ایلفی بن گئی زیبی
کراچی کے دل صدر کے دل میں واقع زیب النساء اسٹریٹ جو کبھی ایلفنسٹن اسٹریٹ ہوتی تھی۔ تقسیم سے قبل لوگ اس سڑک کو پیار سے ایلفی اسٹریٹ بلکہ اب بھی کچھ پرانے لوگ ایلفی اسٹریٹ کے بجائے صرف ایلفی کا نام استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے استاد حسین نقی جب بھی ایلفی اسٹریٹ کا ذکر کرتے ہیں تو بالکل ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی عاشق اپنی معشوقہ کا ذکر کر رہا ہو۔
صرف حسین نقی ہی نہیں ہمارے دوست جناب عبدالحئی، اسد اقبال بٹ بھی ایلفی کا ذکر اتنی ہی محبت کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ نامور دانشور سیاستدان اور ادیب پیر علی محمد راشدی کی یاد داشتوں میں بھی نظر آتا ہے ('وہ دن، وہ لوگ' -- مطبوعہ، آج کی کتابیں، مرتبہ اجمل کمال) ایلفنسٹن اسٹریٹ کے حوالے سے علی محمد راشدی لکھتے ہیں؛
"ایلفنٹسن اسٹریٹ کی چھاپیں (shops) دیکھ کر لوگوں میں احساس کمتری پیدا ہوتا تھا۔ میمنوں کی دو چار دکانوں کے سوا باقی سب دکانیں انگریزوں، پارسیوں اور ہندو عاملوں کی تھیں، مگر صدر کی دکانوں کا مہندار تب بھی میمن حاجی ڈوسل ہوتا تھا۔
سب سے بڑی دکان جہاں ہر قسم کا سامان، عمدہ دھاگے سے لے کر اعلیٰ درجے کی بندوقوں تک، اس ایک ہی دکان سے مل جاتا تھا۔ البتہ دکان میں داخل ہونے سے پہلے بوٹ صاف کرائے جاتے، کوٹ کے بٹن بند کیے جاتے اور داڑھی مونچھوں کو ہاتھ پھیر کر درست کیا جاتا، کیوں کہ اندیشہ ہوتا تھا کہ اندر داخل ہونے پر کسی انگریز افسر سے سامنا نہ ہوجائے، سندھیوں کو اپنے سے اونچے لوگوں کے ادب کے تقاضے ہر وقت اور ہر جگہ یاد رہتے ہیں.
ڈوسل کی دکان ایک ادارہ تھی۔ سندھ کے تقریباً تمام وڈیرے، میر اور پیراس دکان کے مقروض ہوتے تھے اور فضل کٹنے پر سال بھر کی کمائی کا بڑا حصہ انہیں ڈوسل کا ادھار چکانے میں صَرف کرنا پڑتا تھا۔ ان لوگوں کی مار بندوقوں، کارتوسوں، ولایتی بسکٹوں اور خوشبودار صابن پر ہوتی تھی جن کی ڈوسل کے پاس کوئی کمی نہ تھی۔
دکان میں رکھا ہوادوسرا سامان اکثر ان کی سمجھ ہی میں نہ آتا تھا، اس لیے اس کے قریب نہ پھٹکتے، کچھ چنیدہ بڑے آدمی شام کے وقت ڈوسل کی دکان کے باہر محراب دار چبوترے پر بیدکی کرسیاں ڈال کر بیٹھ جاتے کہ کوئی افسر یا اس کی میم گزرے تو اٹھ کر اسے سلام کریں۔ ایک لحاظ سے ڈوسل کی دکان کے سامنے بیٹھنا خود عزت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔
ہور (Hoar) نامی ایک انگریز درزی کی دکان، اسی الفنسٹن اسٹریٹ پر، نئے فیشن کے دلدادہ وڈیروں کی دلچسپی کا مرکز ہوتی تھی۔ سندھی پڑھے ہوئے لوگ فقط قمیض میں بوٹائی لگانے پر اکتفا کرتے، انگریزی کے دو چار درجے پڑھے ہوئے ہوتے تو 'ہور' سے سوٹ سلوا کر پہنتے، مگر انگریز اہلکاروں کے پاس سوٹ پہن کر نہ جاتے مبادا صاحب کو خیال گزرے کہ وڈیرا انگریزوں کی ہمسری کر رہا ہے۔
اس سے کچھ آگے جے بلس کی دکان تھی جہاں انگریزی دواؤں کے علاوہ اعلیٰ ترین ولایتی سینٹ، صابن وغیرہ مل سکتے تھے، فیشن ایبل لوگ وہاں کا بھی چکر لگاتے، دکان کے باہر بڑے بڑے شیشے لگے ہوئے تھے۔ زیادہ تر لوگ باہر کھڑے ہوکر شیشے میں سے اندر کا نظارہ کرتے اور کہتے واہ رے انگریز واہ!
دکان یوروپی طرز میں آراستہ کی گئی تھی، ایک بار سندھ کے ایک بزرگ کوئی چیز لینے اس دکان میں داخل ہوئے ۔ مریدوں کو معلوم ہوا تو وہ لاٹھیاں لے کر پہنچے اور بلس کی دکان کے شیشے توڑ کر اس کے ٹکڑے تبرک کے طور پر اپنے ساتھ لے گئے۔ بزرگ نے بلس کو اس نقصان کا معاوضہ دیا( مبادا بلس، جو انگریز تھا، سندھ کے کمشنر صاحب سے جاکر شکایت کردے!) اور شاید یہ وعدہ بھی کیا کہ آئندہ اس دکان میں داخل نہیں ہوں گے۔
اسی طرح کی ایک دکان اسپیچلی نامی انگریز کی بھی تھی۔ وہاں بھی دوائیں اور خوشبو کا سامان ملتا تھا۔
شروع میں ہم سمجھتے تھے کہ اس سڑک کا نام ایک انگریز وکیل کے نام پر ہے جس نے انگریز سرکار کی جانب سے خالق دینا ہال میں تحریکِ خلافت کے مقدمے میں سرکار کی پیروی کی تھی. مرزا عبدالقادر بیگ کی کتاب کراچی کا تاریخی مقدمہ (مطبوعہ سٹی پریس) میں لکھا ہے کہ؛
"گیارہ بج کر پانچ منٹ پر سٹی مجسٹریٹ صاحب، مسٹر احسن تلاتی تشریف لائے اور اپنی مخصوص کرسی پر آکر بیٹھ گئے، اکثر لوگ تعظیماً کھڑے ہوئے، سرکار کی طرف سے مقدمہ کی پیروی مسٹر ٹی جی الفنٹسن نے کی جو پبلک پروسیکیوٹر ہیں۔"
ہمارا خیال یہ تھا کہ غالباً ایلفنٹسن اسٹریٹ کا نام مسٹر ٹی جی ایلفنسٹن کے نام پر رکھا گیا تھا۔ وکی پیڈیا پر اس سڑک کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کا پرانا نام ایلفنسٹن اسٹریٹ ہے، دراصل ایلفنسٹن نے برٹش گورنمنٹ کی جانب سے بمبئی پریذیڈنسی میں بہ حیثیت گورنر اپنی خدمات انجام دی تھیں۔ جب کہ کراچی بھی اس کا ہی حصہ تھا اور 1930 تک بمبئی کے ساتھ رہا۔
1970 میں اس شاہراہ کا نام تبدیل کرکے زیب النساء اسٹریٹ رکھ دیا گیا۔ دراصل یہ نام ایک خاتون کے نام پر رکھا گیا۔ جو 25 دسمبر 1921 کو پیدا ہوئیں۔ یہ پاکستان کی پہلی انگریزی زبان کی کالم نگار، ایڈیٹر اور پبلشر تھیں۔ جن کے نام سے اس شاہراہ کو منسوب کیا گیا۔
تقسیم ہند سے پہلے وہ انڈیا کے متعدد اخبارات میں لکھتی تھیں اور پہلی مسلمان خاتون تھیں جنہوں نے انڈین نیوز پیپرز میں کالم لکھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی کے ایک انگریزی اخبار میں لکھنا شروع کیا۔ نیز انہیں پاکستان کی پہلی خاتون پولیٹیکل کمنٹیٹر کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1940 میں زیب النساء کی شادی محمد حمید اللہ سے ہوئی جو جوتوں کی ایک کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائر تھے۔"
معروف مورخ عقیل عباس جعفری نے ہمیں بتایا کہ وکی پیڈیا میں غلط اطلاعات فیڈ کی جارہی ہیں اور یہ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سڑک کا یہ نام مغل شہزادی زیب النساء کے نام پر زیب النساء اسٹریٹ رکھا گیا تھا۔ اس بات کی تفصیل روزنامہ جنگ نے ہی اپنی 26 مئی 1970 کی اشاعت میں شامل کی تھی۔
اگر اس سڑک کا نام زیب النساء حمید اللہ کے نام پر زیب النساء اسٹریٹ رکھا جاتا تو اس کا نام زیب النساء حمید اللہ اسٹریٹ ہوتا۔ صرف زیب النساء اسٹریٹ نہ ہوتا۔ عقیل عباس جعفری نے ہمیں بھی اس سلسلے میں حکم جاری کیا کہ اس معاملے کی تحقیق کریں ۔ ہم نے اس کا ذکر اپنے ایک مونس دوست سے کیا۔ تو انہوں نے اس سلسلے میں ہماری مدد فرمائی اور بالآخر 26 مئی 1970 کو اس حوالے سے شائع ہونے والی خبر کا متن ہم تک پہنچ گیا۔ جو آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں؛
"ایلفی زیبی ہوگئی"
"کراچی 26 مئی (اسٹاف رپورٹر) -- کراچی شہر کی سب سے با رونق سڑک ایلفنسٹن اسٹریٹ کا نام زیب النساء اسٹریٹ رکھ دیا گیا ہے۔ آج بلدیہ کراچی کی طرف سے اس سڑک پر زیب النساء اسٹریٹ کے بڑے بڑے بورڈ نصب کر دئیے گئے ہیں۔ زیب النساء کے لغوی معنی عورتوں کی زیبائش ہے۔ الفنسٹن اسٹریٹ جسے عرف عام میں ایلفی کہا جاتا ہے۔ ہمیشہ سے خواتین کی شاپنگ کا سب سے بڑا شاپنگ سینٹر رہا ہے۔ ایلفی اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں بوہری بازار وغیرہ میں جو چہل پہل رہتی ہے وہ کسی دوسرے علاقے میں نہیں ہوتی، خیال ہے کہ بلدیہ کی مقررہ کمیٹی نے جب شہر کی سڑکوں کے نام قومی رہنماؤں اور تاریخی شخصیتوں کے نام پر تجویر کیے تو خیال ہے کہ ایلفنسٹن اسٹریٹ کا نام زیب النساء تجویر کرتے وقت دو خیال تھے ایک تو یہ کہ مغل شہنشاہ محی الدین اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی کا نام زیب النساء تھا جو انتہائی حسین ہونے کے ساتھ ساتھ فارسی کی نامور شاعرہ بھی تھیں اور مخفی تخلیق کرتی تھیں۔ ان کے کلام کا مجموعہ دیوان مخفی کی صورت میں موجود ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ علاقہ خواتین کی شاپنگ کا سب سے بڑا مرکز ہے اور یہاں عورتوں کی زیبائش کا ہر سامان مل جاتا ہے۔ چناں چہ کمیٹی نے اس کا نام بھی زیب النساء رکھ دیا۔ واضح رہے کہ الفنسٹن اسٹریٹ کو من چلے لوگ ایلفی کے نام سے یاد کرتے ہیں اس اعتبار سے اگر یہ لوگ ایلفی کو "زیبی" کے نام سے پکارنے لگیں تو یہ کوئی تعجب خیز بات نہ ہوگی۔"
ایلفنسٹن اسٹریٹ کے حوالے سے پیر علی محمد راشدی اپنی یاداشتوں میں مزید لکھتے ہیں کہ؛
"کراچی کی مینڈموں (میموں) سے ہمارے وڈیروں کی روح فنا ہوتی تھی۔ حالاں کہ دیدار عام یہی ہوتا تھا۔ مینڈمیں خاصی تعداد میں ہوتیں۔ صبح شام صدر کی دکانوں کی سیر کیا کرتیں۔ ان کی خاص مار الفنسٹن اسٹریٹ پر ہوتی تھی۔ جہاں ان کی ضرورت کی چیزوں کی دکانیں تھیں۔ دیہات سے آئے ہوئے وڈیرے ان سے بہت خوف کھاتے تھے۔ مبادا کسی میم صاحب سے اچانک سامنا ہوجائے اس ڈر سے بہت سے تو صدر کا رخ ہی نہ کرتے. ان کی سرگرمیاں مولوی مسافر خانے، زمیندار، ہوٹل، سندھ اسلامیہ ہوٹل، جونا مارکیٹ، نیپیئر روڈ کیماڑی اور زیادہ سے زیادہ ہوا بندر تک محدود رہتیں۔
ایک دن میں نے دیکھا کہ ایلفنسٹن اسٹریٹ پر جال بھائی پارسی فوٹو گرافر کی دکان میں جیکب آباد کی طرف سے دو تین طروں والے وڈیرے اپنے آدھ درجن نوکروں چاکروں سمیت گھسے کھڑے ہیں۔ خوف سے نیم جاں، منھ اترے ہوئے۔ آنکھیں وحشت ناک، بال بکھرے ہوئے۔ ہونٹ خشک، زبان تالو سے لگی ہوئی۔ جیسے بکریوں کے گلے نے بھیڑیے کی بوسونگھ لی ہو۔ وہ میرے واقف تھے۔ فوٹو گرافی کے شوق کے باعث میں بھی جال بھائی کی دکان پر اکثر جایا کرتا تھا۔ مجھے گمان ہوا شاید اپنا گروپ فوٹو کھنچوانے آئے ہیں۔ مگر اسٹوڈیو کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے ان میں سے کوئی نہ کوئی ذرا ذرا دیر بعد دروازے میں سے باہر منھ نکال کر سڑک پر دونوں سمت نظر ڈالتا اور جلدی سے لوٹ آتا۔ یہ روش مجھے کچھ عجیب معلوم ہوئی۔ میں نے جال بھائی کے بیٹے سے پوچھا۔ اس نے بتایا کہ ان بیچاروں نے پاس کی دکانوں میں چند میڈموں کو چڑھتے دیکھ لیا ہے جن سے ڈر کر یہاں آچھپے ہیں۔ میں نے آگے بڑھ کر بڑے وڈیرے سے پوچھا۔ فوٹو کھنچوانے میں اتنی دیر کیوں لگارہے ہیں؟
بولے: فوٹو جائے جہنم میں، ہماری جان پر بنی ہوئی ہے۔
میں نے کہا: خیر تو ہے؟
کہنے لگے: خیر کہاں! بازار آئے تھے، چمڑے کے صندو ق، بیگ اور بستر بند خریدنے تھے۔ اچانک دیکھا کہ مینڈمیں چلی آرہی ہیں۔ ان کے ڈر سے اس دکان میں آکر پناہ لی ہے۔ یہ مینڈمیں رخصت ہوں تو ہم یہاں سے نکلیں۔
مگر مینڈموں سے آپ کو کیا ڈر ہے؟ وہ آپ کو کیا کہیں گی؟
شاہ صاحب خبر نہیں کس جورپی (یورپی) ہفیسر (آفیسر) کے گھر کی عورتیں ہیں۔ سنا ہے کمشنر، کلٹر (کلکٹر ) کمانی (کمانڈر) اور دوسرے بڑے ہفیسروں (افسروں) کے بنگلے پاس کے علاقے میں ہیں۔ اگر ہمارا یوں ٹولی بنا کر گھومنا کسی مینڈم صاحب کو نہ بھایا تو ہمیں بندھا کر زیل (جیل) بھجوا سکتی ہیں۔ کاراچی (کراچی) گھومنے کے شوق میں خواہ مخواہ قید کاٹنی پڑے، اس لیے شیروں اور بھیڑوں سے دور رہنا ہی بھلا۔ یہ بات مئی 1924 کی ہے۔ مہینے بھر بعد نئے خطابوں کا اعلان ہوا۔ اس وڈیرے کو خان بہادر کا خطاب ملا۔
اب یہ فیصلہ آپ کریں کہ یہ سڑک بمبئی کے سابق گورنر الفنسٹن کے نام پر ہے یا انگریز سرکاری کے وکیل ٹی جی الفنسٹن کے نام پر۔ نام تبدیل ہونے کے بعد یہ اورنگزیب کی بیٹی شہزادی زیب النساء کے نام پر ہے یا زیب النساء حمید اللہ کے نام پر ہے۔
جو بھی ہو، اب یہ سڑک پیر علی محمد راشدی یا کراچی کے دیگر پرانے باسیوں کی آئیڈیل سڑک نہیں ہے، اب تو یہاں مستقل ٹریفک جام رہتا ہے، وہ فٹ پاتھیں جن پر کبھی انگریز میمیں اسکرٹ پہن کر گشت کرتی تھیں ان پر جرابیں، انڈر وئیر، بنیانیں اور پرانی شرٹیں بیچنے والوں کا قبضہ ہے ۔ سڑک پر اکثر دکانیں جوتوں کا کاروبار کرنے والوں کی ہیں اور سال میں اکثر و بیشتر ان دکانوں پر رعایتی سیل بھی لگائی جاتی ہے۔
سرکاری ریکارڈ میں ایلفنسٹن اسٹریٹ زیب النساء اسٹریٹ ہوگئی اور مختلف دکانوں پر پتہ بھی زیب النساء اسٹریٹ ہی لکھا ہے لیکن ایک نجی بینک کی برانچ پر پتہ الفنسٹن اسٹریٹ لکھا ہوا ہے۔ بہت سے لوگ آج بھی اس سڑک کو اس کے سابقہ مختصر نام 'ایلفی' سے ہی یاد کرتے ہیں۔
اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔