نقطہ نظر

کون سے قائد اعظم؟

آپ کا کوئی بھی مذہب، ذات یا مسلک ہو سکتا ہے۔ ریاست کے امور کا اس سے کوئی تعلق نہیں -- قائد اعظم محمّد علی جناح


پچھلے ہفتے ایڈیٹر صاحب نے فرمان صادر کیا کہ اختر بھائی قائد اعظم کا یوم پیدائش قریب آرہا ہے، اس بار کی قسط 'مزار قائد' پر ہوجاۓ. ہم نے بھی حامی بھرلی بلکہ تھوڑی شرمندگی بھی ہوئی کہ اتنے دن ہوگئے بابا جی کی خدمت میں حاضری کی فرصت ہی نہ مل پائی.

ہمارے بچپن میں قائد اعظم کا مزار ایک ایسا مقام تھا جہاں کم سے کم وقت اور پیسوں میں پہنچا جاسکتا تھا۔ شروع میں تو داخلے کی کوئی فیس نہ تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ نہ صرف فیس ادا کرنی پڑی بلکہ اب تو خاندان کے ہر فرد کے لیے ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔ جیسے ہی آپ پیدل یا اپنی گاڑی میں مزار کے احاطے میں داخل ہوں گے، آپ کے ہم راہ تمام لوگوں کی گتنی کی جائے گی اور ہر فرد کے حساب سے 20 روپے کا ٹکٹ دیا جائے گا۔ موٹر سائیکل کھڑی کرنے کی فیس 20 روپے ہے جبکہ دیگر گاڑیوں کے علیحدہ علیحدہ ریٹس ہیں۔

پارکنگ ایریا میں ایک بورڈ بھی نصب ہے جس پر واضح طور پر لکھا ہے کہ گاڑی میں کسی ٹوٹ پھوٹ کی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد نہ ہوگی۔ جب آپ واپس لوٹیں گے تو واپسی کے گیٹ پر موجود اہل کار آپ سے ٹکٹ واپس لے لیں گے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ہم نے اہل کار کو بتایا کہ یہ ٹکٹ ہمیں دفتر جمع کروانے ہوں گے۔ اہل کار نے ناخوش گوار لہجے میں پوحکا کیوں؟ ہم نے کہا کہ اوّل تو پیسے لینے ہیں۔ دوم اس بات کی سند رہے کہ ہم یہاں آئے تھے۔ اہل کار نے داخلہ اور پارکنگ ٹوکن کے کونے پھاڑ کر ہمیں لوٹادئیے۔

بہرحال ہم نے مزار قائد پہنچنے کے لیے مرکزی راستے کے بہ جائے اس سے متصل ایک اور راستہ اختیار کیا۔ لیکن چند ہی لمحوں بعد اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔

یہ ایک انتہائی ناہموار اور بے ترتیب راستہ تھا۔ خیر ہم مزار قائد کے مرکزی دروازے پر پہنچ گئے اس وقت شام کا وقت ہوچکا تھا۔ مزار پر تعینات گارڈز معمول کے مطابق پاکستانی پرچم اتار رہے تھے۔

ہم اس کاروائی کی تصویریں بنا رہے تھے کہ اچانک زور زور سے سیٹی بجنے کی آواز سنائی دی۔ دیکھا تو ایک باریش عمر رسیدہ شخص چند لوگوں کو اشارے سے بلا رہا تھا. ہم تصویریں بنا چکے تھے، سوچا دیکھیں ماجرا کیا ہے۔ بحث ہورہی تھی۔ طلب کیے جانے والے افراد نے پوچھا کیا مسئلہ ہے، اس نے کہا جوتے جمع کراؤ اور ٹوکن لو (ٹوکن کے معنی ہیں پیسے دو) اس نے کہا اور تم خود جو جوتے پہن کر یہاں کھڑے ہو کیوں تو اس نے کہا "ہمارا مرضی". خیر دو ایک لوگوں نے بیچ میں پڑ کر معاملہ نمٹادیا۔ اچانک میرے عقب میں کوئی سرگوشی میں بولا نوٹ پر تو قائد اعظم چھاپ دیا۔ اس کمائی سے دل نہیں بھرا اب یہ کمائی کر رہے ہیں۔ میں یہ ہی سوچ رہا تھا کہ قائد اعظم کے ساتھ ہم نے کیا کیا ہے۔

کمال کی بات یہ ہے کہ مزار قائد کی تعمیر کا نقشہ بھی ایک ہندوستانی آرکیٹیکٹ کا بنایا ہوا ہے۔ مزار کے لیے کل چار نقشے تیار کیے گئے تھے اور ان چاروں میں سے کوئی آرکیٹیکٹ بھی پاکستانی نہ تھا۔ ایک نقشہ ترک آرکیٹیکٹ اے واصفی ایگلی، دوسرا ہندوستانی آرکیٹیکٹ نواب زین یار جنگ اور تیسرا برطانوی آرکیٹیکٹ راگلن اسکوائر نے تیار کیا تھا۔ یہ تینوں نقشے رد کر دئیے گئے۔ بالآخر دسمبر 1959 میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی خواہش پر نقشے کی تیاری کا کام ایک اور ہندوستانی آرکیٹیکٹ یحییٰ مرچنٹ کو دیا گیا۔

معروف صحافی غلام محی الدین اپنے ایک مضمون میں مزار کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مزار کے ڈیزائن کا بنیادی کام 28 جنوری 1960 کو مکمل ہوگیا تھا۔ تعمیراتی کام کا باقاعدہ آغاز 8 فروری 1960 کو ہوا.

31 جولائی 1960 کو اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے مزار کا سنگ بنیاد رکھا 31 مئی 1966 کو مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل ہوکے 12 جون 1970 کو عمارت کو سنگ مرمر سے آراستہ کرنے کا کام پاۓ تکمیل کو پہنچا۔ 23 دسمبر 1970 کو چین کے مسلمانوں کی جانب سے بطور تحفہ بھیجا گیا 81 فٹ لمبا فانوس گنبد میں نصب کیا گیا.

مزار کی تعمیر پر ایک کروڑ 48 لاکھ روپے کی لاگت آئی جو اس زمانے میں ایک خطیر رقم تھی۔ مزار کا کل رقبہ 116 ایکڑ مرکزی رقبہ 61 ایکڑ اطراف کے 55 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ مزار کے 5 دروازے ہیں، ایم اے جناح روڈ پر واقع دروازے کا نام باب جناح، شاہراہ قائدین پر واقع گیٹ کا نام باب قائدین، مشرقی جانب واقع دروازے کو باب تنظیم، شمالی جانب واقع گیٹ کو باب امام اور پرانی نمائش پر واقع گیٹ کو باب اتحاد کا نام دیا گیا ہے۔

مزار کے مشرقی حصے میں ایک کمرے کے اندر پانچ قبریں ہیں۔ مزار قائد پر فاتحہ خوانی پر جانے والوں کی اکثریت اس کمرے تک نہیں پہنچ پاتی، اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کمرے میں جانے پر اور وہاں موجود قبروں پر فاتحہ خوانی کرنے کی پابندی ہے بلکہ لوگوں کی ان قبروں کی وہاں موجودگی کے بارے میں لا علمی ہے۔ یہ قبریں معمولی افراد کی نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے سیاسی سفر میں شریک رفقائے کار کی ہیں۔

ان میں سب سے پرانی قبر لیاقت علی خان کی ہے، دوسری قبر سردار عبدالرب نشتر کی ہے، تیسری قبر محترمہ فاطمہ جناح کی ہے، چوتھی قبر محمد نورالامین کی ہے اور پانچویں بیگم رعنا لیاقت علی خان کی ہے۔ رعنا لیاقت علی خان کی قبر کے علاوہ باقی چار قبروں پر کتبے بنگالی زبان میں بھی درج ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر پاک و ہند کی وہ شخصیت تھے کہ جن کی پیدائش سے لے کر وفات تک ہر شخص نے ان کی تاریخ پیدائش، جائے پیدائش، شادی مذہب کے بارے میں اپنے اپنے انداز میں لکھا ہے۔

حالیہ دور میں پاکستان کی درسی کتابوں میں ان کی جائے پیدائش وزیر مینشن کراچی لکھی جاتی ہے۔ لیکن ماضی کی درسی کتابوں میں ان کی جائے پیدائش ضلع ٹھٹھہ کا ایک علاقہ جھرک لکھا گیا ہے۔

مٹھی بائی اور جناح بھائی پونجا کے سات بچوں میں محمد علی جناح سب سے بڑے تھے ان کے تین بھائی احمد علی، بندے علی اور رحمت علی تھے جبکہ تین بہنیں مریم، فاطمہ اور شیریں تھیں۔ سندھ مدرسۃ الاسلام کے ریکارڈ میں انکا نام محمد علی جناح بھائی اور شہر پیدائش کراچی درج ہے۔

جناح صاحب کی پرائمری تعلیم کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں لیکن ٹھٹھہ ضلع کے گاؤں جھرک کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ وہاں پیدا ہوئے۔ واضح رہے کہ سندھ کے قدیم ترین پرائمری اسکولوں میں سے ایک جھرک میں واقع ہے جو کہ سندھ مدرسۃ الاسلام سے بھی 15 برس پہلے قائم ہوا اور ابھی تک چل رہا ہے۔

جھرک کے بزرگ شہریوں کا دعویٰ ہے کہ جناح نے پرائمری تعلیم وہیں حاصل کی اور یہ بھی کہ اسکول کے ریکارڈ میں اس کی تاریخ پیدائش 20 اکتوبر 1875ء درج تھی۔ یہ ریکارڈ مبینہ طور پر 1960ء کے بعد حیدرآباد ڈویژ ن کے کمشنر نے اپنی تحویل میں لے لیا جو کہ آج تک واپس نہیں کیا گیا۔

یہ ون یونٹ کا دور تھا جب لوگوں کی شناخت، زبانوں، صوبائی حدود اور حتیٰ کہ ملک کے دارالخلافہ اور حلیے تک کو تبدیل کیا جارہا تھا۔ ون یونٹ پروجیکٹ کی تکمیل کے لئے تاریخ کو تبدیل کرنا بہت ضروری تھا چنانچہ سب کچھ ازسر نو تیار ہورہا تھا۔ خدا خدا کرکے ون یونٹ پورا ہوا تو ملک آدھا رہ گیا۔

1960ء تک کی جو کتابیں اور دستاویزات تلف ہونے سے بچ گئیں ان میں جناح صاحب کی کوئی واضح تاریخ پیدائش تو درج نہیں البتہ کہیں کہیں یہ کہا گیا ہے کہ وہ "کوئی پونے ایک سو برس قبل"‘ جھرک کے قریب کسی چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔

اگست 1960ء میں سندھی ادبی بورڈ کے زیر اہتمام شائع کردہ سندھی زبان میں ساتویں جماعت کی نصابی کتاب کا "دوسراسبق"‘ قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے والد ایک غریب تاجر تھے۔ اسی سبق میں مزید یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جناح "سیٹھ نور محمد لالن والوں سے تین ہزار روپے قرض لے کر ولایت میں بیریسٹری پڑھنے کے لئے گئے تھے۔"

اب آتے ہیں ایک اور معاملے کی جانب؛ وہ ہے قائداعظم کی تقاریر کا جن میں ایک جانب تو وہ سیکولر نظر آتے ہیں جب کہ دوسری جانب مذہبی۔

14 اگست کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائداعظم کو بہ حیثیت پہلے گورنر جنرل پاکستان کے اختیارات منتقل کیے تھے۔ گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے 11 اگست 1947کو اس وقت کی قانون ساز اسمبلی سے جو خطاب کیا تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ پاکستانی ریاست کی بنیاد سیکولر ہوگی۔

'لبرل فورم پاکستان' کی شائع کردہ "قائداعظم کا دستور ساز اسمبلی سے خطاب" مطبوعہ اگست 2012 کے صفحہ نمبر 11 اور 12 پر اس خطاب کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے؛

"آپ آزاد ہیں، آپ مکمّل آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں۔ آپ کو پوری آزادی ہے کہ اپنے مسجدوں کا رُخ کریں یا پاکستان کی ریاست میں جو بھی آپ کی عبادت گاہیں ہیں ان میں آزادی سے جائیں۔ آپ کا کوئی بھی مذہب، ذات یامسلک ہو سکتا ہے۔ ریاست کے امور کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔"

اس حوالے سے اس خطاب میں انہوں نے مزید فرمایا؛

"اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ میں یہ بات مذہبی معنوں میں نہیں کہہ رہا ہوں، کیوں کہ یہ تو ہر فرد کے نجی عقیدوں کا معاملہ ہے۔ بلکہ ریاست کے باشندے ہونے کی بنا پر سیاسی معنوں میں۔"

11 اگست 1947 کی اس تقریر سے مذہبی جماعتوں کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ جناح پاکستان کو ایک غیر مذہبی، آزاد اور روشن خیال ملک بنانا چاہتے ہیں۔ یہ جماعتیں جناح صاحب کو نہ تقسیم سے قبل سمجھ پائیں تھیں نہ بعد میں۔ اگر یہ جماعتیں صرف قائداعظم کی دوسری شادی اور ان کی بیٹی کی پسند کی شادی پر غور کرتیں تو شاید ان کی سمجھ میں بات آجاتی۔ معروف محقق عقیل عباس جعفری اپنی کتاب 'قائد اعظم کی ازدواجی زندگی' کے صفحہ نمبر 39-40 پر لکھتے ہیں؛

"دارجیلنگ واپس آنے کے بعد ایک شام محمد علی جناح سر ڈنشاپیٹٹ کے پاس پہنچے اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ان سے پوچھنے لگے۔ 'مختلف فرقوں کے افراد کے مابین شادیوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟' سر پیٹٹ نے جو صورت حال سے بالکل بے خبر تھے بہت زور دے کر اپنی رائے کا اظہار کیا کہ 'ایسی شادیوں سے قومی یگانگت اور یکجہتی میں خاصہ اضافہ ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ انجام کار یہی شادیاں فرقہ وارانہ منافرت کا آخر حل ثابت ہوں'۔ جناح اس سے بہتر جواب کی توقع نہیں کر سکتے تھے۔ ا نھوں نے بحث پر مزید الفاظ ضائع کیے بغیر اپنے بوڑھے دوست سے دو ٹوک الفاظ میں کہا 'میں آپ کی بیٹی سے شادی کا آرزو مند ہوں'. سر ڈنشا سکتے میں رہ گئے، ان کو اندازہ نہ تھا کہ ان کی رائے کے خود ان کی ذات پر کوئی اثرات مرتب ہوں گے۔ انھیں سخت طیش آگیا اور ایسی کسی بات کو سوچنے تک سے انکار کر دیا جو ان کے نزدیک لغو اور مضحکہ خیز تھی"۔ لیکن جب قائد اعظم کی بیٹی دینا نے ایک پارسی سے شادی کرنا چاہی تو انہوں نے بھی سراسر انکار کر دیا۔

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ 11 اگست والی تقریر کے فقط 6 ماہ بعد 25 جنوری 1948 کو اپنے اعزاز میں بار ایسوسی ایشن کراچی کی جانب سے دیئے گئے استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی، انہوں نے فرمایا کہ آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح 13 سو برس پہلے۔

گورنر جنرل پاکستا ن نے فرمایا کہ کچھ لوگ اس پروپیگینڈے سے گمراہ ہو گئے ہیں، میں انھیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ نا صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے، کسی کو جمہوریت، مساوات اور حریت سے خوف زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے جبکہ وہ دیانت کے اعلیٰ ترین معیار پر مبنی ہو اور اس کی بنیاد ہر شخص کے لیے انصاف اور عدل پر رکھی گئی ہو۔ (قائد اعظم محمد علی جناح تقاریر و بیانات بہ حیثیت گورنر جنرل پاکستان 1947-48، شائع کردہ حکومت پاکستان وزارت اطلاعات و نشریات اسلام آباد)۔

قائد اعظم کی زندگی کا ایک اور تنازعہ یہ ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازیں کس کی امامت میں ادا کی تھیں۔ ایک طبقے کی رائے یہ ہے کہ ان نمازوں کی امامت معروف مذہبی و سیاسی رہنما شاہ احمد نورانی کے والد شاہ عبدالعلیم صدیقی نے کی تھی جب کہ اس وقت کی تصویروں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امامت علامہ ظہور الحسن درس نے کی تھی۔

عیدالاضحی کی نماز کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ نماز کا وقت ہوگیا لیکن گورنر جنرل کو آنے میں کچھ تاخیر تھی۔ گورنر جنرل کے عملے نے علامہ ظہور الحسن درس سے درخواست کی کہ نماز میں کچھ منٹ کی تاخیر کی جائے تاکہ گورنر جنرل نماز میں شریک ہوجائیں لیکن علامہ صاحب نے انکار کر دیا اور نماز شروع کروادی۔ ابھی نماز عید کا خطبہ جاری تھا کہ قائد اعظم عید گاہ پہنچ گئے۔ اگلی صفیں پر ہوچکی تھیں لہٰذا انہیں آخری صفوں میں جگہ ملی۔ وہ وہیں بیٹھ گئے اور نماز ادا کی۔ نماز کے بعد عملے کے کچھ لوگوں نے قائد اعظم کے کان بھرنا شروع کیے کہ علامہ صاحب کی ضد کی وجہ سے انہیں پچھلی صفوں میں نماز ادا کرنی پڑی۔ کان بھرنے والے لوگوں کو اس وقت سخت مایوسی ہوئی جب قائد اعظم نے کہا کہ پاکستان کو ایسے ہی علماء کی ضرورت ہے۔

میں نے ایک بار معروف صحافی مرحوم ضمیر نیازی سے جن سے میری بڑی نیاز مندی تھی قائداعظم کی دیگر تقاریرکا حوالہ دے کر بات کی تو انھوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا لے دے کے 11 اگست والی ایک تقریر ہے جس کو ہم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب اگر یہ تقریر نہ ہو تو ہم کیا کریں۔

دوسری جانب جب ہم نے تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی سے اس سلسلے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ایک تقریر کسی نظریے کے نفاذ کے لیے کافی نہیں۔ ہمیں اس خیال کو کہ پاکستان ایک غیر مذہبی اور آزاد خیال ریاست ہو بنیاد بنا کر کام کرنا چاہئیے۔

ممتاز دانشور ڈاکٹر مہدی حسن سے اس بابت سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ 11 اگست کے بعد کی تقریروں کو چھوڑیں چو ں کہ 11 اگست کی تقریر آئیں ساز اسمبلی سے کی گئی تھی، اس لیے یہ بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔

ہو سکتا ہے، چلو یہ بھی اچھا ہی ہوا کہ قائد اعظم نے یہ تقاریر 40 کی دہائی میں کی تھیں اگر حالیہ دور میں ہوتیں تو کوئی بھی وکیل کسی اعلیٰ عدالت میں ایک آئینی درخواست دے مارتا اور پھر جو زرداری صاحب کے ساتھ ہوا شاید قائدِ اعظم کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوتا۔ قائد کے وکیل کو بھی اعلی عدالتوں کو یہ یقین دہانی کرانی پڑتی کہ چوں کہ گورنر جنرل کا عہدہ غیر سیاسی ہے اور ملکہ برطانیہ کا نمائندہ ہے اس لیے آئندہ کوئی بھی سیاسی بیان نہیں دے گا۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔