نقطہ نظر

بیوروکریسی میں اصلاحات کی ضرورت

ایک اچھی حکومت کا گہرا تعلق دیرپا اورمنصفانہ ترقی کے نظام سے ہوتا ہے۔

ایک اچھی حکومت کا گہرا تعلق دیرپا اورمنصفانہ ترقی کے نظام سے ہوتا ہے- یہ خوبیاں اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں لیکن جب تک ان پر عمل درآمد کرنے والے ادارے موثر اور اچھی کارکردگی کے حامل نہ ہوں پالیسیوں کے مثبت اثرات کم ہی برآمد ہوسکتے ہیں- اچھے نظم ونسق کے لئے جو ادارے اہمیت رکھتے ہیں ان میں سے ایک لائق، غیرجانبدار اورایمان دار بیوروکریسی ہے-

عام شہریوں کی زندگی میں سیول سرونٹس کی بڑی اہمیت ہے- پاکستان کو خوش قسمتی سے برطانیہ سے بیوروکریسی کا ایک مضبوط ڈھانچہ ورثے میں ملا- شروع شروع میں، سیول سروسزنے اپنی روایت کو برقراررکھتے ہوئےامن عامہ اورلینڈ ریونیو جمع کرنے کے کام کوخوش اسلوبی سے انجام دیا- لیکن ایک نوآزاد ملک کی ضروریات اس سے کہیں زیادہ تھیں-

پاکستان کی سیول سروسزکے نظام نے بدلتے ہوئے وقت کی ضروریات کے مطابق خود کو تبدیل نہیں کیا- وہ وقت میں منجمد ہوگئے اورعوام کی ضروریات اورامنگوں کی طرف سے بے حس- حالات کو جوں کا توں برقراررکھنے کا یہ رویہ فوجی حکومت کو زیب دیتا تھا جو 1958 میں اقتدار میں آئی تھی اور فوج-سیول سروسز کے اتحاد جس نے 1971 تک حکومت کی سیاسی قیادت کو باہر رکھا-

1971 کے بعد کے دور میں عوامی حکومت منتخب ہوئی اور اس نے سیول سروسز کے ڈھانچے کو توڑنے اور انھیں زیادہ قابل قبول اورلچکدار بنانے کا فیصلہ کیا- سیول سرونٹس کے اختیارات اورغیرجانبداری کو جوآئینی تحفظات حاصل تھے وہ واپس لے لئے گئے- سیول سروسز آف پاکستان کو اعلیٰ ترین عہدوں پر تقرریاں اور تعیانتیاں کرنے کی جونیم اجارہ داری حاصل تھی وہ ختم کردی گئی- مختلف عہدوں کے لئے یکساں تنخواہوں کے اسکیل اور بھرتیوں اور ٹریننگ کے قوانین بناَئے گئے-

ان اصلاحات کے نتیجے میں عوام کے بڑے حصے کو پبلک سروسز فراہم کرنے کے مسائل بڑی حد تک حل نہیں ہوسکے- سوائے چند ہزارافسروں کی بھرتیوں کے جن کا تقررسنٹرل سپیرئرسروسز نے کیا سیول سرونٹس کی اکثریت ایکس- کیڈراورنان- کیڈر کی ملازمتوں تک محدود رہی- سرکاری شعبہ میں ہزاروں ڈاکٹروں، ماہرین تعلیم، اساتذہ، سائنسدانوں، انجینئروں ماہرین معاشیات اوراکاونٹنٹس کو اپنے پیشوں میں ترقی کے محدود مواقع دیئے گئے-اس کے نتیجے میں سیول سرونٹس کی اکثریت دلبرداشتہ ہوگئی، وہ پست ہمت اور دل شکستہ ہو گئے جس کا اظہاران کی خراب کارکردگی میں ہوا- موکلوں سے لاتعلقی، سستی اور بے حسی نیز خود کو نہ بدلنے کی ذہنیت کا اظہاران کے رویوں سے ہونے لگا-

ریاست اورشہریوں کے درمیان بنیادی تعاون کا فرسودہ نظام جوکم تنخواہ یافتہ، نا اہل، کم تعلیم یافتہ، غیر مہذب اہلکاروں مثلاًپٹواری، تھانیداراورسب ڈویژنل افسروں کا مرہون منت تھا جنھیں وسیع امتیازی اختیارات حاصل تھے، اسی طرح سے مضبوطی سے قائم رہا اور اس کے ساتھ ساتھ بدعنوانی روزبروز بڑھتی گئی، کارکردگی گھٹتی گئی اور نظم و نسق کا حال ابتر ہوتا گیا-

2001 میں جب لوکل گورنمنٹ کا نظام نافذ ہوا ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ختم کردیا گیا جو شہریوں اور حکومتی رہنماؤں کے درمیان رابطہ کا واحد ذریعہ تھا- معاملہ خواہ امن عامہ، سیکیورٹی اور سلامتی، زمین کی دستاویزات، ریوینیواکٹھا کرنے کا ہو یا ترقیاتی کام، ڈپٹی کمشنراسکا ذمہ داراورنتائج کے لئے جوابدہ تھا-ضلعوں میں حکومت کی عملداری قائم کرنے میں ڈی سی- ایس پی جوڑا اہم کردارانجام دیتا تھا-

نیا نظام جس نے پرانے نظام کی جگہ لی تھی ابھی تجرباتی مرحلے سے گزررہا تھا اوراس میں بہت سے ابہامات موجود تھے، یہ غیر واضح تھا اور اسکے عمل درآمد میں کئی ایک مشکلات تھیں جنھیں دور کیا جانا تھا- لیکن اس سے پہلے کہ یہ نظام جڑ پکڑتا اسے 2008 میں ختم کردیا گیا-2001 کے نظام کے خاتمے کے نتیجے میں جو خلا پیدا ہوا اس کے نتیجے میں غیر- ریاستی عناصر، قسم قسم کے مافیا، جرائم پیشہ اور بھتہ خورطاقتور ہوگئے-

ترقیاتی پروجیکٹس، جو تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے کیونکہ ضلعی ناظموں کو اسکی ذمہ داری اور قیادت سونپی گئی تھی، انتشار کا شکار ہوگئے-پالیسی سازی کی سطح پرملازمتوں کے عدم تحفظ نے سیول سرونٹس کو مجبورکردیا کہ وہ سیاسی پارٹیوں کا ساتھ دیں- یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی حکومتوں نے کلیدی عہدوں پر اپنے اپنے پسندیدہ سیول سرونٹس کی تقرریاں کیں-

اہلیت کے بجائے وفاداری اپنے عہدوں کو بچانے کا ذریعہ بن گئی- اس کھیل میں سیاسی رہنماوں اور ان کے حواریوں کو فائدہ پہنچا جبکہ عام شہریوں کو نقصان، جنھیں نہ تو حکومت تک رسائی حاصل تھی اور نہ ہی اپنے مسائل کو حل کرنے کے وسائل-سیول سروسز کی اصلاح کے لئے ایک مفصل بلیو پرنٹ تیار کیا گیا جسکے لئے تجزیہ کئے گئے اورمتعلقہ اداروں سے مشورے بھی کئے گئے- اسکی بنیادی سفارشوں پرزیادہ مشکلات کے بغیرعمل درآمد ہوسکتاہے بشرطیکہ باہم طورپرمربوط اقدامات کئے جائیں- اگر کسی سفارش کو قبول کرلیا جائے اوردوسری کو نظرانداز کردیا جائے تو اس کے نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں-

سب سے پہلے تو یہ کہ اعلیٰ اورماتحت سروسزکے درمیان نیز کیڈر، ایکس- کیڈراورنان- کیڈر کے مابین امتیاز برتنے کے نظریہ کو ختم کر دیا جائے اوراسکی جگہ گورنمنٹ کی تمام سطحوں اورتمام سروسز میں مساوات قائم کی جائے- بھرتی، ترقی، کیرئرمیں آگے بڑھنے، اور معاوضہ کے شرائط سب کے لئے یکساں نوعیت کے ہوں-

ہرافسر کو اجازت ہونی چاہیئَے کہ وہ نیشنل ایگزیکیوٹیو سروس یا پرونشیل ایگزیکیوٹیو سروس کے لئے مقابلہ کا امتحان دے سکے جنھیں پالیسی سازی کے اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا جا سکتا ہے-

دوسرے یہ کہ، ہرضلعی حکومت کے لئے ایک ضلعی سرویس قائم کی جائے جو گریڈ 1سے گریڈ 16 تک کے اساتذہ، ہیلتھ ورکرز، سینیٹری ورکرزپر مشتمل ہو جو پہلے بھی ان ضلعوں میں کام کرچکے ہوں- اس تبدیلی کے نتیجے میں سیاستدانوں کی وہ مصروفیات ختم ہوجائنگی جو انھیں ان کے تبادلوں اورتعیناتی میں الجھائے رکھتی ہیں-

تیسرے یہ کہ، تمام سطحوں پر کی جانے والی تعیناتیاں مقابلے اور میرٹ پر کی جائیں نیز تمام پاکستان اور فیڈرل سروسز میں صوبائی کوٹہ کو پیش نظر رکھا جائے-بھرتیوں کے امتحانات اور انٹرویوز پبلک سروسز کمیشن منعقد کرے-

چوتھے یہ کہ، کیرئر کے دوران ترقی اورسینیئر پوزیشنوں کے لئے ٹریننگ کو لازمی قرار دیا جائے-اے ای آرس کے موجودہ نظام کی جگہ آبجیکٹیو طریقہ امتحان رائج کیا جائے-

پانچویں یہ کہ، معاوضہ کا ایک منصفانہ اور مساویانہ نظام قائم کیا جائے جو کارکردگی پر مبنی ہواور یہ کہ اساتذہ،ہیلتھ ورکرز ،پولیس،ٹکنیکل اور پروفیشنل ماہرین کو قومی پے اسکیل کے بجائے مختلف پے اسکیل دیئے جائیں جو مقامی لیبر مارکٹ کے مطابق ہوں-

مستقبل میں گریڈ 1 سے 16 تک تمام بھرتیاں بند کردی جائیں سوائے پولیس،ٹیچرز، ہیلتھ ورکرز اور ٹکنیکل ماہرین کے اور اس طرح سے ہونے والی بچت افسروں کی تنخواہیں دینے کے لئے استعمال کی جائے-

ترجمہ سیدہ صالحہ

عشرت حسین

لکھاری سابق گورنر اسٹیٹ بینک، اور ووڈرو ولسن سینٹر واشنگٹن ڈی سی میں پبلک پالیسی فیلو ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔