نقطہ نظر

کیا تاج محل پاکستانی ہے؟

قومی شناخت کو اینٹ اور گارے سے منسوب کرنا، چاہے وہ تاج محل ہی کیوں نہ ہو، بہت سے علمی سوالات اٹھاتا ہے

ظاہر ہے یہ انتہائی احمقانہ سوال ہے، بھلا 'تاج محل' کیسے پاکستانی ہو سکتا ہے اور ایسی قومیت کا دعویٰ کر سکتا ہے جو اسکی تعمیر کے چار سو سال بعد وجود آئی- ہم تو بس یہی امید کر سکتے ہیں کہ کوئی اپنے ہوش حواس میں ایسا احمقانہ سوال نہ کرے-

بہرحال پاکستان کی ایک بہترین یونیورسٹی کے انڈرگریجویٹ اسٹوڈنٹس کی کلاس میں پاکستان ہسٹری کے حوالے سے سیشن کے دوران ٹھیک اسی سوال پر گرماگرم بحث کی گئی، جہاں کچھ اسٹوڈنٹس کا یہ کہنا تھا کہ 'تاج محل' پاکستانی تاریخ کا حصّہ ہے جبکہ دیگر دلیل تھی کہ یہ 'پاکستانی' ہے-

ان تمام اسٹوڈنٹس نے انڈرگریجویٹ ڈگری شروع ہونے سے پہلے پاکستان اسٹڈیز میں ایک کورس لیا تھا-

تاریخ پاکستان کی تشکیل کے لئے بے شمار امکانات کی موجودگی میں، جس طرح پاکستان کی انتہائی متنازعہ اور اختلافی تاریخ پیش کی گئی ہے، اس سے ایسی ہی متعدد تقابلی روایات ممکن ہیں، جن میں سے ایک تاج محل کے پاکستانی 'ہونے' کا دعویٰ بھی ہے-

تاریخ پاکستان ایک متنازعہ موضوع رہا ہے جہاں مختلف نریٹوز (narratives) مختلف دلائل پیش کرتے ہیں کہ آخر تاریخ پاکستان ہے کیا، اور اسی کے ذریعہ پاکستان کا تصور ہمارے ذہن میں بنتا ہے-

برطانوی ہندوستان کی ممکنہ تقسیم اور پاکستان کے قیام کو دیکھتے ہوئے بعض تاریخ دانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان سات سو بارہ عیسوی میں 'تشکیل' پا چکا تھا جب ایک عرب حملہ آور ہندوستان کے اس خطّے میں داخل ہوا جو اب پاکستان کا حصّہ ہے-

اسی مغالطے کو مسلمانوں اور آج کے جنوبی ایشیا کے درمیان رابطے کا آغاز کہا جاتا ہے، بہرحال یہی مغالطہ خطّے میں مسلم 'شعور' اور شناخت کی تخلیق کے حوالے سے کئی سرکاری داستانوں میں سے ایک کو سپورٹ کرتا ہے-

دیگر تقابلی داستانیں ایک علیحدہ مسلم شناخت کے لئے سلطنت دہلی، مغل سلطنت، یا انیسویں صدی اور سنہ اٹھارہ سو ستاون میں رونما ہونے والے واقعات کی طرف دیکھتی ہیں، جو آگے جا کر مسلمانوں کی 'علیحدگی پسندی' اور بلآخر تخلیق پاکستان کی وجہ بنے-

پاکستان کب 'بنا'، اس سوال کا جواب 'مسلمان، ہندوؤں سے مختلف ہیں' کی بحث میں آپکو ملے گا اور اس کے اختتام میں ایک علیحدہ وطن-

چناچہ اگر پاکستان کی تاریخ، ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ ہے، اور اس کے ساتھ ہی محمّد بن قاسم کو بھی ایک مخصوص میراث اور ورثے کا حصّہ بنا کر 'پہلے پاکستانی' ہونے کا بے تکا دعویٰ کیا جاسکتا ہے، تو پھر تاج محل بھی 'پاکستانی' ہو سکتا ہے- اور اس طرح تاریخ پاکستان اور پاکستان کے رہنے والوں اور انکی سرزمین کی تاریخ دو بلکل متنازعہ داستانیں بن کر رہ جاتی ہیں-

نتیجتاً، پاکستانی تاریخ، ان لوگوں کی تاریخ کو بلکل نظرانداز کر دیتی ہے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے رہنے والے ہیں- موئنجو دڑو، ہڑپہ اور پاکستان کے لوگوں کی تاریخ پر زیادہ تر غلبہ شمالی ہندوستان کی مسلم تاریخ کا ہے، اور وہ بھی بس مسلم بادشاہوں اور ان کے درباروں کی حد تک -

بیسویں صدی میں غیر منقسم ہندوستان میں سیاست کا عمل دخل شروع ہوجانے کے بعد پاکستان کی 'تحریک آزادی' نے اس بیان کو مزید واضح شکل بخشی، (ہم یہاں اس تحریک آزادی کی بات نہیں کر رہے جو ہندوستان کے تمام لوگوں کو برٹش نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا دلانے کے لئے شروع کی گئی تھی)-

پاکستانی تاریخ کے بارے میں جو تھوڑا بہت لکھا گیا ہے اس میں زیادہ تر اولیاء کے تذکرے اور مبالغہ آمیزی شامل ہے، جہاں پروجیکٹ پاکستان کے لئے مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کے علاوہ ان حالات و واقعات کی وضاحت بھی ضروری ہے جو بالآخر اگست سنہ انیس سو سینتالیس کا محرک بنے-

ان کے تمام کردار، یا کم ز کم ہیروز ہمیشہ زیادہ تر مسلمان ہی ہوتے ہیں، نہرو، گاندھی، امبیڈکر، پٹیل اور بوز کے کردار کے بارے میں اسٹوڈنٹس بہت کم سنتے ہیں جو انہوں نے تین سو ملین ہندوستانیوں کو نوآبادیاتی نظام سے آزادی دلانے کے لئے ادا کیا-

وہ ہمیشہ ان مٹھی بھر مسلمان مردوں کے بارے میں سنتے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو ہندو اکثریت سے نجات دلائی- ان داستانوں میں برٹش سامراج کی حیثیت بہت معمولی ہے- ان پر صرف یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ انہوں نے پارٹیشن کے وقت پاکستان کو وہ تمام اضلاع نہیں دیے، جن پر مسلم اکثریت ہونے کی وجہ سے دعویٰ کیا گیا-

ایک سیاسی نظریہ کی حیثیت سے پاکستان کے ظہور پر حال ہی میں ایک انتہائی زیرک اور تخلیقی کتاب، Muslim Zion کے مصنف فیصل دیوجی نے کچھ دلچسپ اور جدید دلائل دیے ہیں جنہوں نے پاکستانی تاریخ کی حیثیت سے پیش کیے گۓ سادہ تصور کو پیچیدہ بنا دیا ہے-

ان کی یہ کتاب، پاکستان کے جواز اور اسکی تخلیق تک لے جانے والے نظریات کی تدریجی اور کثیرپہلو تفہیم ہے، حالانکہ دیوجی کے بہت سے conceptualization کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے، پھر بھی ان کا یہ بیان کہ 'پاکستان کی تاریخ بارڈر کے باہر موجود ہے'، یہاں بیان کی گئی پاکستانی تاریخ کے لئے مسائل کھڑے کرتا ہے، اور یوں بعض لوگ تاج محل کے 'پاکستانی' ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں-

اگر یہ دعویٰ کہ پاکستانی تاریخ 'بارڈر کے باہر' موجود ہے درست بھی ہے، اور یقیناً معاملہ بھی یہی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ تاریخ کے اس غالبانہ تصور کے تحت پاکستان نام کا جو ملک وجود میں آیا ہے اس کی اپنی کوئی تاریخ ہے ہی نہیں- وہ نام نہاد 'تحریک آزادی' ایک غیرسرزمین پرچلائی گئی، 'تاج محل' کی زمین پر، ان لوگوں کی زمین پر نہیں جنہیں پاکستان نامی ملک ملا اور جہاں ان کے باپ دادا صدیوں تک رہتے رہے-

قومی شناخت کو اینٹ اور گارے سے منسوب کرنا، چاہے وہ تاج محل ہی کیوں نہ ہو، بہت سے علمی سوالات اٹھاتا ہے، پاکستانی تاریخ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کی تلاش اب بھی جاری ہے-

اس سوال کا جواب کس طرح دینا ہے اس کے لئے بہت سی نظریاتی اور بعض جغرافیائی بھول بھلیوں سے گزرنا پڑتا ہے-

اگر پاکستان کو نظریاتی طور پر دیکھنا ہے تو اس کے لئے یہ تعین کرنا ہوگا کہ پاکستان کب وجود میں آیا اور ظاہر ہے یہ آسان کام نہیں ہے، خود کو ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ یا جنوبی ایشیا میں اسلام کی تاریخ تک محدود کرنا ہوگا-

اگر پاکستان کو جغرافیائی طور پر دیکھا جاۓ تو پاکستان کی سرزمین اور اس کے لوگوں کی تاریخ کس طرح پڑھائی اور سمجھی جاتی ہے اس کا مفہوم انتہائی مختلف ہوجاتا ہے-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: ناہید اسرار

ایس اکبر زیدی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔