فرقہ واریت کا عفریت
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک حالیہ رپورٹ میں ایک بات پھر اس بات کی نشاندہی کی ہے جو ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں یعنی یہ کہ پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد ناقبل قبول حد تک بڑھ گیا ہے- ایچ آر سی پی، 2013 میں دو سو سے زائد فرقہ ورانہ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 687 بتاتی ہے جو کہ 2012 کے مقابلے میں بائیس فیصد زیادہ ہے-
ہر حملے کے بعد، چاہے وہ کسی بھری پھری سڑک پر ٹارگٹ کلنگ ہو، کسی دوردراز کی تحصیل میں ہجوم کا تشدد، ہزارہ برادری کے قتل عام ہوں یا گرجا گھروں کی تباہی، ہم یہی سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم نے بدترن دیکھ لیا اور اس بربریت سے زیادہ بھیانک کیا ہو سکتا اور اس کے بعد کچھ نہ کچھ پھر ہو جاتا ہے اور شاید پہلے سے زیادہ تباہ کن-
پھر یہ چیز بھی مدد نہیں کرتی کہ مذہبی تقسیم بھی لامتناعی ہے، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، ہندو، عیسائی، احمدی، اسماعیلی- سوشل میڈیا پر ہر کسی کو مارٹن نمولر کی یہ لائن لکھنا پسند ہے کہ "اور پھر وہ میری طرف آئے" تاہم لگتا یہی ہے کہ دہشت اور خوف کا ہمیں صحیح معنوں میں اندازہ نہیں ہوا- اپنے علاقوں میں پاکستانیوں کو گولی مارے جانے، نماز کے دوران قتل کئے جانے، توہین مذہب یا رسالت کے جھوٹے الزامات میں پھنسانے اور ان کی قبروں سے گھسیٹے جانے کے واقعات سے ملک کا سماجی تانا بانا ادھیڑا جا رہا ہے-
وزارت داخلہ نے پچھلے ہفتے سینیٹ کو بتایا کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران 2,090 افراد فرقہ ورانہ واقعات میں ہلاک ہوئے ہیں- جواب میں سینیٹرز نے تعداد کے بارے میں اعتراض اٹھانے کے علاوہ یہ سوال بھی کئے کہ فرقہ ورانہ واقعات میں ملوث کتنے ملزمان کو سزائیں ہوئیں- چند سوالوں کے جواب دئے گئے چند کو نظرانداز کر دیا گیا -- حکام نے کچھ ایسی ڈرامے بازی کی کہ جیسے حکومت نے فرقہ واریت کا نوٹس لے رہی ہے-
لیکن واضح ہو - فرقہ واریت کے بارے میں کچھ نامیاتی یا ناگزیر نہیں- پاکستان میں بڑھتی فرقہ ورانہ کشیدگی خاصی حد تک سوچی سمجھی ریاستی پالیسیوں اور جان بوجھ کر نظرانداز کئے جانے کا نتیجہ ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے روکنا ممکن ہے- اور یہ فرقہ ورانہ یا نسل پرستانہ نفرت کی وجہ سے ہر مرنے والے کی ہلاکت کو مزید بلا جواز اور وحشیانہ بنا دیتا ہے-
وہ سیکورٹی پالیسیاں جو ایسے "اسٹریٹجک ایسٹس" کو پالتی پوستی رہیں جو فرقہ ورانہ تشدد میں ملوث رہے، ان کی تاریخ جانی مانی ہے- یہ حقیقت کہ فرقہ ورانہ جنگجو گروپ پنجاب میں پھلتے پھولتے رہے (اور انتخابات بھی جیتے رہے) - جو کہ حکمران پی ایم ایل (این) کا گڑھ ہے - یہ بھی سب کے علم میں ہے- اور یہ بات بھی کہ حکومت نے پچھلے انتخابات جیتنے کیلئے ان کالعدم فرقہ ورانہ گروپوں پر انحصار کیا-
اخبارات کی شہ سرخیوں میں جگہ بنانے کیلئے سعودی عرب کی جانب سے ملنے والی نقد رقم کے حصول کے بعد، اب یہی حکومت ان کے سامنے جھکے جا رہی ہے- کوئی بات نہیں کہ مذکورہ کنگڈم اصلی دنیا پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لئے ایک بڑی جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے - وہ جنگ جو کہ قطعی طور پر فرقے کی بنیاد پر لڑی جانی ہے- ایئر یہ بات تو الکل ہی بھول جائیں کہ اس نے ہمیشہ ہمارے ملک میں مدرسوں کی فنڈنگ کی ہے جن میں سے بیشتر گمراہ کن نظریات کے پھیلاؤ کا سب ہیں-
سینیٹ کو پچھلے ہفتے یہ بھی بتایا گیا کہ پچھلے سال صرف پندرہ مدرسوں کو جن میں سے گیارہ کے پاس وزارت داخلہ کا این او سی نہیں تھا، سعودی عرب سمیت مسلم ملکوں سے 258 ملین روپے ملے- مسلسل حکومتی پالیسیوں میں مدرسوں کی اصلاحات کے بارے میں بات کی گئی لیکن اس کے باوجود، ایسے مدرسے پاکستان میں مسلسل پھیل رہے ہیں اور بہت سے عدم رواداری پھیلا رہے ہیں-بڑھتے فرقہ ورانہ تشدد کا معاملہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات میں بھی دکھائی نہیں دیتا- پاکستانی طالبان مذہبی اقلیتوں کو تنگ کرتے رہے ہیں اور لشکر جھنگوی سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ شیعہ کمیونٹی کے خلاف تشدد کا سب سے بڑا مجرم ہے اور شاید پاکستان میں سب سے ہلاکت خیز فرقہ ورانہ جنگجو طاقت بھی-
امن مذاکرات کے آغاز کے بعد جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں اس گروپ نے کیلاش کے قبیلوں اور اسماعیلیوں کو بھی دھمکی دی تھی- گو کہ ان دھمکیوں سے چند حکومتی حلقے بے آرام بھی ہوئے پھر بھی نفرت بونے والے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری ہے-
بارہا رپورٹ کیا جا رہا ہے بگڑتی ہوئی صورت حال کے باوجود، فرقہ وارانہ عسکریت پسند گروپوں کو اب بھی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اسٹریٹجک اثاثوں کے طور پر دیکھا جانا جاری ہے- ان گروپوں کو مبینہ طور پر بلوچستان میں فری ہینڈ دے دیا گیا ہے، جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جسے کہ غیر قانونی حراست، آزادی اظہار پر قدغن، ٹارچر اور ماورائے عدالت قتل جیسے معاملات کے ردعمل میں نیشنلسٹس اور علیحدگی پسندوں کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے-
یہ منطق بھی ہمیشہ کی طرح عجیب ہی ہے؛ نیشنلسٹ جذبات کو دبانے کے لئے مذہبی انتہا پسندی کے جذبات کو بھڑکایا جائے- بظاہر اول الذکر سے فیڈریشن کو خطرہ ہے جبکہ آخر الذکر اسے مستحکم کرتا ہے- لیکن اصل میں تو ایسا کچھ بھی نہیں-
پاکستان کی مذہبیت کے فرقہ وارانہ جہتیں، ملک کو درپیش کسی بھی دوسرے چیلنج سے زیادہ خطرناک ہیں کہ یہ اسے کھوکھلا کر رہی ہیں- اور کھوکھلا ہونے کا یہ عمل انتہائی بنیادی سطح پر ہو رہا ہے، خاندانوں کے اندر، آس پڑوس میں، کمیونٹیز میں، کالجوں میں، سیاسی تنظیموں میں، سول سوسائٹی میں، غرض ہر جگہ- قوم اور سیاست کے بڑے نظریات کے برعکس فرقہ واریت ذاتی چیز ہے اور اسی لئے گھر کے قریب اور گھروں پر اس کے اثرات آتے ہیں-
حامد میر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے اور اس کے بعد کے ساگا نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ کسی بھی مشکل کا الزام بیرونی ہاتھ پر ڈالو، اسے ہندوستانی ایجنٹ پکارو یا سی آئی اے کا پٹھو- ہمار ملک کے تمام مسائل اور ڈویژنز، کسی بھی طرح کی تنقید کو بیرونی عناصر کی کارروائی اور سازش کا نام دیا جاتا ہے-
تاہم جہاں تک فرقہ واریت کا سوال ہے تو اس پریشانی کے لئے ہمیں کسی بیرونی ہاتھ کی ضرورت نہیں- ایک سماج کی حیثیت سے آدم خور بننے میں بس تھوڑی ہی کسر رہ گئی ہے-
لکھاری ایک فری لانس صحافی ہیں-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس huma.yusuf@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔