نقطہ نظر

خلافت، ابن سعود اور ریشمی رومال

ابن سعود نے آتے ہی مقدس مزارات کو گرانے کا حکم دے ڈالا تو مولانا عبدالباری نے ان کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا

ِٰ

مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور تحریک خلافت کے بارے تو سب ہی جانتے ہیں اور یہ بھی کہ مولانا محمد علی کے گرو مولانا عبدالباری فرنگی محلی تھے۔

مولانا عبدالباری اس سلسلہ کی کڑی تھے جنھوں نے "درس نظامی" بنا کر برصغیر بھر میں نام کمایا تھا۔ مولانا نظام الدین کے نام پر بنایا گیا یہ تعلیمی بندوبست قدامت و جدت کا حسین امتزاج تھا کہ اک عرصہ تک برصغیر کے مسلمان درس نظامی ہی سے فیض یاب ہوتے رہے۔

اس خاندان پر آفت پڑی تو آخری مغل تاجدار اورنگ زیب عالمگیر نے انہیں اک سکاٹش تاجر سے خالی کروایا گیا محل یا حویلی دے دی۔ بس اس کی مناسبت سے انھیں 'فرنگی محلی' پکارا جانے لگا۔

ان کے قائم کردہ مدارس میں نہ صرف آخری چہار شنبہ، شب برات، عید میلاد النبی وغیرہ کی چھٹیاں دی جاتی تھیں بلکہ مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ منطق، فلکیات اور حساب جیسے علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔

18ویں صدی میں انگریزی زبان سیکھنے کی مہم شروع کرنے والے اولین مذہبی علماء یہی تھے کہ رواداری اور جدت سے ان کا خاص تعلق تھا۔ البتہ اشراف (Elite) سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان میں بلھے شاہ یا احمد رضا والی عوامیت عنقا رہی۔

انہی مولانا باری نے 20ویں صدی کی دوسری دہائی کے ابتدائی سالوں یعنی 1912 تا 1914 میں مکہ میں مزارات مقدسہ کو گرانے کے خلاف پہلے بزم صوفیاء ہند اور بعد میں انجمن خدام کعبہ بنا کر نام کمایا تھا۔ مولانا نہ صرف ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کے دل سے طرفدار تھے بلکہ مزاروں کی تکریم کو بھی مقدم جانتے تھے۔

نومبر 1919 میں جب سلطنت عثمانیہ کو بچانے کے لیے آل انڈیا خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس پنجاب کے شہر امرتسر میں ہوا تو مولانا اس میں پیش پیش تھے۔ خلافت کمیٹی اک متحدہ محاذ تھا جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء شامل تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب پہلی جنگ عظیم کے دوران افغانستان کو مرکز بنا کر ترکوں اور جرمنوں کی مدد سے انگریزوں کو نکالنے کی مہم ناکام ہو چکی تھی۔ اس مہم کا الزام دارالعلوم دیوبند کے سینئر رہنما مولانا محمودالحسن پر لگا جنہوں نے نہ صرف جمعیت الانصار بنا رکھی تھی بلکہ مولانا عبیداللہ سندھی 1915 میں انہیں کے حکم پر کابل گئے تھے۔

کابل میں مولانا سندھی ترکوں اور جرمنوں کی مدد سے بنائی جانے والی "عبوری حکومت ہند" کے وزیر رہے جس کے صدر راجہ مہندر پرتاب، وزیراعظم مولوی برکت اللہ اور وزیر مولانا محمد علی قصوری تھے۔

یہ دسمبر 1915 کا واقعہ تھا۔ یہ مسلح جدوجہد 1916 میں اس وقت ناکام ہوئی جب ملتان میں انگریز سرکار کو اس بارے میں شواہد ملے۔ تاریخ میں اسے "ریشمی رومال تحریک" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

جمعیت علماء ہند کی ویب سائٹ کے مطابق اس سازش کے افشا ہونے کے بعد دارالعلوم دیوبند سے وابستہ 222 علماء بشمول مولانا محمودالحسن گرفتار کر لیے گئے۔ تاہم اپریل 1919 میں جلیانوالہ باغ کے واقعہ نے پنجاب ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں رولٹ ایکٹ کے خلاف عوامی جذبات بھڑکا دیے۔

انہی حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نومبر 1919 میں تحریک خلافت کے حوالہ سے ایک نیا متحدہ محاذ بنایا گیا۔ مولانا عبدالباری نے اس تحریک کی قیادت کے لیے اپنے ہونہار شاگرد کا انتخاب کیا اور اسے مدرسہ نظامیہ سے ”سند“ دلوا کر محمد علی سے مولانا محمد علی بنا دیا۔ یہ وہی مولانا محمد علی جوہر تھے جو بعدازاں تحریک خلافت کے روح رواں قرار پائے۔

1920 میں مولانا عبدالباری نے تحریک ہجرت کے حق میں فتویٰ دیا اور پھر اسی سال مہاتما گاندھی کی تحریک "عدم تعاون" کے لیے سرگرم رہے۔ 1920 ہی وہ سال ہے جب مولانا عبدالباری تحریک خلافت میں شامل کچھ علماء کے ساتھ مل کر جمعیت علماء ہند بنانے میں آگے آگے تھے۔

1922 میں جب مہاتما گاندھی نے "چورا چوری" کے واقعہ کو بنیاد بنا کر کسی رہنما سے مشورہ کے بغیر تحریک یکدم ختم کر ڈالی تو مہاتما کے اس غیر جمہوری طرز عمل کے خلاف سب سے بلند آواز مولانا عبدالباری ہی کی تھی۔ خود آل انڈیا کانگرس بھی گاندھی کے اس طرزسیاست کی وجہ سے تقسیم ہوئی اور موتی لعل نہرو، سی آر داس وغیرہ نے کانگرس چھوڑ کر "سوراج پارٹی" بنا لی۔

1924 وہ سال ہے جب حجاز (مکہ) میں ابن سعود اور 'شریف مکّہ' میں حجاز پر حکومت بنانے کی لڑائی آخری مرحلہ میں داخل ہو گئی۔ کچھ علاقوں پر ابن سعود نے حکومت بنا کر اقتداراعلیٰ کا اعلان کر دیا۔ یوں جمعیت علماءہند اور خلافت کمیٹی میں نئی بحث شروع ہو گئی۔

مولانا عبدالباری ابن سعود کی حکومت کو تسلیم کرنے کے خلاف تھے۔ مولانا سمجھتے تھے کہ سلطنت عثمانیہ کو انگریز برباد کرنا چاہتے ہیں اس لیے اس سلطنت کو توڑ کر نئے نئے ممالک بنا رہے ہیں کہ جن میں سے ایک وہ ملک ہے جس کی بنیادیں ابن سعود رکھ رہا ہے۔

سونے پر سہاگہ یوں چڑھا کہ ابن سعود نے آتے ہی مقدس مزارات کو گرانے کا حکم دے ڈالا تو مولانا نے ان کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔

فرانسس روبنسن نے اپنی انگریزی کتاب "جنوبی ایشیائی اسلام اور علما فرنگی محل" مطبوعہ فیروز سنز لاہور میں اس واقعہ کی تفصیلات لکھی ہیں؛

مولانا عبدالباری کا خیال تھا کہ خلافت کمیٹی کا روح رواں تو ان کا شاگر عزیز ہے اور بھلا مولانا محمد علی جوہر کیونکر اپنے گرو کے خلاف جائے گا۔ بس یہ بحث زوروشور سے چلی اور پھر فیصلہ کی گھڑی بھی آ گئی۔

مولانا کو اپنے شاگر پر مان تھا مگر فیصلہ ان کی توقعات کے برعکس نکلا۔ مولانا اپنے گھر پر تھے جب انھیں یہ خبر ملی کہ شاگرد کا فیصلہ استاد کے مسلک کے خلاف ہے۔ یہ خبر مولانا پر بجلی بن کر گری اور دل کا دورہ پڑنے سے مولانا اجل کو چل دیے۔

مولانا محمد علی جوہر کو جب مولانا کی رحلت کی خبر ملی تو وہ سکتہ میں آگئے۔ بقول رابنسن، محمد علی جوہر استاد کی قبر پر پہنچے اور تین دن ان کی قبر کے سرہانے بیٹھے روتے رہے۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت، کہ یہ غم تادم مرگ مولانا کی زندگی کا حصہ رہا۔

عامر ریاض

عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔