جب میں خشونت سنگھ سے ملا
میں نے کبھی کسی سکھ سے بات نہیں کی تھی- حیرت کی بات تھی کہ کرسچین مشنری اسکول میں، جہاں میں بمبئی میں پڑھتا تھا، ایک بھی سکھ لڑکا نہیں تھا- اسکول میں ہندو، مسلمان اور عیسائی طالب علم تو تھے لیکن سکھ ایک بھی نہیں تھا- ضمناً، یہ کہ میرا بہترین دوست سوبھاس تھوراٹ تھا جو مہاراشٹرین ہندو تھا-
تقسیم کے زمانے میں میں نے یک طرفہ کہانیاں سنی تھیں کہ مشرقی پنجاب میں سکھوں نے مسلمانوں کو قتل کردیا تھا، چنانچہ میں ان سے بہت ڈرتا تھا- ان کی پگڑیوں اور ڈاڑھیوں کو دیکھ کر مجھے تو اور بھی خوف آتا تھا-
لیکن جب میں نے 1950 میں لاہور ہجرت کی، تو سنگ مرمر کی تختیوں پر، جو بنگلوں کی گیٹوں پر لگی ہوئی تھیں ہندووں اور سکھوں کے ناموں کو دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی جنھیں یہ لوگ نئی سرحد کے بننے کے بعد اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے- یہ کوٹھیاں ماڈل ٹاون کے اعلیٰ علاقے میں تھیں- پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ فسادات میں مسلمانوں کا ہاتھ بھی کچھ کم نہیں تھا-
بہت بعد میں، 1964 میں میں نے پہلی بار کسی سکھ سے بات کی جب میں بمبئی گیا تھا- وہ ایک ٹیکسی ڈرائیورتھا جو گجرانوالہ کا تھا- اس نام کو سن کر مجھے تِکّے یاد آتے ہیں اور میرے منہ میں پانی بھر آتا ہے-
میں نے اس سے ٹوٹی پھوٹی پنجابی میں بات کی جسے سن کر ٹیکسی ڈرائیور جذباتی ہوگیا- میں نے اسے بتایا کہ میرا تعلق سرحد کے اس پار سے ہے اور میں ایک بار گجرانوالہ جاچکا ہوں- اس نے بڑے جوش و خروش سے اپنے وطن کا ذکر کیا اور میرے شہر کا ذکر کرتے ہوئے بڑی سرد مہری دکھائی-
وہ اس قدر جذباتی ہورہا تھا کہ باتیں کرتے ہوئے وہ زیادہ تر پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا جہاں میں بیٹھا ہوا تھا- ٹریفک کے حادثہ میں مرنے سے مجھے ہمیشہ ڈر لگتا ہے اسی لئے جب ٹریفک سگنل پر ٹیکسی رکی تو میں فوراً اتر کر سامنے کی سیٹ پر بیٹھ گیا- جب ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے تو اس نے مجھ سے کرایہ لینے سے بھی انکار کردیا-
اس وقت تک میں تقسیم کے بارے میں خاصی ادبی کتابیں پڑھ چکا تھا اور ان میں سے ایک بہترین کتاب جس نے مجھے متاثر کیا تھا وہ خشونت سنگھ کی کتاب 'ٹرین ٹو پاکستان' تھی- اب تو بر صغیر میں بہت سے مشہور ناول نگار ہیں جو انگریزی میں لکھتے ہیں، اور اچھی بری ہر قسم کی کتابیں لکھی جارہی ہیں، لیکن 50 کی دہائی کے وسط میں صرف چار لوگ انگریزی میں لکھتے تھے --- آر کے نارائن، راجا راو، ڈاکٹر ملک راج آنند اور پروفیسر احمد علی-
خشونت، انھیں یہی نام کہلوانا پسند تھا، اس صف میں اس وقت شامل ہوئے جب دانشور کی حیثیت سے انھوں نے اپنا نام بنالیا تھا- انھوں نے 1953 میں 'ہسٹری آف سکھس' لکھی تھی جو کافی مشہور ہوئی-
ٹرین ٹو پاکستان 1956 میں شائع ہوئی اور اس کے تین سال بعد میں نے یہ کتاب پڑھی- بپسی سدھوا کا ناول آئس کینڈی مین، جو اسی موضوع پر ہے، اس کے کم از کم تیس سال بعد شائع ہوا-
میرے ایک رشتے کے بھائی جو رورکی میں سیویلین پی او ڈبلیو تھے 1972 میں ایک دن کراچی واپس ہوئے- وہ اپنے ساتھ ٹرنک بھر السٹریٹڈ ویکلی آف آنڈیا کے شمارے لائے تھے جنھیں مجھے کئی سال بعد دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا کیونکہ 1965 کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان رسالوں اور اخباروں کی آمد و رفت بند ہوگئی تھی- اب یہ وہ بے لطف رسالہ نہیں رہا تھا جو خشونت کے چارج سنبھالنے سے پہلے تھا-
1976 میں گیارہ سال بعد میں بمبئی (یعنی ہندوستان) گیا اور راجو بھارتن کو فون کیا جو فلمی موسیقی پر معلومات سے بھرپور مضامین لکھتے تھے اور اس میدان میں میرے آئیڈیل تھے- ان دنوں وہ دی ویکلی میں سینیئر اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے، لوگ عام طور پر اس رسالہ کو اسی نام سے پکارتے تھے-
فاطمہ ذکریا بھی ان کے ساتھ کام کرتی تھیں جو ڈاکٹر رفیق ذکریا کی بیوی اور فرید ذکریا کی ماں تھیں جو ان دنوں پڑھ رہے تھے- مجھے یہ سن کر بڑی مایوسی ہوئی تھی کہ قرۃ العین حیدر نے دی ویکلی سے استعفیٰ دیدیا تھا- بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ان دونوں معروف شخصیتوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے، گر چہ اردو ان دونوں کے درمیان ایک مشترکہ رشتہ تھی-
راجو نے ایک دوپہر خشونت سے میری ملاقات کا وقت لیا-
جب میں کمرے میں داخل ہوا تومجھے السلام علیکم کی ایک زوردار آواز آئی اور انھوں نے اس پوسٹر کی طرف اشارہ کیا جسے انھوں نے پاکستانی پی او ڈبلیوز کو رہائی دلانے کی اپنی مہم کے سلسلے میں ڈیزائن کیا تھا-
"وہ ان پی او ڈبلیوز کو رہائی دلانے کے معاملے میں واقعی بہت آگے چلے گئے تھے،" ہندوستان کے معروف وکیل اور کالم نگار اے جی نورانی نے کہا تھا- ان دنوں ان کے گنے چنے دوستوں میں خشونت کا نام بھی شامل تھا- میں خشونت کی خاطر اپنے خاندانی ہم نام کو الزام نہیں دونگا جنہوں نے اس کتاب میں انکی محبت کی زندگی کا بلکہ اس کے نہ ہونے کا مذاق اڑایا تھا-
میں نے ٹرین ٹو پاکستان پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن خشونت کو یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی تھی کہ دی ویکلی کے چند آخری شماروں کے بارے میں میری رائے کیا تھی-
"ایک جگہ آپ نے اس لڑکی کا ذکر کیا ہے جو"میرا لال دوپٹہ ململ کا" گانا گارہی تھی اور ناچ رہی تھی- لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا ناول 1947 کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جبکہ فلم "برسات" کا یہ گانا 1950 تک تو ریلیز نہیں ہوا تھا"- میں نے ان کی توجہ ناول کی جانب دلانی چاہی-
"اچھا تو یہ بات ہے؟ آئندہ کبھی کسی فلمی گانے کا حوالہ دینے کی نوبت آئی تو آپ سے ضرور مشورہ کرونگا" انھوں نے مسکرا کر اسے ٹالنا چاہا اور اس موضوع پر دوبارہ واپس آگئے جس سے انھیں عشق تھا- میں نے انھیں بتایا کہ مجھے وہ شمارہ پسند آیا تھا جس میں انھوں نے ہند-پاک تعلقات پر روشنی ڈالی تھی-
"میری ماں تقسیم کے زمانے کے فسادات کو بھول نہیں پائی ہیں- وہ میرے بار بار پاکستان جانے سے خوفزدہ تھیں اور کہتی تھیں مجھے مسلمان مار دینگے --- میرے وہاں بہت سے اچھے دوست ہیں اور منظور قادر میرا گہرا دوست ہے، جو کبھی تمہارا وزیر خارجہ بھی رہ چکا ہے-" انھوں نے بتایا-
خشونت نے مجھے موسیقی پر ایک مضمون لکھنے کو کہا اور میں نے ان کی یہ خواہش فوراً پوری کردی- یہ مضمون رونا لیلا پر تھا جنھیں ہندوستان میں مقبولیت مل رہی تھی- میں نے پاکستان میں رونا کے ابتدائی زمانے کے بارے میں لکھا تھا جبکہ نورجہاں کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ تھے-
میں نے خشونت کو بتایا کہ مجھے ان کا کالم "دی ایڈیٹرز پیج" پڑھنے میں لطف آتا ہے جو ہر ہفتہ شائع ہوتا ہے اور خاص طور پر میں اردو شاعری کے بارے میں ان کی معلومات سے متاثر ہوں- جب اس اشاعتی ادارہ سے ان کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تو اس کالم کا نام بدل کر، "ود میلائس ٹو ون اینڈ آل" کر دیا گیا-
مجھے یاد نہیں کہ ہماری گفتگو کا موضوع بدل کر پکوان کی طرف کیونکر ہوگیا، لیکن مجھے یاد ہے کہ انھوں نے مجھے بتایا کہ رمضان میں روزانہ افظار کے وقت فاطمہ انھیں محمد علی روڈ لیجایا کرتی تھیں جہاں افطار کی چیزیں کھانے میں انھیں بڑا لطف آتا تھا-
ماریا میرانڈا کا بنایا ہوا خشونت سنگھ کا کارٹون ان کے ہفتہ وار کالم کے ساتھ شائع ہوا کرتا تھا-
خشونت کی ایڈیٹرشپ میں دی ویکلی نے ترقی کی اعلیٰ ترین منزلیں طے کیں- وہ شمارہ جو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے دورہ ہندوستان کے بارے میں تھا اور جس کی کپتانی تیز رفتار کھلاڑی آصف اقبال کر رہے تھے، سارے ریکارڈ توڑ دیئے- چار لاکھ کاپیوں کا آرڈر دیا گیا تھا اور راجو جنھوں نے اس پر دن رات ایک کردیئے تھے اس بات پر ناخوش تھے کہ 370000 کاپیوں کے بعد اشاعت روک دینے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ یہ محسوس کیا گیا تھا کہ اس کی اشاعت ادارہ کے مالیاتی مفاد میں نہیں ہے- سرکیولیشن میں اضافے کے باوجود شمارے کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا تھا-
خشونت کی سربراہی سے پہلے دی ویکلی کی اشاعت لگ بھگ 70000 تھی جو اس لحاظ سے اچھی تعداد نہیں تھی کہ اس رسالہ کو اجارہ داری حاصل تھی- ایم جے اکبر کے 'سنڈے' اور ارون پوری کے 'انڈیا ٹو ڈے' کا تو دور دور تک پتہ نہ تھا-
میں چند منٹ بعد ہی خشونت کے آفس سے نکلنے والا تھا کہ ہندوستان کے سابق ٹیسٹ کپتان اجیت واڈیکر داخل ہوئے- دونوں بمبئی جیمخانہ کی سیاست پر باتیں کرنے لگے جہاں مجھے 1990 کی دہائی میں جانے کا موقع ملا-
اس کے بعد میری دوبارہ خشونت سے ملاقات نہیں ہوئی- سعدیہ دہلوی نے، جو ان کی قریبی دوست تھیں مجھے ان کے گھر دہلی لیجانے کا وعدہ کیاتھا جبکہ وہ سرگرم صحافت سے کنارہ کش ہوچکے تھے اور صرف کالم لکھا کرتے تھے-
ان کے کالم سنڈیکیٹ ہوچکے تھے، بڑے پیمانے پر پڑھے جاتے تھے اور ان پر تبصرے بھی ہوتے تھے- ان کی بدقسمتی کہ وہ کسولی چلے گئے جو ایک ہل اسٹیشن ہے- اپنی موت سے دو سال پہلے تک انھوں نے اپنی گرمیاں یہاں گزاریں-
آخری بار میں 2011 میں دہلی گیا- میں ان کے بھتیجے پرمندر سنگھ کا مہمان تھا جنھیں ان کے دوست پامی کہتے ہیں- وہ اور انکی بہن گیتا نے بڑی خوشدلی سے میری میزبانی کی- پامی نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے اپنے چاچا سے ملائے گا لیکن کسی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا- لیکن میری ملاقات پامی کی والدہ سے ہوئی جنھوں نے بڑی چاہت سے سرگودھا کا ذکر کیا حالانکہ ان کی یادداشت اچھی نہیں رہی تھی- ان کا لہجہ بلا شبہ مغربی پنجاب کا ہے- شائد اس وجہ سے بھی وہ مجھے بہت پیاری لگیں- وہ لگ بھگ سو سال کی ہیں اور میری دعا ہے کہ وہ سو سال پوری کریں-
میں یہ نہیں کہونگا کہ خشونت کی روح کو سکون ملے- مجھے لگتا ہے کہ انھیں کہیں بھی امن چین سے رہنے کے لئے نہیں بنایا گیا تھا --- خواہ یہ دنیا ہو یا دوسری دنیا- کم از کم ان کی روح آرام چین کے لئے نہیں بنائی گئی تھی-
ترجمہ : سیدہ صالحہ
آصف نورانی ایک سینئر صحافی ہیں جو فنون لطیفہ، ادب اور سفر نگاری کے ماہر ہیں۔ ان کی تحریروں میں مزاح کا عنصر پایا جاتا ہے۔ انہوں نے چار کتابیں لکھیں جن میں سے دو باہر کے ناشروں نے چھاپیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔