تعصب، منافقت اور خودپسندی
ہماری قومی اسمبلی نے عبدالقادرمُلّا (بنگالی شہری، بنگالی سیاسی لیڈر، جسے بنگلہ دیشی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل میں مقدمے کے فیصلے اور بنگلہ دیش سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل کے بعد پھانسی دی گئی تھی) کی سزا کی مذمت کی ہے- انہوں نے بنگلہ دیش سے "مطالبہ" کیا ہے کہ "1971 کے معاملات کو نئی زندگی نہ دی جائے اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے لیڈروں کے خلاف تمام مقدمات کا سلسلہ بند کیا جائے"
اپنی اس حرکت سے ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان میں جتنے بھیانک جرائم کئے ہیں نہ صرف یہ کہ ہمیں ان پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے بلکہ اس تعصّب پر بہت مطمئن اور خوش ہیں-
تین تاریخی حقیقتیں ایسی ہیں جن کا دستاویزی ثبوت موجود ہے-
اول، ہم نے بنگالیوں کے ساتھ 1947 سے لیکر 1971 تک اتنا برا برتاؤ کیا کہ اس کے نتیجے میں پاکستانیوں کی 'اکثریت' مغربی پاکستان کی 'اقلیت' سے پرتشدد جدوجہد کے ذریعہ "آزادی" طلب کرنے پر مجبور ہوگئی، جو بنگلہ دیش کی تخلیق کا سبب بنا-
دوم، چاہے وہ عوامی لیگی باغی ہوں، ہندوستان نے ان کو مکتی باہنی کے طور پر تربیت دی ہو، یا فوج میں موجود بنگالی، پیرا ملٹری اور پولیس کے جوان جنھوں نے پاکستان کے خلاف 1971 میں ہتھیار اٹھائے، بنگال کی آزادی کیلئے لڑنے والوں نے بہاریوں، غیر بنگالیوں اور خصوصاً فوجیوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ نہایت سفاکی اور اذیت رسانی کا سلوک کیا-
اور سوئم، جو برتاؤ بنگالیوں کے ساتھ پاکستانی فوج، اس کی سرپرستی میں اور اس کے پروردہ پرائیویٹ ملیشیا (البدر، الشمس اور رضاکار) نے حکومت کی حکمرانی قائم کرنے کے نام پر، مشرقی پاکستان میں 1971ء میں کیا وہ نفرت انگیز، وحشیانہ اور انسانیت سے عاری تھا-
یہ پوچھنا کہ یہ بربریت اور قتل و غارت گری کس نے شروع کی یا یہ کہ مکتی باہنی بداخلاقی اور خباثت کی زیادہ مرتکب تھی یا پاکستانی فوج، تو ہم اس بات کی آج توثیق کرسکتے ہیں کہ وہ تعصب اور منافقت سے بھری سوچ جس کی بنا پر 56 فیصد پاکستانیوں نے اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے بنگلہ دیش تشکیل کیا وہ سوچ آج بھی پاکستان میں پھل پھول رہی ہے-
یہ بات صرف اس وجہ سے پریشان کن نہیں ہے کہ اسمبلی کی اس قرارداد کی وجہ سے بنگلہ دیش سے تعلقات خراب ہوجائینگے اور ان کے غصّے کو اور شہہ ملیگی جو ان میں ہمارے خلاف پہلے سے موجود ہے، بلکہ یہی سوچ بلوچستان میں آگ بھڑکانے کی اور بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی کی بھی ذمہ دار ہے-
اگر کسی ملک کے شہری اپنی ریاست یا اپنے ہموطنوں کے خلاف سّفاکانہ کاروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں تو کیا ریاست کو بھی جواب میں انتقامی کارروائی نہ صرف مجرموں بلکہ انکی نسلی شناخت رکھنے والے تمام لوگوں کے ساتھ بلا امتیاز کرنی چاہئے؟
مشرقی پاکستان میں 1971ء میں سویلین آبادی کی دکانوں کی لوٹ مار کے بارے میں حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ جنرل نیازی کے کمانڈ سنبھالنے کے پہلے ہی دن کے احکام کا حوالہ دیتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا؛
"میں راشن کی کمی کے بارے میں کیا سن رہا ہوں؟ کیا اس ملک میں گائے یا بکریاں نہیں ہیں؟ یہ دشمن کا علاقہ ہے جو جہاں سے ملتا ہے حاصل کرلو- یہی ہم برما میں بھی کرتے تھے"-
جنرل نیازی (عرفیت 'مشرقی پاکستان کا قصائی') نے حمودالرحمٰن کمیشن کی رپورٹ میں بنگالیوں کے خلاف بہیمانہ جرائم کے ارتکاب کو یوں تسلیم کیا ہے کہ کمانڈ سنبھالنے کے چار دن کے بعد انہوں نے کہا "لوٹ مار، عورتوں کی بے حرمتی اور لوگوں کا بلا جواز قتل عام بالکل بند ہونا چاہئے"-
ایک دوسرے شاہد، لفٹننٹ کرنل منصورالحق نے کمیشن کو بتایا، "ایک بنگالی جس کے بارے میں شبہہ تھا کہ وہ مکتی باہنی یا عوامی لیگی ہے، خفیہ الفاظ میں بغیر مقدمہ چلائے ختم کردینے کو کہا گیا تھا --- بغیر تفصیلی جانچ پڑتال کے، بغیر کسی حکم نامے کے اور بغیر کسی قانونی اختیار کے"-
بریگیڈیر کرّار علی آغا نے پڑھنے کے لائق ایک تحریر (Witness to Carnage 1971) میں تفصیل کے ساتھ ان واقعات کا ذکر کیا ہے جن کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا، اس میں بنگالی حریت پسندوں اور پاکستانی فوج دونوں کے جرائم کا تذکرہ ہے- جہاں انہوں نے ان جرائم کا تذکرہ کیا ہے جو پاکستانی فوج نے انتقامی کارروائی کے طور پر بنگالیوں کے پہلے کئے ہوئے مارچ 1971ء کے جرائم کے جواب میں کیا تھا، یہ قصے دماغ کو سن کردیتے ہیں-
وہ بتاتے ہیں؛"کئی افسروں کو راتوں کو لوگوں کے گھروں پر دھاوے کرکے جو لڑکی پسند آتی اسے اٹھا کر لے آنے کا کام دیا گیا تھا"- جب ایک ایسی رپورٹ (کہ ایسٹ پاکستان رائفلز کے ایک عہدیدار نے بنگالی عورتوں کے ساتھ غیر فطری عمل کیا تھا) کرنل فضل حمید ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل ایسٹ پاکستان رائفلز کے علم میں لائی گئی تو، "ان کا غصّے سے بھرا ردعمل صرف یہ تھا کہ ریپ تو ان حالات میں سمجھ میں آتا ہے لیکن، عورتوں کے ساتھ غیر فطری عمل واقعی شرمناک بات ہے"-
آغا بتاتے ہیں کہ فوج کے اعلیٰ افسروں کی ایک میٹنگ میں جو 30 دسمبر 1970ء کو منعقد ہوئی تھی، جب انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ملٹری ایکشن کی صورت میں ای پی آر(EPR) میں اور فوج میں جو بنگالی افسران اور سپاہی ہیں وہ بغاوت کرسکتے ہیں، تو بریگیڈیر غلام جیلانی خان (بعد میں گورنر پنجاب) نے ٹھیٹ پنجابی میں یہ سنہرے الفاظ کہے؛
"ارے آغا صاحب، آپ فکر ہی نہ کریں جی، ہم ان کی ماؤں کو _____ دینگے، ہم ان کی بہنوں کو ____ دینگے!"
کیا بنگالیوں کودشمن کے طور پرعزت نفس اور اپنے بنیادی حقوق کے جذبے سے محروم دیکھنا اور ان سے ایسا سلوک کرنا درست تھا- اگر وہ ریاست سے بغاوت بھی کررہے تھے؟
ان سب باتوں کے باوجود، پاکستان نے اپنے مشرقی حصّے میں جو کیا وہ ناقابل معافی ہے-
ملا کی پھانسی کے پر پاکستان کا ردعمل بالکل غلط ہے کیونکہ ہم خود کوئی معصوم تماشائی نہیں ہیں کہ جن کی اخلاقی ذمہ داری ہو کہ ہم مُلّا کی سزا پر اپنے فیصلے سنائیں- مُلّا کو سزا پاکستان سے محبت کی بنا پر نہیں ہوئی ہے، بلکہ اپنے ہموطن بنگالیوں کو قتل کرنے اور ان کی بے حرمتی کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے، چاہے یہ سب اس نے پاکستان کے نام پر کیا ہو-
ہماری عزت اور انصاف کیلئے اتنی چاہت اس وقت کہاں تھی جو ایک غیرملکی کیلئے اس وقت ہے، جب 1971ء میں ہماری حکومت ہمارے اپنے ہزاروں لوگوں کا نام و نشان مٹانے پر تلی ہوئی تھی؟
بنگالیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ ہمارا کیا حق بنتا ہے کہ ہم بنگالیوں کو لکچر دیں کہ ان کو بھی تحمل کے ساتھ جنوبی افریقہ کے طرز پر ایک سچائی اور مفاہمت کا رویہ اپنانا چاہئے بجائے اس کے کہ ایک فاتح کا انصاف نافذ کریں؟ (جیسا کہ ہم نے 1971 میں کیا تھا-) بنگلہ دیش نے کسی پاکستانی کو نہیں بلکہ اپنے ایک شہری کو پھانسی دی ہے-
چاہے مُلّا نے وہ جرائم کئے ہیں یا نہیں، یا وہ انتقام کا نشانہ بنا ہے، یہ فیصلہ کرنا بنگلہ دیش اور اس کے عوام پر ہے- ہمیں تو اپنے ماورائے عدالت قتل اور انصاف کے معیار کے بارے میں پریشان ہونا چاہئے بجائے اس کے کہ ہم دوسرے ملکوں کے انصاف کے نظام کو برا بھلا کہیں-
ترجمہ: علی مظفر جعفری