نقطہ نظر

خوف کا راج

پورے ملک پر ایک گہرے خوف کا ماحول طاری ہے جس کی وجہ سے لوگوں کیلئے اپنے حقوق کی حفاظت بھی مشکل ہوگئی ہے

پورے ملک پر ایک گہرے خوف کا ماحول طاری ہے جس کی وجہ سے لوگوں کیلئے اپنے حقوق کی حفاظت بھی مشکل ہوگئی ہے، خصوصاً ایسے لوگ جو پہلے سے ہی زیادہ غیر محفوظ ہیں ان کیلئے عام انسان کی طرح زندگی گذارنا بھی مشکل ہو گیا ہے-

پاکستان میں انسانی حقوق کی حفاظت کے ذمہ دار لوگوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس صورت حال کی وجہ سے ایسے لوگوں کا دفاع تقریبا ناممکن ہوگیا ہے جن پر توہین رسالت یا مذہب سے متعلق کسی قسم کا الزام ہو-

ایسے وکیل جو ان مقدموں میں پیش ہوں ان کی تلاش میں مشکلات کی رپورٹیں کئی سالوں سے گردش کررہی ہیں، بلکہ کئی وکیلوں کی تنظیموں کی قراردادیں کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں جو توہین رسالت کے کسی ملزم کی طرف سے وکالت کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتی ہیں-

عدالتیں اکثروبیشتر ایسے حالات کا شکار ہوتی ہیں جس میں ایک بڑا ہجوم بغیر مقدمہ چلائے ملزم کی موت کا مطالبہ کرنے کیلئے عدالت پر چڑھائی کردیتا ہے اس طرح کا ایک حالیہ واقعہ ملتان میں پیش آیا ہے جہاں ایک ملزم کو اس کے دفاع کے حق سے محروم رکھنے کی کوشش کی گئی جوگستاخی کے مقدموں کی تاریخ میں اپنی قسم کا ایک ہی واقعہ ہے-

سپریم کورٹ کے ایک وکیل صاحب جو اپنے موکل کا مقدمہ لڑرہے تھے کہ اس پر سے ان الزامات کو ختم کردیا جائے جس پر گستاخی کا الزام تھا جب کہ ان کے ساتھی نے ان سے کہا کہ وہ خاموش ہو جائیں ورنہ دوسری پیشی سے پہلے ہی ان کو قتل کردیا جائیگا-

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس کیس کی سماعت مرکزی جیل کی چار دیواری کے اندر کی جارہی تھی جس کا مقصد ججوں، وکیلوں اور گواہوں کو ہجوم کے غیض وغضب، تشدد اور دباؤ سے بچانا تھا- لیکن بظاہر جیل کے اندر مقدموں کی سماعت بھی شرپسندوں کو انصاف کے راستہ میں دخل اندازی سے باز رکھنے میں ناکام تھی-

اس کے علاوہ بھی کئی ایسے عناصر ہیں جو قانون سے متصادم ہیں لیکن لوگوں کی قسمت پر اثرانداز ہوتے ہیں- لگتا ہے کہ پولیس، مدعی، میڈیا اور پیشہ ور شکایتیں کرنے والے لوگوں نے ملی بھگت کر کے خوف کے ایک ماحول کو جنم دیا ہے- تعزیرات پاکستان کی مذہبی جرائم سے متعلق کئی ذیلی شقوں میں سے صرف ایک شق (سی -295) ہے جس کا تعلق توہین رسالت سے ہے- لیکن وہ سارے لوگ جن کے خلاف کسی بھی ذیلی شق کے تحت مقدمہ کا اندراج ہو ان سب کو توہین رسالت کا ملزم سمجھا جاتا ہے- توہین رسالت کے کیسوں میں اس قسم کا فساد انگیز پھیلاؤ ملک کی اکثریتی آبادی کے عقیدے کے خلاف ایک سازش کے طور پر لیا جا سکتا ہے نتیجتاً پولیس اور ذیلی عدالتوں کیلئے بلاوجہ خوف وہراس اور تناؤ کا باعث ہوسکتا ہے-

اس طرح کی رپورٹیں موجود ہیں کہ جس شخص پر یہ الزام لگتا ہے پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسے سزا ضرور ملے- اس کی ضمانت کی درخواستوں کی شدت سے مخالفت کی جاتی ہے اور یہاں تک رپورٹس ہیں کہ وکلاء جو مجبوراً ان کے مقدمات لیتے ہیں وہ اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی سے نہیں نبھاتے ہیں- ایک حالیہ کیس میں استغاثہ نے توہین رسالت کا ایک ایسا اقرارنامہ تیار کیا جو کوئی بھی صحیح الدماغ شخص اپنے ہوش و حواس میں قبول نہیں کرسکتا، اس کے متن کے بارے میں ملزم کو کچھ بھی نہیں بتایا گیا-

دوسروں کے مقابلے میں، گرچہ مسلمانوں پر مذہب کے حوالے سے زیادہ الزامات ہیں جن میں توہین رسالت کے الزامات بھی شامل ہیں، لیکن ایک قوم کے طور پر اسے یہ ڈر نہیں ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کی طرح کسی گڈھے میں جا گرے گا- ہندو اور عیسائی جو پچھلے مہینوں میں ترک وطن کرکے گئے ہیں---- ان کی تعداد دونوں طبقوں میں ہزاروں میں ہے---- ترک وطن کی سب سے بڑی وجہ ان کے دلوں میں توہین رسالت کے مقدمے کا خوف تھا-

یہ خیال، کہ مذہب کے حوالے سے الزام پر کسی شخص کو، خصوصاً توہین رسالت کے الزام پر، انصاف نہیں مل سکتا، کسی طور بھی ذہنوں میں نہیں آنے دینا چاہئے ورنہ اسلام آباد امریکہ کے مذہبی آزادی کا عالمی کمیشن (Commission on International Religious Freedom) کے تحقیقاتی نتائج کو ثابت کرنے مدد گار ہوگا کہ " حکومت پاکستان مذہبی آزادی اور عقیدے کے خلاف ہونے والی منظم اور سنگین خلاف ورزیوں کو تسلسل کے ساتھ نہ صرف برداشت کرتی ہے بلکہ اس میں ملوث بھی ہے"

مسلم اکثریت میں جو ناامیدی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہورہا ہے اس کے بارے میں مختلف آراء ہیں جن کی مختلف توجیہات ہیں مگر اس کی تفصیل بھی خاصی دل خراش ہے- کراچی میں ٹارگیٹ کرکے لوگوں کو قتل کرنے کے واقعات میں کسی قسم کی کمی نظر نہیں آتی - ایک دن ایک ڈاکٹر کا قتل ہوجاتا ہے اور دوسرے دن کسی وکیل کو ماردیا جاتا ہے- اسلام آباد مارکیٹ دھماکے میں کئی آدمی ختم ہو جاتے ہیں- اچانک موت کا بلاوا کوئٹہ اور پشاور میں ایک الگ ہی معنی رکھتا ہے- اور یہ خیال کہ لاہور میں زندگی محفوظ ہے ایک خیال خام ہے- پورے ملک میں شاید ہی کوئی جگہ ایسی ہے جہاں موت کے خوف نے لوگوں کا سکون اور چین نہ چھینا ہو-

پورے ملک کی آبادی کی جان سولی پر لٹکی ہے اس لئے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کا نتیجہ وہی نکلے گا جو لوگ چاہتے ہیں- ان کو ڈر ہے کہ دہشت گرد امن کو قبول کرنے سے انکار کردیں گے، اور وہ ڈرتے ہیں کہ جو بچی کچی آزادی ان لوگوں کے پاس رہ گئی ہے جو پہلے ہی غیر محفوظ ہیں کہیں اس کے بدلے میں حکومت اپنے لئے مہلت نہ حاصل کر لے- حکومت کے بعض اقدام ویسے ہی شفاف نہیں ہوتے اورعام آدمی کی سمجھ سے باہر ہوتے ہیں- پریشانیوں کے لمحات دن بہ دن بڑھتے ہی جاتے ہیں-

گویا کہ خودکش بمبار یا پردے میں چھپے ہوئے دشمن کا ڈر کافی نہیں ہے، دو نئے انکشافات نے عوام کی پریشانیوں کو ایک دم بڑھادیا ہے- پہلی بات تو یہ ہے کہ رپورٹ کے مطابق صوبائی اور مقامی ارباب اختیار کا منصوبہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ علاقوں سے کہہ دیں کہ اپنے تحفظ کا انتظام وہ خود کریں- دوسری بات یہ کہ حکومت کا اصرار، کہ وہ (Protection of Pakistan Ordinance) جیسا قانون نافذ کرنا چاہتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے عوام کو بھیڑیوں کے حوالے کردینے کا قصد کر لیا ہے- ایک ایسی حکومت جو ایسا قانون بنانا چاہتی ہے جو انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہو اس سے کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی اور یہ ڈر ہر شہری کے دل کو جیسے گھن کی طرح کھائے جا رہا ہو-

کوئی بھی شخص اگر یہ سمجھتا ہے کہ ہردم خوف کا ایک مسلسل ماحول عام انسان کی نارمل زندگی کو اور اس کی ذہنی صلاحیتوں کو متاثر نہیں کرتا ہے تو یہ بھی اسی بات کا ثبوت ہے کہ وہ خود اس کا شکار ہوچکا ہے- ایک پرانی کہاوت ہے کہ اپنے خاتمے کا خوف خود موت کے خوف سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے، اور جو عوام کی قسمت کے ذمہ دار ہیں ان کا سب سے پہلا فرض یہ بنتا ہے کہ لوگوں کے دلوں سے اس خوف کو نکالیں- اس کیلئے سب سے ضروری پہلا قدم یہ ہوگا کہ لوگوں کے مفاد میں بہتر حکمرانی مہیا کرنے کی نیت کا مظاہرہ کیا جائے-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ ۔ علی مظفر جعفری۔

آئی اے رحمٰن

لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔