نقطہ نظر

انگریز مخالفت، انگریزی دشمنی اور کھوکھلی قوم پرستی

پاکستان اور ہندوستان کی آزادی کی سیاسی لڑائی جیتنے والے نہ تو انگریز پرست تھے اور نہ ہی انگریز مخالف۔

ہمارے ہاں ایک سے زیادہ اقسام کی انتہا پسندیاں پائی جاتی ہیں کہ جب تجزیہ کریں تو نیوٹن کے تیسرے قانون کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ جیسے پینڈولم کی دونوں انتہائیں ایک مقام پر یکجان ہو جاتی ہیں ایسے ہی معاشرتی سطح پر بھی مختلف اقسام کی انتہا پسندیاں ایک دوسرے کو ”تگڑا“ کرنے کا ہی سبب بنتی ہیں۔

کچھ ایسی ہی مماثلت انگریزوں کی پالیسیوں کے مخالفوں و حمایتیوں اور انگریزی زبان کے طرفداروں اور مخالفین میں بھی پائی جاتی ہیں۔

یونانیوں اور ترکوں (مغلوں) کی طرح انگریز قوم کا شمار بھی ”بن بلائے آقاﺅں“ میں ہوتا ہے۔ انگریزوں نے جب آہستہ آہستہ یہاں اقتدار پر قبضہ کرنا شروع کیا تو ان کی حمایت و مخالفت میں بہت سے گروہوں نے سرگرمیاں دکھائیں۔

عمومی طور پر ان میں دو طرح کے نقطہ نظر زیادہ حاوی رہے۔ ایک وہ تھے جو انگریز حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان اور اس سے وابستہ علم و ادب بشمول سائنس کے خلاف سر پر کفن باندھ بیٹھے۔

دوسرے وہ تھے جن کے دلائل کے مطابق انگریزی زبان میں موجود ادب و سائنس کے خزینوں کامطلب یہ ٹھہرا کہ آنکھیں بند کر کے انگریز حکمرانوں کی پالیسیوں پر بھی آمنا صدقنا کہا جائے۔

ایک کی دلیل یہ تھی کہ انگریز حکمرانوں کی بھی مخالفت کی جائے اور انگریزی زبان و علم سے بھی کنارہ کشی اختیار کی جائے تو دوسرے گروہ کے نزدیک انگریزی زبان پڑھنے والوں کے لیے انگریز حکمرانوں کی پالیسیوں کی حمایت بھی لازم ٹہری۔

انگریز اور انگریزی کو بیک وقت نشانہ بنانے والے ”انگریز مخالف“، ”استعمار مخالف“، ”اینٹی امپیریلسٹ“ کہلائے جبکہ انگریز حکمرانوں کی پالیسیوں اور انگریزی کی حمایت کو نتھی کرنے والے ”انگریز پرست“ اور ”ٹوڈی“ کہلائے۔

کرنا خدا کا یہ ہوا کہ 20ویں صدی میں کمیونیکیشن کے جدید ذرائع یعنی ریڈیو، ٹی وی، کمپیوٹر ،انٹرنیٹ کی مرحلہ وار آمد ہی نہ ہوئی بلکہ ان جدید ذرائع کی زبان بھی انگریزی ٹھہری اور دوسری جنگ عظیم کے بعد نئے ”سامراج“ یعنی امریکہ بہادر کی زبان بھی انگریزی ہی تھی۔ بس طاقت اور علم کے اس ”کشتہ“ نے وہ رنگ جمایا کہ انگریزی کی بین الاقوامی حیثیت مسلمہ ہو گئی۔

انگریزی زبان والوں نے انگریزی کو بین الاقوامی رنگ دینے کے لیے اپنی زبان کو فنکشنل سطح پر بھی خوب ترقی دی جس نے انگریزی کی قبولیت پر چار چاند لگا دیئے۔

یہی نہیں بلکہ انگریزی زبان کے چاہنے والوں نے دوسری زبانوں سے الفاظ کی آمد کو بھی برا خیال نہ کیا اور جدید ذرائع ابلاغ کو مدنظر رکھ کر اپنے رسم الخط اور لفظالی (vocabulary) تک کو بھی بدلنے کے رستے نکالے۔

20ویں صدی میں اپنے خطّے کی تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی سیاسی لڑائی جیتنے والے نہ تو انگریز پرست تھے اور نہ ہی انگریز مخالف۔ مسلم لیگ اور کانگرس کی قیادت کرنے والے علامہ اقبال، محمد علی جناح، میاں شفیع، ممتاز دولتانہ، لیاقت علی خان، حسین امام، غلام محمد، چوہدری محمد علی، چوہدری خلیق الزمان، حسین شہید سہروردی ہوں یا پھر مہاتما گاندھی، موتی لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، جواہر لال نہرو ہوں، سب میں مشترک بات یہی تھی کہ انہیں انگریز حکمرانوں کی پالیسیوں بارے تحفظات بھی تھے مگر یہ انگریزی زبان و ادب اور علم کے قائل بھی تھے۔

جن شخصیات نے اس خطہ میں آخری سیاسی معرکہ کی قیادت کی وہ انگریز حکمرانوں کی پالیسیوں اور انگریزی زبان و ادب کی اہمیت کے فرق کو خوب پہچانتے تھے۔ ان کی زندگیاں اور سیاست جدید طرز معاشرت اور جدید طرز سیاست کی عکاس تھیں اور وہ سائنسی علوم کو بھی اولیت دیتے تھے۔ یہ لوگ عربی، فارسی، سنسکرت، خطہ کی مادری زبانوں اور ان کے ادب و علم کے مخالف نہ تھے البتہ بدلتی ہوئی دنیا کی حقیقتوں پر ان کی برابر نظر بھی تھی۔

یہی وہ معتدل اور معقولاتی نقطہ نظر تھا جس کی وجہ سے 1940 کی دہائی میں اس خطہ کے عام لوگوں نے انگریز پرستوں اور انگریز مخالفوں کی بجائے انہی اعتدال پسند سیاسی قیادتوں پر اعتماد بھی کیا تھا۔

چاہیے تو یہ تھا کہ 1947 کے بعد پاکستان اور ہندوستان کی نئی مملکتوں میں اسی بصیرت (ویژن) کو آگے لے کر چلا جاتا جو ان کے بانیوں نے اپنایا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ دھیرے دھیرے پاکستانی و ہندوستانی قوم پرستیوں کو ابھارنے کے زعم میں اُردو بمقابلہ انگریزی اور ہندی بمقابلہ انگریزی کی تکرار میں پالیسی ساز رُجھ گئے۔

قوم پرستی تو بری چیز نہیں مگر تنگ نظر قوم پرستی وبال جان ضرور ہوتی ہے۔ تنگ نظر قوم پرستی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا خمیر عدم تحفظ سے اٹھایا جاتا ہے۔

پاکستانی و ہندوستانی نصابی کتابوں پر کام کرنے والے مشہور ہندوستانی ماہر تعلیم کرشن کمار نے اپنی مشہور کتاب کے ذریعہ ہندوستان میں اس تنگ نظر قوم پرستی کو چین سے ہاری ہوئی لڑائی (1961) کے نتیجہ میں مضبوط ہونے کی گواہی دی ہے، جبکہ پاکستان میں تنگ نظر قوم پرستی اور عدم تحفظ کی پالیسی کا کھرا دسمبر 1971 کی شکست سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔

شکست خوردہ قوموں میں خوفناک عدم تحفظ جنم لیتا ہے جس کا اظہار تنگ نظر قوم پرستی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ اس تنگ نظر و شکست خوردہ قوم پرستی کے تحت قدامت پسندوں نے مذہب اور قوم پرستی کی طنابیں تھام لیں اور جدیدیت کو رگیدنے لگے۔ پرانی دردیں جاگ اٹھیں اور ایک دفعہ پھر انگریز پرستوں اور انگریز مخالفوں نے صفیں باندھ لیں۔

گذشتہ 40 برس سے ہمارے ہاں وہی تکرار جاری ہے جو 20ویں صدی کے ابتدائی برسوں میں بھی جاری تھی۔ ایک طرف وہ ہیں جو برطانیہ اور امریکہ کی پالیسیوں کی حمایت اور انگریزی علم و ادب کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں تو دوسری طرف وہ ہیں جو انگریزی علم و ادب کی حمایت کو سامراج کی طرفداری گردانتے ہیں۔

کیا ہمیں آج پھر اقبال و جناح جیسی اعتدال پسند و جدیدیت کی حمایتی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو نہ صرف عدم تحفظ پرپلنے والی تنگ نظر و شکست خوردہ قوم پرستی سے ہماری جان چھڑائے بلکہ تعصب و تفاخر کے اس بھنور سے نکلنے میں معاون ہو جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں۔

انگریزی علم و ادب کی حمایت کرنے والوں کو نہ صرف خود کو امریکہ و برطانیہ کے حکمرانوں کی پالیسیوں سے دور رکھنا ہو گا بلکہ مادری زبانوں اور اُردو میں موجود علم و ادب کی تکریم بھی کرنی ہوگی۔

اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں بھی اعتدالی و معقولاتی انداز فکر ہی نئی راہیں کھولنے میں کارگر ہو گا۔ جب تک ہم تنگ نظر قوم پرستی اور اس سے وابستہ عدم تحفظ کو خیرآباد نہیں کہیں گے اس وقت تک یہ پرنالہ وہیں گرتا رہے گا اور ہم کوئی قابل عمل و موثر پالیسی نہیں بنا سکیں گے۔

عامر ریاض

عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔