...... بات نکلی ہے تو اب دور تلک جاۓ گی
ارض ِ پاک گزشتہ کئی سالوں سے ایک انوکھی جنگ کا شکار ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی؛ یہ زر کی جنگ ہے، نہ زمینوں کی جنگ ہے، یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے۔
اس جنگ میں ایک طرف نام نہاد اسلامی نظام کی علم بردار قوتیں اور دوسری جانب حالات کا ادراک رکھنے والے مٹھی بھر اصحاب ِ دانش برسرپیکار ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ مخالف قوتوں کو اپنی طاقت اور ہماری کمزوریوں کا خوب اندازہ ہے۔ پاکستانی عوام اس جنگ میں تماش بین کا کردار ادا کر رہی ہے اور میڈیا کا کردار جلتی پر تیل ڈالنے والوں کا ہے۔
اب تو حالت کچھ یوں ہے کہ روز شب ٹیلی ویژن پر بازی جمتی ہے اور دائیں بازو کا پلڑہ اس میدان کارزار میں اکثر بھاری رہتا ہے۔
عقلیت اور استدلال کا مقابلہ نعرے بازی اور اندھی تقلید سے ہوتا ہے۔ یہ ایسی لڑائی ہے جس میں دلیل کا جواب تلوار سے دیا جاتا ہے۔ ملک کے متعلق ایک گھسے پٹے بیانیے سے اختلاف کرنے پر 'لبرل انتہا پسند' کا لیبل چسپاں کیا جاتا ہے۔
بہرحال، اس بات کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ پچھلے دس سال میں چالیس ہزار افراد میں سے کتنوں کی موت ’لبرل انتہا پسندوں‘ کے ہاتھوں ہوئی؟
گزشتہ ایک مہینے میں میڈیا کی دو معروف شخصیتوں پر قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ قیاس ہے کہ اب اختلافی آوازوں کو برداشت کرنے کی سکت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
رضا احمد رومی ہمارے مربی و مشفق ہونے کے باوجود ایک معقول آدمی ہیں۔ کئی برس اخبارات میں اپنی رائے کے اظہار کے بعد انہوں نے ٹی وی کا رخ کیا اور وہاں ہمیشہ بحث میں دونوں فریقین کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا۔
ہمارے ان سے کئی موضوعات پر اختلاف رہے (اور اب بھی ہیں) لیکن میڈیا پر معقول افراد کی شائد اب کوئی جگہ باقی نہیں۔ جب تک آپ پاکستان کی 'مقدّس گائوں' کی ٹاؤٹی کرتے رہیں، جب تک آپ ان کے لے پالک جہادی اور فرقہ وارانہ عناصر کے متعلق خاموش رہیں، جب تک آپ بلوچستان پر پردہ ڈالے رکھیں، طالبان کی مٹھی چاپی کرتے رہیں، تب تک آپ کی جان محفوظ ہے۔ اس لکیر کو پار کرنا گویا اپنی جان خطرے میں ڈالنا ہے۔
سلمان تاثیر، شہباز بھٹی، جاوید غامدی، ڈاکٹر خالد ظہیر، سلیم شہزاد کو کس بات کی سزا ملی؟
اس دیس میں سچ بولنا بھی اب غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ یہاں سنگ وخشت مقید ہیں اور سگ آزاد۔ زید حامد، انصار عباسی، معید پیر زادہ، برقعہ والی سرکار (مولوی عبدالعزیز)، احمد لدھیانوی، یوسف شاہ، شاہد اللہ شاہد اور درجنوں ریٹائرڈ فوجی دن رات ایک ہی مالا جپ رہے ہیں اور رضا رومی جیسے لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی خناّس …. معاف کیجیے گا .... 'حساس اداروں' کے چیلے اپنا بیشتر وقت سیاست دانوں او ر میڈیا والوں کو غداری کی فرد جرم سنانے میں صرف کرتے ہیں۔ ان خدائی فوجداروں کو فوج یا اس کے ملحقہ اداروں پر سرسری سی تنقید بھی گوارا نہیں۔
مبینہ ذرائع کے مطابق ’حساس ترین‘ ادارے میں ایک خصوصی ونگ موجود ہے جو مسلسل سوشل میڈیا پر نظر رکھتا ہے۔ ان ہی پیران سائبر ورلڈ کے چند کارناموں میں سے ایک تصویر مختلف ناموں سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں اورنگزیب عالمگیر یا ایک انگریز جنرل یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ؛
"فوج پر تنقید کرنا قوموں کے زوال کی نشانی ہے۔"
ایک تصویر یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ جہاں فوج کے خلاف کوئی بات دیکھیں، فلاں فلاں نمبر پر فون کر یں، فوج خود ہی ان سے ’نمٹ‘ لے گی۔
حامد میر صاحب نے لبرل سوچ رکھنے والوں پر ’لبرل فاشسٹ‘ ہونے کی پھبتی کسی تھی اور آج انکے دفاع میں یہی چار پانچ لبرلز بات کر رہے ہیں۔ حساس ترین ادارے پر الزام کیا عائد ہوا، میڈیا کی شاخ پر بیٹھے بہت سے پردہ نشین سر میں خاک ڈال کے ماتم کرنا شروع ہو گئے۔ تین گولیوں اور چھے گولیوں کی تکرار میں یہ بات قطعی فراموش کر دی گئی کہ اس وقت حامد میر انتہائی نگہ داشت کے وارڈ میں موجود تھے۔
جیو ٹی وی کے خلاف حامد میر کی ’وصیت‘ نشر کرنے کے جرم میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا چکا ہے۔ دوسرے چینل خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کر رہے بلکہ مزید کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ انصار عباسی جیسے لوگوں کو دوسروں پر انگلی اٹھانا اور فتوے بازی کرنا معیوب لگنا شروع ہو گیا ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!!
اس بہتی گنگا میں فاروق حمید خان جیسے ’نامعلوم افراد‘ نے ہاتھ دھوئے اور دی نیوز میں لکھنے سے انکار کا اعلان کر کے گویا قوم پر احسان کیا۔ جس طرح گزشتہ دنوں خواجہ آصف کی آٹھ سال پرانی ویڈیو منظر عام پر لائی گئی تھی، اسی طرح حامد میر اور جنگ گروپ کی متنازعہ حرکات کو سربازار نشر کیا گیا۔
اس دنگے فساد میں ہندوستان اور امریکہ مخالف تصاویر بھی خوب استعمال ہوئیں اور اس بات کا تو خیر سب کو علم ہے کہ ہندوستان کو ’اذلی دشمن‘ بنائے رکھنا کس کے فائدے میں ہے۔
حد یہ کہ ملالہ بیچاری کو بھی نہیں بخشا گیا اور خوامخواہ اس کے متعلق منفی جذبات پھیلائے گئے۔ کتے کی دم پر پیر آنے کا محاورہ سن رکھا تھا، اب عملی مظاہرہ بھی دیکھ لیا۔
اس کھینچا تانی میں عوام کا کردار بھی انتہائی شرم ناک ہے۔ میڈیا اور خاص طور پر جیو نے آزادیء صحافت کے نام پر جو کچھ بھی گزشتہ چند سال میں کیا، اس کا حل انکو غدار قرار دینے یا انکے ملازمین کی موت نہیں بلکہ انکا احتساب کرنے کی بات ہونی چاہئے۔
جوڈیشل کمیشن تو جانے کب فیصلہ صادر کرے لیکن رائے عامہ کی عدالت جیو اور حامد میر کے خلاف فیصلہ سنا چکی ہے۔ سوشل میڈیا اور اخبارات میں عوام کی جانب سے میڈیا کے خلاف بد ترین غیر مہذبانہ رد عمل دیکھنے کو ملا۔
سمجھ نہیں آتا کہ اس شرمناک کوتاہ اندیشی اور روح فرسا فکری پستی کو اسٹیبلشمنٹ کے 'مائنڈ کنٹرول پروگرام' کی کامیابی کہیں یا میڈیا کا اعمال نامہ یا پاکستان کے ’عام آدمی‘ کے دل میں میڈیا کے خلاف بھرے غبار کا مظاہرہ سمجھیں۔
چند صحافی حضرات میڈیا کے متحد ہونے کی صدا بلند کر رہے ہیں لیکن صاحب، نقار خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے؟
پاکستان میں میڈیا کی تاریخ ملاحضہ کریں تو انگریز ی محاورے کے مطابق یہاں ہر کسی کی الماری میں ڈھانچے موجود ہیں۔ ملک کے قیام کے چند برس بعد ہی سول اینڈ ملٹری گیزٹ نامی اخبار کے خلاف دیگر اداروں نے محاذ بنا لیا اور اس قدیم اخبار کو بند کروا کر ہی دم لیا۔
پاکستان ٹائمز اور امروز پر ایوب دور میں قبضہ ہوا تو بھلا کتنے اخبارات نے یک جہتی کا اظہار کیا؟
ذاتی مفاد کو پیشہ وارانہ اخلاق سے بالا تر رکھنے کی یہ داستاں بہت قدیم اور افسوس ناک ہے۔ افغانستان جیسے ملک میں صحافیوں نے ایکا کیا تو طالبان کو باقاعدہ معافی مانگنی پڑی۔ اب تو لگتا ہے ہم افغانستان سے بھی گئے گزرے ہو چکے ہیں۔
لکھاری: عبدالمجید عابد