نقطہ نظر

!پھکّڑ پن کی لوٹ سیل

ٹیڈی نے جب ایڈیٹ پر تبدیل ہوا جملہ سنا تو آگ بگولہ ہو گیا, اس کے منہ سے گالیوں کا فوارا پھوٹ رہا تھا

آج جب ادب 'بے ادب'، شاعر 'بے شمار'، شاعری 'ناپید'، ناول 'کاہلوں کا شوق' اور ڈرامہ محض 'ہنگامہ' بن چکا ہے تو ایسے میں پھکّڑ پن ہی فن کی 'معراج' بن گیا ہے.

ہمارے دوست قمر ٹیڈی جو ٹی وی کے لیئے ڈرامہ لکھتے ہیں، فرماتے ہیں کہ ان جیسا ادیب نہ کبھی پیدا ہوا ہے اور نہ کبھی پیدا ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹی وی ڈرامہ اس قابل ہے کہ اسے ادب عالیہ میں شمار کیا جائے؟

تو جو چیز ادب کے زمرے میں آتی ہی نہیں اسے لکھنے والا ادیب کیسے کہلوا سکتا ہے.

ہماری یہ زہر میں ڈوبی باتیں سن کر قمر ٹیڈی بھپر جاتا اور فحش گالیوں پر اتر آتا ہے اور کہتا ہے! کہ اس کے ڈرامے کی ریٹنگ ترکش ڈراموں سے بھی زیادہ ہے۔ وہ دن دور نہیں جب انڈین اور ترکش پروڈیوسر اس کے سامنے سجدہ ریز ہوں گے اور فقط ایک سیریل کے طلبگار ہوں گے۔

ہمارے اس سوال پر کہ اس نے کبھی کسی اور ادیب کو بھی پڑھا ہے؟ قمر ٹیڈی کے منہ پر حقیرانہ اور طنزیہ مسکراہٹ آ جاتی ہے اور فرماتا ہے ۔ گمنامی اور فقیری کی موت مر جانے والوں کی تحریر پڑھ کر میں نے ذلتیں سمیٹنی ہیں؟

میں ایک اکیلا ہوں اور میری TRP دس ہے"۔

ایک مرتبہ ایک مشہور خاتون ایکٹریس نے قمر ٹیڈی کا جملہ تبدیل کر دیا اور اس نے جب ایڈیٹ پر تبدیل ہوا جملہ سنا وہ آگ بگولہ ہو گیا اس کے منہ سے گالیوں کا فوارا پھوٹ رہا تھا، آواز اتنی بلند تھی کہ لوگ سمجھے قمر ٹیڈی کو کسی نے ماں کی گالی دے دی ہے۔ بہر حال ڈرامے کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر پہنچے اور ہاتھ پاؤں جوڑ کر معافیاں مانگیں کے آئندہ کوئی ایسی جرات نہیں کرے گا تو قمر ٹیڈی کی بھپری ہوئی انا کو قرار آیا اور کہا!

"تم لوگ جانتے نہیں میرا جملہ خدا کی امانت ہے! اس میں کوئی خیانت نہیں کر سکتا!"

اللہ اللہ کیسا ولی اللہ ہے ہمارا دوست۔ اب تو وہ اداکاروں سے بھی مایوس ہو گیا ہے اور کہتا ہے اپنے نئے سیریل میں ہیرو کا کردار بھی وہ خود ادا کرے گا۔ سنا ہے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کو قمر ٹیڈی کی یہ بات پسند نہیں آئی، لیکن کون ہے جو میرے دوست کے سامنے زبان کھولنے کی ہمت بھی کر سکے؟

قمر ٹیڈی کی بات میں وزن تو ہے۔ اس کی کہانی کا ہیرو وہی خصوصیات رکھتا ہے جو قمر ٹیڈی میں بدرجہ اتم خود موجود ہیں۔ مثلا قمر ٹیڈی کا ہیرو شراب پیتا ہے، جوا کھیلتا ہے، لوگوں سے ادھار مانگ کر واپس نہیں کرتا۔ کونسی 'خصوصیت' ہے جو قمر ٹیڈی اور اس کے کردار میں نہ موجود ہو۔ لہذا اپنی کہانی کے ہیرو کا کردار سب سے زیادہ عمدہ وہ خود ہی کر سکتا ہے۔

افسوس ہمارا دوست یہ شہر چھوڑ کر چلا گیا ورنہ تو آپ کی ملاقات اس ولی اللہ سے ضرور کراتے۔ اس کی شہر بدری میں چند نا عقبت اندیش اور لالچی قسم کے پروڈیوسرز کا بڑا ہاتھ ہے۔

قصہ یوں ہے کہ میرے دوست نے عین اسلامی اصولوں کے مطابق چار شادیاں کر رکھیں ہیں اور وہ اپنی تمام ازواج کے ساتھ انصاف بھی کرنا چاہتا ہے لہذا اس نے بہت سارے پروڈیوسرز سے ایڈوانس رقم پکڑ لی ہے۔ کسی نے پانچ لاکھ تو کسی نے دس لاکھ۔ اب وہ ٹہرا مصروف ڈرامہ نگار تو بھائی آپ کا نمبر تو دیر سے آئے گا؟ لیکن سارے کوے کی طرح شور مچانے لگے!

اسکرپٹ دو اسکرپٹ دو، قمر ٹیڈی نے تنگ آ کر یہ شہر ہی چھوڑ دیا۔

قمر ٹیڈی کے ڈرامے کتنے ہی حقیقت سے دور ہوں، کتنے ہی جھوٹے اور من گھڑت ہوں، ان ڈراموں میں اخلاقیات کی کتنی ہی دھجیاں اڑائی گئیں ہوں ہمارے گھروں میں لگے ہوئے میٹرز بتاتے ہیں کہ وہ بہت مقبول ہیں اور تمام TRP اور GRS میں سر فہرست ہیں۔

پہلے کہا جاتا تھا کہ جس طرح کے لوگ ہوتے ہیں ان پر اسی طرح کے حکمران مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ بلکل اسی تر ہم جیسی قوم ہیں، ڈرامے اسی کی عکاسی کرتے ہیں اس میں بے چارے قمر ٹیڈی کا کیا قصور؟

خرم عباس
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔