نقطہ نظر

بلوچ احتجاج خطرے میں

لاپتا بلوچوں کی آواز اسلام آباد کے قریب، احتجاج کو جبراً خاموش کرانے کے اوچھے ہتھکنڈے۔

تقریباً چودہ سو کلومیٹر اور ستر دن۔ روزانہ بیس کلومیڑ کا پیدل سفر۔ یہ انہی لوگوں کی ہمت ہے۔ اس میں، قبل ازیں، کوئٹہ سے کراچی تک کے سات سو کلومیٹر کی پیدل مسافت طے کرنا شامل نہیں۔ نو خواتین اور تین بچوں سمیت پندرہ افراد پر مشتمل یہ چھوٹا سا احتجاجی مارچ کراچی سے اپنی منزل اسلام آباد جارہا ہے۔

اس احتجاجی مارچ کی قیادت 'لاپتا بلوچوں کی آواز' (وائس آف دی بلوچ مسنگ پرسنز) کے قدیر بلوچ کررہے ہیں، جس کا مقصد اُن بلوچوں کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے، جنہیں علیحدگی پسندوں سے ہمدردی کے شبہ میں مبینہ طور پر ریاست کے ہرکاروں، بشمول فرنٹیئر کورپس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں، نے اغوا کیا ہے۔

گذشتہ تین برسوں کے دوران بلوچستان کے مختلف حصوں سے تقریباً چھ سو لا پتا افراد کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں، متعدد کا اب تک کوئی سراغ نہیں جبکہ جبری طور پر لاپتا کیے جانے والوں کی تعداد کا شمار ہزاروں میں پہنچ چکا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے کی گئی بار بار مداخلت اور اس ضمن میں بطورِ خاص ایف سی پر ٹھوس الزامات کے باوجود، صوبے کے اندر سے نوجوانوں کا اغوا بدستور سے جاری ہے۔

'لاپتا بلوچوں کی آواز' کے تحت کیا جانے والا یہ مارچ اُن لواحقین کی پریشانیوں اور اذیت کی عکاسی کرتا ہے جو انصاف کی جستجو میں تمام تر آپشنز آزماچکے۔

اگرچہ اس وقت یہ احتجاجی مارچ اپنی منزل اسلام آباد کے قریب پہنچ چکا لیکن مارچ کے شرکا اور وہ جو انہیں اس راہ میں عارضی پڑاؤ اور کھانا وغیرہ فراہم کررہے ہیں، اطلاعات ہیں کہ انہیں ہراساں کیا جارہا ہے۔

خطرات پہلے سےکہیں زیادہ واضح ہوتے جارہے ہیں، پولیس اور مارچ شرکا کے درمیان بعض تبادلوں کو وڈیو پر بھی محفوظ کرلیا گیا ہے۔

پُرامن احتجاج مہذب معاشرے کی علامت اور شہریوں کا حق ہے جس میں، اس طرح کی رکاٹوں کا جواب شرکا نے پُرامن رہ کر دیا لیکن ریاست پہلے سے خراب صورتِ حال کو مزید بگاڑنے پر تُلی بیٹھی ہے۔

بلوچستان کے ویرانوں میں اغوا اور مارو پھینکو کے آپریشن کسی نہ کسی طرح عوام کی نگاہوں میں آہی جاتے ہیں، کبھی مسخ شدہ تو کبھی اجتماعی قبر میں ادھ دفن لاشیں تکلیف دہ سچائی بیان کر ہی دیتی ہیں لیکن پُرامن احتجاجی مارچ، جس پر پیشرفت انٹرنیٹ کے ذریعے عوامی دسترس میں ہے، کی راہ میں رکاوٹیں کھڑ کرنا ایک بالکل ہی الگ بات ہے۔

'لاپتا بلوچوں کی آواز' کو جبر کے ہتھکنڈوں سے خاموش کرانا، عوام کی عدالتوں اور ساتھ ہی عالمی رائے عامہ میں، یقیناً اس آواز کی گونج میں مزید شدت پیدا کردے گا۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار