پاکستانی عورت کے لئے سات فیصلہ کن لمحات
وہ ایک غیر یقینی موسم بہار کے سخت جان پھول ہیں- پاکستانی خواتین، جو کہ اس ملک کی آبادی کا نصف حصہ ہیں جو ان کی قدر کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہے، جو ان کی فلاح و بہبود میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں اور انہیں انتہائی پست درجوں تک محدود کرنے کو تیار ہے-
اس سال یعنی 2014 میں، طالبان سے مذاکرات، گرتی شرح خواندگی، فرائض سے غفلت برتنے اور بے حسی کے دماغ کی چولیں ہلا دینے والے ساگا کے خلاف، پاکستانی خواتین کا استقلال قائم و دائم ہے- اس سال بھی بہت سے حالیہ سالوں کی ہی طرح وہ، ناپسندیدہ عوامی جگہوں پر اپنا رستہ بناتی رہیں، نجی محفلوں میں مساوات کیلئے لڑتی رہیں اور اس ملک پر اپنا حق اور دعویٰ جماتی رہیں-
یہ ایک مشکل جنگ ہے کیونکہ اگر نمبروں کے حساب سے دیکھا جائے تو ان کا صرف ایک تہائی حصہ ہی سیکنڈری اسکولوں میں انرولمنٹ کروانے کی توقع کر سکتا ہے اور آدھوں کو تو کوئی تعلیم ملے گی ہی نہیں- ان میں سے ہر ایک اوسطاً چار بچوں کو جنم دے گی اور ان میں سے نصف کو تو دوران حمل کسی بھی قسم کی طبی سہولت یا نگہداشت میسر بھی نہیں ہو گی- بہت سی تو زندگی کو جنم دینے کے خطرناک مرحلے میں اپنی ہی جانیں گنوا بیٹھیں گی-
پاکستانی خاتون کو درپیش چیلنج ایک تو اپنی سروائیول کا ہے اور دوسرا ان مشکلات کے خلاف استقامت دکھانے کا ہے جن کا سامنا شاید کسی بھی دوسرے ملک کی خواتین کو نہ ہو- جب ہم پاکستانی عورت کی کہانی میں اہم لمحات کی جانب مڑ کر دیکھتے ہیں تو یہ اپنے آپ میں ایک تاریخ کی تعمیر کی ایک مشق ہے، کامیابیوں اور سنگ میل عبور کرنے کی ایک ایسی متوازی تاریخ، جسے اکثر مردوں کی طرف سے لکھی گئی تاریخ کے دوران زیادہ سنگین، زیادہ ضروری اور زیادہ اہم مطالبات کے لئے نظر انداز کر دیا گیا ہو-
وجود کے حوالے سے برابری
پاکستانی عورت کا ایک اہم تاریخی لمحہ تو خود پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے کا ہے- آل انڈیا مسلم لیگ، جس کی صفوں میں انگنت طاقتور خواتین موجود تھیں، نے 1932 میں ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے تحت خواتین کو سیاست میں برابری کی بنیاد پر حصہ لینے کا موقع ملا-
اس موقع پر، آگے چل کر بابائے قوم کہلانے والے، قائد اعظم کے الفاظ یہ تھے،
"کوئی بھی قوم ترقی کی معراج تک نہیں پہنچ سکتی جب تک کہ آپ کی عورتیں آپ کے شانہ بشانہ نہ چل رہی ہوں، ہم تو شیطانی رسموں کا شکار ہیں- یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے کہ عورتوں کو قیدیوں کی طرح گھروں کی چار دیواری میں قید کر دیا جائے- ہماری خواتین کو جن ناگفتہ بہ حالات میں رہنا پڑ رہا ہے اس کی اجازت آپ کو کہیں بھی نہیں ملے گی"-
پاکستان کے قیام سے بھی ایک دہائی پہلے قائد اعظم نے یہ الفاظ ادا کر کے یہ امید کی ہو گی کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک ایسا مادر وطن تخلیق کیا جا سکے جس کے قیام کا مطلب مسلم خواتین کی بھی آزادی ہو-
اولین خواتین کا نیا ملک
قیام پاکستان کے موقع پر، 1947 میں، بیگم شائستہ اکرام اللہ، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی پہلی خاتون نمائندہ بنیں- بیگم اکرام اللہ پاکستان کے کاز کے لئے ایک شعلہ بیاں اور معروف وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹی آف لندن سے، پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے پہلے مسلمان خاتون بھی تھیں-
پاکستان کی اولین خواتین کے اس ہراول دستے میں، شہزادی عابدہ سلطان بھی شامل تھیں ، جو بھوپال کی شاہی ریاست کی سابق وارث بھی تھیں لیکن انھیں اپنے بیٹے کے ساتھ اکیلے پاکستان منتقل کردیا گیا تھا- وہ آگے چل کر پاکستان کی پہلی خاتون سفیر اور پہلی خاتون پائلٹوں میں سے ایک بنیں- ترقی اور کامیابی کا یہ وژن، پاکستانی عورت کے ایک جدید، متحرک روایات سے ٹکرانے والی کی حیثیت سے، نمائیندگی کرتا ہے-
خاندان میں برابری
مسلم فیملی لاء آرڈیننس 1961 میں منظور کیا گیا- یہ قانون شادی کے معاملے میں طاقت کے توازن کا تعین کرتا ہے، وہ بنیاد جس پر پاکستانی عورت کی زندگی کھڑی ہے- اس قانون کی حمایت اور مخالفت میں کی جانے بحث جو بالآخر اس کی منظوری پر منتج ہوئی وہ پاکستان کی شناخت کے بارے میں اس ابہام کی بھی عکاس ہے جو ایک ناسور کی طرح آج تک ہمارے ملک میں پنپ رہا ہے- ابتدائی وکلاء، جن میں بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی شامل ہیں، کا بنیادی مقصد پاکستان میں دوسری شادی کی پریکٹس پر کچھ پابندیوں عائد کرنا تھا- مذہبی لابی کا اصرار تھا کہ مسلم مردوں کو ایک سے زیادہ شادیوں سے روکنا غیر اسلامی ہو گا اور اسی بناء پر یہ بالآخر ممکن نہ ہو سکا-
دیگر غیر حل شدہ معاملات کی مانند، ایک کمیشن بنایا گیا جو کہ اس معاملے کو تفصیل سے دیکھ سکے- حیرت کرنے کی ضرورت نہیں کہ 1961 میں پاس ہونے والا مسلم فیملی لاء آرڈیننس پاکستان میں ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی تو عائد نہیں کرتا تاہم اس میں دو شقیں ایسی ہیں جن کا مقصد اس تعلق میں عورت کو طاقت فراہم کرنا ہے-
پہلی تو یہ کہ دوسری شادی کے خواہشمند کسی بھی شخص کیلئے لازم ہے کہ وہ ثالثی کونسل سے اجازت لے- جبکہ دوسری شرط یہ ہے کہ طلاق کے تمام معاملات کو مقامی یونین کونسل میں رجسٹر کرایا جائے- آخری شق کا مطلب یہ ہے زبانی طلاق دے دینے سے خود بخود قانونی طلاق واقع نہیں ہوتی- یہ قانون، جسے اس کے مخالفین کی جانب سے بارہا چیلنج بھی کیا جا چکا ہے، آج بھی شادی، طلاق اور ان کے نتیجے میں خواتین کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے-
نور جہاں - قوم کی مغنیہ/گلوکارہ
تقسیم کے وقت، پاکستان ہجرت کرنے والی میڈم نور جہاں کو، 1966 میں ملک کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز، تمغہ پاکستان سے نوازا گیا- ان سے پہلے بھی کئی خواتین اس اعزاز کو حاصل کر چکی تھیں اور ان کے بعد بھی کئی خواتین کو اس اعزاز سے نوازا گیا اور نوازا جاتا رہے گا تاہم، نئے پاکستان کے پھیلتے ثقافتی منظر نامے میں عورتوں کی موجودگی کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے میڈم نور جہاں کی کامیابی بہت اہم تھی-
گلوکاروں کے ایک خاندان سے تعلق رکھنے والی نور جہاں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ایک اداکارہ کیا اورپھر ساٹھ کی دہائی میں ایک پلے بیک گلوکار کے طور پر خود کو ری انوینٹ کیا- دلکش، جاذب نظر بے خوف اور نڈر، وہ ایک عوامی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ اب بھی مردوں کی اس دنیا میں ایک ممتاز مقام رکھنے والی، لیکن ایک خاتوں تھیں-
اسلامائزیشن کے خلاف جنگ
ستر کی دہائی کے اواخر میں پاکستان میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا اور شاید یہی پاکستانی خواتین کیلئے سب سے اہم چیلنج ثابت ہوا- بائیس فروری، 1979 کو، خود ساختہ صدر جنرل ضیاء الحق نے چار الگ الگ آرڈیننس جاری کیے-
ان میں بدنام زمانہ زنا اور حدود آرڈیننس بھی شامل تھا جس میں زنا اور عصمت دری کے جرم میں حدود سزاؤں کا اطلاق کیا گیا- اس قانون کی منظوری کے بعد، جنسی حملے کا شکار یا ریپ کا شکار خواتین کیلئے چار مرد گواہوں کی شہادت جرم ثابت کرنے کیلئے لازمی کر دی گئی- اور اگر کوئی خاتون مرد گواہ پیش کرنے میں ناکام رہے تو خود اس پر زنا کاری اور عصمت دری کا مقدمہ درج کیا جا سکتا تھا-
جنرل ضیاالحق کی اسلامائزیشن کمپین میں قانون شہادت بھی شامل تھا جس کے تحت مخصوص کیسز میں عورت کی گواہی، مردوں کے مقبلے میں آدھی تسلیم کیا جاتی- اس چیلنج کا بار ان کاندھوں پر پڑا جنھیں اس کا سامنا کرنا تھا اور پھر فوجی حکومت اور طاقت کے استعمال کے خطرے کے باوجود سینکڑوں عورتیں سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکل آئیں- پاکستان کی خواتین کی تنظیموں میں سے بہت سوں کو اس دور میں اپنے سب سے کٹر حامی میسر آئے جنہوں نے معاشرے میں خواتین کے قد کو کم کرنے کے لئے رائج قوانین کے خلاف مزاحمت کی بنیاد کی تشکیل کی-
بینظیر بھٹو کا انتخاب
اسلامائزیشن کے دس سالوں کے اندر ہی، دو دسمبر، 1988 کو ایک پاکستانی خاتون نے تاریخ رقم کی- قومی سبز رنگ میں ملبوس، بے نظیر بھٹو نے پاکستان کی وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا اور اس طرح کے کسی بھی منصب کے لئے منتخب کی جانے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں-
اس موقع پر پارلیمنٹ کے باہر جمع ہونے والے جم غفیز سے خطاب کرتے ہوئے بینظیر بھٹو نے کہا،
"آج ہم یہاں آزادی منانے جمع ہوئے ہیں، جمہوریت منانے جمع ہوئے ہیں اور انگریزی زبان کے تین خوب صورت ترین الفاظ منانے جمع ہوئے ہیں یعنی “We the People”-
اس خاص لمحے پر، بینظیر بھٹو وہ خاص خاتون بن گئیں جو ایک شخصیت کے روپ میں کڑوڑوں افراد کے پوٹینشل کی نمائندہ تھیں، ہمت و جرات کی علامت تھیں، اور انسپریشن کا منبع تھیں- گو کہ کسی کو اس وقت، مستقبل کے المیہ واقعات کا اندازہ تک نہ تھا لیکن صرف یہ حقیقت کہ ایک مسلم ملک کی قیادت ایک مسلم عورت کے ہاتھوں میں تھی، اپنے آپ میں آگے کی جانب بہت بڑی چھلانگ تھی جس سے آنے والے تاریک دور میں روشنی حاصل کی جائے گی-
ایک جج، ایک کلائمبر، ایک فائٹر پائلٹ
تہذیبی جدوجہد، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کے صدمات میں گھری پاکستان کی عورت کیلئے گزشتہ دہائی خاصی مشکل رہی ہے- ہم نے دیکھا کہ کیسے لڑکیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑا دیا گیا، کیسے اسکول کی طالبات کو گولیاں ماری گئیں، کیسے لڑکیوں کی کالجوں کی بسوں پر حملے کیے گئے اور کیسے زندگی کے امور میں عورتوں کی مداخلت کو غیر اسلامی قرار دے کر رد کر دیا گیا-
نفرت کے اس بھاری بوجھ کا وزن پاکستانی عورت نے بہت بہادری سے برداشت کیا- سنگین ماحول، مخاصمت، تنقید، الجھن اور اپنی جانب اٹھنے والی انگلیوں کے باوجود، وہ اپنی حدود بڑھانے اور نئی حدود کے قیام میں کامیاب رہیں-
تیس دسمبر، 2013 کو، پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے وجود کی 33 سالہ تاریخ میں اس کی پہلی خاتون جج نے حلف اٹھایا- محترمہ اشرف جہاں، جو کہ اس سے پہلے صوبہ سندھ میں اضافی کورٹ میں جج کے طور پر خدمات سرانجام دے چکی تھیں، کی تقرری، پاکستانی عورت کو میسر اس پہلے موقع کی نمائندہ تھی جس کے تحت وہ مذہبی قانون کے حوالے سے کردار ادا کر سکتی ہے اور یہ وہ فیلڈ ہے جس سے اسے روایتی طور پر خارج رکھا گیا-
پچھلے سال تقریباً اسی وقت، وادی ہنزہ کے چھوٹے سے قصبے، شمشال سے تعلق رکھنے والی، بائیس سالہ ثمینہ بیگ، ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے پہلی پاکستانی خاتون بنیں تھیں- جب انہوں نے پہاڑ کی چوٹی پر پاکستان کا سبز و سفید جھنڈا لہرایا، تو اس وقت، ان کے ذہن میں صرف اپنی بہنوں کا ہی خیال تھا، "پاکستان کی ان عورتوں کا، جنہیں تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت ہے، جنہیں اپنی مرضی کی زندگی گزرنے کی اجازت بھی نہیں"-
اس فاتحانہ لمحے پر انہوں نے امید کی تھی کہ پاکستانیوں کو احساس ہو جائے گا کہ خواتین کی شرکت اہم ہے اور ملک کو طاقتور بنانے کیلئے یہ شرکت انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے-
پاکستانی خواتین کچھ بھی نہیں اگر وہ جنگجو نہیں، اور جہاں زیادہ تر عورتیں پاکستان کی سرزمین پر یہ جنگ لڑ رہی ہیں، وہیں ایک نے اپنے لئے آسمانوں کا انتخاب کیا- پچھلے سال، چھبیس سال کی عمر میں عائشہ فاروق، پاکستان کی پہلی فیمیل فائٹر پائلٹ (جنگجو ہواباز) بن گئیں- چین کے مگ 21 جیٹ کے ورژں، ایف سیون پی جی اڑاتی عائشہ، لاکھوں کیلئے رول ماڈل ہیں اور اس بات کی عملی تفسیر کہ پاکستانی عورتیں جنگجو ہوتی ہیں-
وہ ایئر بیس جہاں انہوں نے ٹریننگ حاصل کی اور اپنا آخری کوالیفیکیشن پاس کیا، صرف مردوں کیلئے تعمیر کیا گیا ہے اور وہاں عورتوں کے لئے بیت الخلاء بھی موجود نہیں تھا- لیکن پھر اسے بنایا گیا جو اس بات کا اعتراف تھا کہ ایک عورت اب وہاں موجود ہے اور وہاں قیام کرنے والی ہے- اس کے ملک پاکستان کو بھی جو کہ مردانہ ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے، اب ایسی ہی ضروری تبدیلیاں کرنا ہوں گی کیونکہ پاکستانی عورت یہ اعلان کرتی کہ وہ یہاں موجود ہے اور یہیں قیام کرنے والی ہے-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔