عورت، خدا اور طالبان
"اپنے چہرے کا ایک گلدستہ، صبح کی نرم ہواؤں کے ساتھ بھیج دو"- یہ الفاظ مشہور فارسی شاعر حافظ (1320-1389) کے ہیں جنہیں اکیس سال کی عمر میں ایک جھروکے سے ایک نہایت خوبصورت لڑکی کی جھلک نظر آئی تھی اور وہ بری طرح اس کے عشق میں مبتلا ہو گئے تھے- اسی عشق نے انہیں بلآخر خدا تک پہنچایا-
ادھیڑ عمر کے سفید ہوتے بالوں والے شخص نے اپنے سامعین کو دیکھا، وقفہ لیا اور مسکرایا- اسلام آباد میں اس کے گھر پر ہر ہفتے جوان مرد اور عورتیں جمع ہو کر اس شخص کو سنتے ہیں- اور جو وہ سنتے ہیں وہ انہیں اچھا لگتا اور اس حلقے میں وہ جو کچھ سیکھتے اسے دوسروں میں منتقل کرتے رہتے ہیں-
کبھی کبھار وہ اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لے آتے- تاہم نوواردوں کو صرف سیشن کے آغاز تک ہی شریک رکھا جاتا- بعد میں انہوں نے وضاحت کی، "ہم اسے مختصر لیکن پراثر رکھنا چاہتے ہیں- ہم ہجوم اکھٹا کرنا نہیں چاہتے"-
بعد میں ان سیشنز میں سے ایک میں شرکت کرتے ہوئے مجھے بھی احساس ہوا کہ استاد اور شاگرد دونوں ہی اپنے اسباق کو پرائیویٹ رکھنا چاہتے تھے-
بعد میں ایک طالب نے مجھے سمجھایا کہ "ارد گرد موجود پاگل پن کو دیکھتے ہوئے محتاط ہونا پڑتا ہے- ہم نہیں چاہتے کہ کوئی خودکش بمبار دروازے پر دستک دے"-
"حافظ نہ تو پہلے شخص تھے --- اور نہ ہی آخری جنہیں ایک عورت خدا تک لے گئی"- استاد نے کہا اور مجھے اس طالب علم کی بات سے اتفاق کرنا پڑا جس نے کہا تھا کہ وہ غیر ضروری توجہ اپنی جانب نہیں کروانا چاہتے- ذرا تصور تو کریں کہ آپ طالبان کے عام سپاہی کو بتا رہے ہیں کہ ایک عورت آپ کو خدا تک لے جا سکتی ہے-
خدا تک کا کٹھن سفر
آج کا موضوع رواداری تھا اور استاد اپنے شاگردوں کو بتا رہے تھے کہ مسلمانوں میں عدم برداشت جتنی اس وقت ہے اتنی کبھی بھی نہیں رہی اور اپنی بات کے حق انہوں نے تاریخ اور ادب سے مثالیں بھی دیں جن میں شاعری اور نثر دونوں شامل تھے-
پرانے وقتوں سے وہ ہندوستان پر برطانوی راج اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستانی مسلمانوں کی شاعری پر آ گئے-
انہوں نے بتایا "اپنی نظموں میں سے ایک میں، علامہ اقبال کہتے ہیں کہ جنون میں مبتلا شخص ایک فرشتے سے بہتر ہے- یہاں تک خدا بھی حوصلہ مند لوگوں کی پہنچ میں ہوتا ہے- اصل میں میں ترجمہ کرنے سے ڈرتا ہوں کہ کہیں کوئی اس سے ناراض نہ ہو جائے- بہتر ہو گا کہ آپ اصل فارسی پڑھیں اور دیکھیں کہ اقبال کتنے کھلے تھے"-
رواداری کے آج کے موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے استاد نے لوگوں کو سمجھایا کہ طالبان جیسے لوگ خدا کے بارے میں ایسے مذہبی مدرسوں میں سیکھتے ہیں جہاں دس سال کے بچوں کو بھی زبردستی صبح چار بجے جگا کر، خدا کے نام کا اس وقت تک ورد کرایا جاتا ہے جب تک ان کے دماغ شل نہیں ہو جاتے- خدا تک کا ان کا کٹھن سفر ان بے چاروں کے ذہنوں میں ایک آفاقی خوف پیوست کر دیتا ہے لیکن خدا کی محبت کے بارے میں کچھ نہیں کرتا-
خدا انہیں اس طرح دکھایا جاتا ہے جو صرف ان کے ایمان کی چار دیواری میں آنے والوں ہی سے محبت کرتا ہے- اور جو بھی اس سے باہر ہے وہ دشمن ہے-
تاہم جب حافظ خدا تک پہنچے تو انہوں نے اعلان کر دیا کہ "میں نے خدا سے اتنا کچھ سیکھ لیا ہے کہ میں خود کو نہ تو عیسائی که سکتا ہوں نہ ہی مسلمان، ہندو، بدھ یا یہودی"-
استاد نے بتایا "حافظ اور ہم میں چھ صدیوں کا فاصلہ ہے- تاہم مجھے یاد ہے کہ بچپن میں اس قسم کے گانے اور قوالیاں صوفی بزرگوں کے مزاروں پر ہی نہیں بلکہ قومی ریڈیو اور ٹی وی پر بھی دکھائی اور سنائی جاتی تھیں- میں ایک مسجد کا مسلمان نہیں اور نہ ہی میں کوئی کافر جو بتوں کی پوجا کرے- بھلّا کی جاناں میں کون؟
استاد نے سمجھایا کہ آج بھی لوگ صوفی بزرگوں کے مزاروں پر اس گانے پر جھومتے ہیں لیکن رواداری اور دوسرے مذاہب کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے اس مقبول کلچر کی جگہ ایک نئے کلچر نے لے لی ہے جو کہ تعصب اور عدم برداشت پر مبنی ہے-
ایسا کیسے ہوا؟
ایک نک چڑھا وہم
زیادہ پرانی بات نہیں، عسکریت پسند اسلام کو اسلامی دنیا میں بہت کم حمایت حاصل تھی تاہم بیسویں صدی کے اواخر میں صورتحال تبدیل ہونا شروع ہو گئی جب عسکریت پسند گروپوں کو افغانستان میں سوویت یونین سے لڑنے کے لئے مسلح کرنا شروع کیا گیا- انہوں نے سوویت یونین کو بھگا دیا اور اپنی بندوقوں کا رخ ان کی جانب کردیا جنہوں نے ان کی تربیت کی تھی اور مسلح کیا تھا اور انہوں نے اپنے عقائد کو دوسرے مسلمانوں پر بھی ٹھونسنے کی کوشش کی-
موجودہ سیاسی نظام کے ساتھ لاتعلقی اور حکمران اشرافیہ نے بھی اس میں حصہ ڈالا-
وسیع پیمانے پر پھیلی کرپشن اور مغرب سے متاثر جمہوری نظام کی سماج کے معاشرتی اور معاشی کمزوریوں کو دور کرنے میں ناکامی نے اس غلط تصور کو مزید بڑھاوا دیا- زیادہ تر مسلم ملکوں میں عوام حکمران طبقے پر بھروسہ نہیں کرتی- یہ ایک عام تصور ہے کہ ایسے لوگ پیسے بنانے میں تو اچھے ہیں لیکن انہیں نہ تو دوسروں کی مدد کرنے کی خواہش ہے اور نہ ہی اسے اس کی تربیت دی گئی ہے-
وہ دن چلے گئے جب لوگ مغرب سے تعلیم یافتہ اشرافیہ کی طرف دیکھتے تھے اور انہیں یقین ہوتا تھا کہ اپنے علم اور مہارت سے وہ دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں-
عسکریت پسندوں نے اس غلط تصور کو بڑھاوا دینے کے لئے امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کو بھی استعمال کیا جیسے یہ مغرب اور اسلام کی جنگ ہے جو کہ یہ کبھی بھی نہیں تھی-
مغرب زدہ اشرافیہ سے بیزارگی مغرب کے لئے ناپسندیدگی میں ڈھل گئی جب مسلمانوں نے دیکھا کہ مغربی حکومتیں اکثر مکمل طور پر کرپٹ اور اخلاقی طور پر دیوالیہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی حمایت کر رہی ہیں- یہی وہ موقع تھا جب عسکریت پسند داخل ہوتے ہیں اور مغرب کو ایک ایسی قوت اور برائی کے طور پر پیش کرتے ہیں جو مسلم دنیا پر ان کرپٹ مسلم حکمرانوں کی مدد سے اپنا قبضہ یا اثر رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہے-
تاہم اس کے باوجود، عمومی طور پر مغربی ٹیکنالوجی کا ایک احترام تھا جس کے بارے میں زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی مدد سے بہت سی نسلوں کی ترقی کا سفر ایک چھلانگ میں طے کیا جا سکتا ہے- لہٰذا لوگ مغربی ٹیکنالوجی تو چاہتے ہیں پر مغربی کلچر نہیں، جسے عسکریت پسندوں نے ان کے سامنے کرپٹ اور خدا کے خالی پیش کیا ہے- ویسے یہ رویہ بھی تضادات سے بھرپور ہے-
ہر کوئی مغربی ثقافت کے خلاف بات کرتا ہے لیکن پھر لوگ دیکھتے ویسٹرن موویز ہی ہیں اور سنتے ویسٹرن گانے ہیں- ابھی حال ہی تک، یہ صرف اونچے اور متوسط طبقے تک ہی محدود تھا لیکن اب تو تو نچلے طبقے کے لوگوں کو بھی امریکن فلموں اور میوزک کا چسکا لگ چکا ہے-
جیسے ہی اس کے پاس پیسے آتے ہیں، مسلمان ملا بھی اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیجنے لگتے ہیں جہاں انگریزی میں تعلیم دی جاتی ہے اور گھروں میں وہ بچوں کی انگریزی بولنے پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں- اور اگر ان کے پاس ذرا زیادہ پیسہ آ جاتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو مغرب کی یونیورسٹیز میں بھیجنے کا خواب دیکھنے لگتے ہیں- لہٰذا چاہے بغض اور حسد سے ہی سہی پر مغرب کا اس کی خوشحالی اور سائنسی کامیابیوں پر احترام کیا جاتا ہے-
تاہم، مغرب یا مغربی تعلیم سے فائدہ اٹھانے کے مواقع آبادی کے ایک چھوٹے سے حصے ہی کو حاصل ہیں- زیادہ تر لوگوں کو اس سے فائدہ نہیں ہوتا- ان کی زندگی شدید غربت میں جاری رہتی ہے- اصل میں تو، کسی تبدیلی کا اس کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا-
ذرا کسی سڑک پر کسی مرد یا عورت سے پوچھیں کہ جمہوریت کیسے آمریت سے بہتر ہے تو وہ آپ پر ہنسیں گے- زیادہ تر لوگوں کے لئے دونوں ہی کرپٹ ہیں اور دونوں کے پاس انہیں دینے کیلئے کچھ نہیں-
ان کا اسٹینڈرڈ جواب ہو گا "جمہوریت ہو یا نہیں، ہمیں تو روٹی اور کپڑے کے لئے جدوجہد ہی کرنی ہے"-
لگتا ہے اسلامی دنیا میں کچھ بھی کام نہیں کرتا- ہر نوع اور قسم کے سیاسی آئیڈیاز اور اکنامک تھیوریز ٹرائی کی جا چکی ہیں اور سب ہی ناکام ثابت ہوئی ہیں-
مسلم نیشنلسٹس نے ان ملکوں میں مغربی قومی اسٹیٹس بنانے کی کوشش کی جہاں ایک قوم نہیں بلکہ جس کی سرحدوں میں بہت سی قومیں رہتی تھیں جن کی جداگانہ اور مختلف نسلی، لسانی اور ثقافتی خصوصیات تھیں-
سوشلسٹوں نے ایسے لوگوں پر سوشلسٹ نظریہ تھوپنے کی کوشش کی جو اسلام سے اپنی عقیدت کے حوالے سے جانے جاتے تھے-
تاہم اگر سیکولر آئیڈیالوجی ناکام ہوئی ہے تو سیاسی اسلام کو بھی بھرپور کامیابی نصیب نہیں ہوئی- مسلم قدامت پسندوں نے لوگوں کے اسلام کے تعلق کی بنیاد پر اپنے ایک خالص اور انصاف پر مبنی معاشرے کا خواب رکھا- لیکن اپنی وعدہ کی گئی اچھی چیزوں میں سے کچھ بھی دینے بجائے انہوں نے اپنے پیروکاروں کو اس رستے پر ڈال دیا جہاں اسلام بقیہ دنیا کے خلاف کھڑا ہے-
لبرل مسلم حکمرانوں کی جانب سے متعارف کرائے جانے والی اصلاحات سے صورتحال میں کسی حد تک بہتری لانے میں مدد ملی لیکن صرف چند کے لئے- تعلیم سے سب کے لئے علم اور خوشحالی آنی چاہئے تھی- ایسا نہیں ہوا بلکہ زیادہ تر کے لئے تو اس کی وجہ سے صرف خواب ہی اونچے ہوئے- اور وہ بھی بنا انہیں اسے پورا کرنے کی صلاحیت اور آلات دیے بغیر-
حکمرانوں اور اشرافیہ کے لئے انگریزی (یا فرنچ) اسکولوں اور بقایا کے لئے عام اسکولوں میں بٹے ملک کے تعلیمی نظام نے بہت سے تعلیم یافتہ بیروزگار پیدا کر دیے-
زیادہ تر بیروزگار یا کم روزگار والے یہ تعلیم یافتہ نوجوان، ان اسکولوں سے آتے ہیں جو غریبوں کے لئے بنائے جاتے ہیں- ایسے اسکول ہر سال ایسے ہزاروں نوجوانوں کو سند دے کر بھیجتے رہتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ میں، جہاں اشرافیہ کا غلبہ ہے، ان کے لئے بہت تھوڑی نوکریاں ہیں-
ایسے سسٹم سے بیزار ہو کر، جس کے پاس انہیں دینے کے لے بہت تھوڑا ہے، یہ دل برداشتہ لوگ کسی حل کی تلاش میں عسکریت پسندوں کے پاس جانا شروع ہو گئے ہیں جیسے سوویت یونین کے زوال سے پہلے ان میں سے چند مارکسسٹس کے پاس جاتے تھے- انہیں تبدیلی چاہئے، کوئی بھی تبدیلی، کسی بھی قیمت پر-
شہر بڑھ رہے ہیں، آہستگی سے لیکن مسلسل- گاؤں کے مقابلے میں شہر بہت پرکشش دکھتے ہیں- یہاں اینٹوں سے بنے گھر ہیں- یہاں اسکول اور اسپتال ہیں- یہاں نلوں میں پانی آتا ہے اور چند جگہوں پر تو سیوریج کا بھی نظام ہے- شہروں میں فیکٹریاں اور دفاتر ہیں جہاں لاکھوں دیہات سے ہجرت کرنے والے نوکری کی خواہش کرتے ہیں-
مگر ان کے خواب ٹوٹ جاتے ہیں- شہر میں فراہم کی جانے والی سہولیات سے چند ہی لوگ مستفیض ہو پاتے ہیں- زیادہ تر کو کچی آبادیوں میں انتہائی خراب حالات میں رہنا پڑتا ہے- لہٰذا ان کی تلخی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے-
گو کہ شہر ان کو جدید زندگی کے فوائد پہچانے کے قابل نہیں تاہم وہ نئے آنے والوں کو میڈیا کے ذریعے جدید خیالات سے روشناس کرا دیتے ہیں- یہاں ان کے اندر، اشرافیہ کے الفاظ میں، اتھارٹی کا عدم احترام بھی پروان چڑھ جاتا ہے- وہ خاموشی سے سارا دن ہل چلانے والے فرماں بردار کسان نہیں رہتے- وہ شہر کے ایسے ناخوش باسی بن جاتے ہیں جو سسٹم سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہتے ہیں-
شہر ایسے ہزاروں لاکھوں ناخوش لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو نظام کو بدل دینا چاہتے ہیں، اگر ممکن ہو تو پرامن اور جمہوری طریقوں سے- لیکن ایسا نہیں ہوتا تو یہ لوگ دوسرے تمام دستیاب طریقے استعمال کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں- لہٰذا عسکریت پسندوں کے لئے ان میں کشش ہے-
استاد نے اپنا لیکچر ختم کیا- کلاس چلی گئی- میں استاد کے پاس گیا اور پوچھا "عسکریت پسندوں کو کب تک اس کا پتہ چلے گا؟
"کون جانے؟"، انہوں نے کہا اور مسکرا دئے-
انور اقبال، واشنگٹن میں مقیم ڈان کے کورسپونڈنٹ ہیں-
ترجمہ: شعیب بن جمیل