے جانے والے انعامات و اکرامات تک- ظاہر ہے کہ اس کامیابی کے ساتھ ساتھ اس کے قد و کاٹھ میں بھی اضافہ ہوا، اب اس کی خواہشات کا دائرہ کسی مبصر کی حیثیت سے رپورٹنگ اور تبصرہ تک محدود نہیں رہا جو کہ میڈیا کا کام ہے بلکہ وہ مرڈوک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میدان عمل میں اتر آیا-

اپنے مزاج کے اعتبار سے جنگ گروپ قدامت پسندی کو اسی طرح فروغ دیتا ہے جسطرح کہ وہ ایجنسی جس کے ساتھ آجکل اس کا جھگڑا چل رہا ہے، لیکن ایجنسی کے برعکس اگر منافع کا امکان ہو تو پھر وہ کسی ترقی پسندانہ کاز کو آگے بڑھانے میں ہچکچاتا نہیں- لیکن قارئین کی غیر معمولی تعداد اسکے تکبر میں بھی اضافہ کا باعث بنی- اور اس میں وہ اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ وہ یہ فیصلہ بھی دینے لگا کہ پاکستان پر کس کی حکومت ہونا چاہیئے اور کس کی نہیں، بلکہ حب ا لوطنی یا اس کے خلاف بھی بلا تکلف سرٹیفکٹ بانٹنے لگا-

ریٹنگ اور آمدنیوں کے میدان میں رقابت اس حد تک شدید ہوگئی ہے کہ ایک طرح کی گراوٹ دکھائی دے رہی ہے، اور ڈر اس بات کا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کے بعض حصے کسی بدبودار نالی میں غرق نہ ہوجائیں- حالیہ ترین واقعات کے پس منظر میں اگر مجھے ایک طرف جیو کو دیکھ کر غصہ آرہا تھا اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ اسکے ایڈیٹوریل اسٹاف میں اتنی اہلیت نہ تھی کہ وہ اس انارکی کو کنٹرول کرتا جو ناظرین کی نظروں کے سامنے ہورہی تھی تو دوسری طرف بعض چینلوں نے جس طرح صحافتی اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا تھا، انھیں دیکھ کر مجھے الٹی آرہی تھی-

اس اخبار نے اپنے ایک ادارے میں ان حرکتوں کو آدم خوری سے تعبیر کیا ہے- تو اب ہم کس طرف جارہے ہیں؟

میرا اٹل یقین ہے کہ بے لگام اظہار آزادی کی اجازت نہیں دی جاسکتی خواہ یہ گناہ کسی بھی ادارے سے سرزد ہوا ہو- مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے بہت سے جنھیں جیو کی صحافت کے تعلق سے تحفظات ہیں، بلکہ ہم نے ان سے اس موضوع پر تبادلہ خیال بھی کیا ہے، ہر اس پابندی کی مزاحمت کرینگے جنھیں لگانے کے لئے جی ایچ کیو پوری طاقت صرف کررہا ہے-

آزاد میڈیا اور قومی سلامتی کے اداروں، دونوں ہی کو چاہیئے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں اور ان دونوں ہی کو نہ تو استعمال ہونا چاہیئے اور نہ ہی یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ رائے عامہ کو کچلنے کی کوشش کریں؛ دونوں ہی نے اپنے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا ہے، بلکہ ایک دوسرے سے متصادم بھی ہوئے ہیں، یہاں تک کہ عدلیہ کے بعض اراکین سے ملکر جنھوں نے اپنے حدود سے تجاوز کیا تھا، ماضی میں منتخب حکومتوں کو کمزور کرنے کی کوشش بھی کی-

آج پاکستان کے وجود کو دہشت گردوں سے خطرہ ہے جنھوں نے معاشرے کو اپنے محاصرے میں لے رکھا ہے- میرا اٹل یقین ہے کہ ہماری مسلح افواج اور خاص طور پر اسکی سیکیورٹی سروسز ہی وہ ادارے ہیں جو اس جن کو واپس بوتل میں بند کرسکتے ہیں- ہمیں چاہیئے کہ ہم یک آواز ہو کر انکی حمایت اور حوصلہ افزائی کریں-

اسی طرح میڈیا کی آزادی پر پابندیاں، مختلف ریاستی اداروں کے درمیان جھگڑے اور بے سونچی سمجھی ایڈیٹوریل پالیسیاں دہشتگردی کے عیار بیوپاریوں کو خوشی سے اچھلنے کے مواقع فراہم کرینگی کیونکہ اس کے نتیجے میں ہماری توجہ ان فرائض سے ہٹ جائیگی جو فوری اہمیت کے حامل ہیں-

شمالی وزیرستان کی چوکیوں پر متعین ہمارے بہادر سپاہی جن میں سے ہزاروں نے ہمارے لئے اپنی جانیں قربان کردیں اور ہزاروں شہری جو دہشتگردی کی ان مہموں میں اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ہماری توجہ اپنے فرائض کی جانب مرکوز رہے گی-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ : سیدہ صالحہ

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔