نقطہ نظر

خفیہ حکمتِ عملی

طالبانی قیدیوں کی خفیہ رہائی اور وزیراعظم کی تردید، حکومتی ایجنڈے پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

زیادہ توجہ تو اسی پر مرکوز ہوسکتی ہے کہ ٹی ٹی پی اور حکومت کے مذاکراتی عمل میں میز پر سے کیا ظاہر ہوتا ہے لیکن جو مذاکراتی عمل کی میز سے دور لے جایا گیا، وہ اگر زیادہ نہیں تب بھی، یکساں طور پر اہم ضرور ہے۔

ٹی ٹی پی کی طرف سے ایک ماہ طویل جنگ بندی رواں ماہ کے آغاز پر ختم ہوچکی اور اب کالعدم تنظیم تجدید کے واسطے نہایت چالاکی سے حکومت پر دباؤ بڑھارہی ہے، جنگ بندی کے تسلسل پر حکام غیر فیصلہ کُن صورتِ حال سے دوچار ہیں جبکہ ٹی ٹی پی کے سخت گیر عناصر نے جنگ بندی میں اپنی شرکت ختم کرنے کے ارادے کھلے عام ظاہر کردیے ہیں۔

نہایت چالاکی سے اس میں دو چیزیں شامل کی گئی ہیں: اول، انہوں نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ ٹی ٹی پی کو مزید رعایتیں فراہم کرے یا پھر اس کی پُرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہونے کا خطرہ مول لے۔

دوئم، اس نے عوام کو پیغام دیا کہ ٹی ٹی پی کی قیادت تو مذاکرات کے لیے پُرعزم ہے لیکن اندرونی سطح پر وہ مذاکرات نہ کرنے کے لیے سخت دباؤ میں ہے۔ مطلب یہ کہ تشدد سے دور رہنے اور اتحادی گروہوں کی جانب سے دباؤ کے باوجود مذاکرات پر آمادگی کی خاطر، عوام کو ٹی ٹی پی کا شکر گذار ہونا چاہیے۔

اس کے باوجود حکومت حیلے بہانوں میں ملوث دکھائی دیتی ہے: کم اہمیت کے حامل قیدی رہا کیے جانے کے قدم کو، وزیرِ اعظم کے دفتر نے کمتر کرنے کی کوشش جبکہ غیر معمولی اقدام کو، ٹی ٹی پی مذاکراتی عمل کا حصہ ہونے سے تردید کی۔ بظاہر لگتا ہے کہ حکومت انکار برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ، ٹی ٹی پی کے سامنے گاجر لٹکانے کی کوشش کررہی ہے۔

یہ بات یقینی ہے کہ قیدیوں کی رہائی کوئی معمول کا اقدام نہیں لیکن جب رہا کیے گئے لوگوں کی شناخت واضح ہوگی، تب ہی اس کے پیچھے پوشیدہ معنیٰ بھی سامنے آسکیں گے۔ مزید، یہ جاننا ابھی باقی ہے کہ آیا حکومت مذاکرات کی شکل میں مزید وقت لینے کی خواہاں ہے یا پھر واقعی جاری مذاکرات فیصلہ کُن مرحلہ ہے۔

صورت خواہ کوئی بھی ہو، بہرحال حکومت کو مشکل انتخاب کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ اس سے پہلے، علاوہ ازیں، باریک نقاب میں لپٹے، ٹی ٹی پی کے عیارانہ بلیک میلنگ کے حربوں کی مزاحمت کا معاملہ ہے۔

ٹی ٹی پی کو باضابطہ طور پر جنگ بندی میں توسیع کرنے یا نہ کرنے کی اجازت دینے کے بجائے، حکومت کو چاہیے کہ بذاتِ خود جنگ بندی میں توسیع کا مطالبہ کردے اور جب تک مذاکراتی عل جاری ہے، یہ بھی موثر رہے۔ اس طرح ٹی ٹی پی کی طرف سے ہر چند دن بعد جنگ بندی پر نظرثانی کی دھمکیوں سے بھی نجات مل جائے گی۔

اپنے ٹھوس موقف کو برقرار رکھنے اور مذاکراتی عمل کو غیر آئینی اور ناقابلِ قبول سمت میں دھکیلے جانے سے روکنے کے واسطے حکومت جو کچھ کرسکتی ہے، وہ اسے کرنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ خود حکومت کےاپنے ایجنڈے پر بھی نظر رکھی جائے۔ سیاست کی جانب، وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ کے علاوہ، وہاں صرف چند ہی ایسی شخصیات موجود ہیں جو حکومتی حکمتِ عملی اور طریقہ کار سے متعلق آگاہی رکھتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی نمائندگی کی بات تو سمجھ میں آسکتی ہے لیکن اس کے علاوہ، حکومت کی مذاکراتی کمیٹی میں نہ تو کسی رکنِ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی صوبائی حکومتوں کو۔ یقیناً، اس اہم مرحلے پر پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کے صرف الفاظ ہی کافی نہیں۔

انگلش میں پڑھیں

ڈان اخبار