شکر کی ڈلی اور زہر کی پڑیا
کبھی آپ کی ملاقات تبلیغی جماعت کے کسی رکن سے ہوئی ہے؟ انکا لہجہ کتنا نرم اور دوستانہ ہوتا ہے- اتنا زیادہ کہ اگر آپ ان کے ایمان کی حد سے زیادہ رسمی تشریح سے متفق نہ بھی ہوں تب بھی انکی باتیں سننے پر مجبور ہو جاتے ہیں، بھلے بعد میں آپ (نرمی کے ساتھ) معذرت کر کے وہاں سے اٹھ جائیں-
تاہم حال ہی میں جب ایک ٹی وی اینکر نے اسلامی تبلیغی تحریک کے لیڈر، طارق جمیل، پر ایک شو کیا جس میں ان کے بعض طریقہ کار پر تنقید کی گئی، تو سوشل میڈیا پر مذکورہ اینکرکے بارے میں ایسے بے لگام تبصروں کی بوچھاڑ کر دی گئی جو عام طور پر بدنام زمانہ 'پی ٹی آئی بدماشوں' کا خاصہ ہے-
غیر مہذب، بھدّا، توہین آمیز اور سراسر رجعتی- یہ سب دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ ذرا سی تنقید پر کتنی جلدی، تبلیغی جماعت کے ارکان اور ان کے حمایتی شرافت کا لبادہ اتار پھینکتے ہیں-
(لبرل) اینکر پر ہونے والا توہین آمیز حملہ اتنا شدید تھا کہ شو میں موجود دوسرا (قدرے قدامت پسند) اینکر یہ ٹویٹ کیے بغیر نہیں رہ پایا کہ، "طارق جمیل کوئی پیغمبر نہیں ہیں جن پر تنقید نہ کی جا سکے"-
گزشتہ سال، سابق وزیر داخلہ، رحمان ملک نے بھی تبلیغی جماعت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوۓ یہ دعویٰ کیا تھا کہ تبلیغی تحریک انتہا پسند تیار کر رہی ہے- ان کے اس بیان کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا تھا خصوصاً دائیں بازو کی اعتدال پسند پارٹی پی ایم ایل-این اور اسلامی جماعت جے یو آئی-ایف کی طرف سے-
پی ایم ایل-این کے شریف برادران کے تبلیغی جماعت سے قریبی رابطے ہیں جبکہ جے یو آئی-ایف بھی اسی سنی دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جس سے تبلیغی جماعت وابستہ ہے-
اس کے علاوہ تبلیغی جماعت کے ارکان کی ایک بڑی تعداد خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھتی ہے، وہ صوبہ جو جے یو آئی-ایف کا ووٹ بینک ہے-
ایک طویل عرصے سے، تبلیغی جماعت کو ایک ایسی معتدل تحریک کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے، جو خود کو سیاست اور عسکریت پسندی سے دور رکھتی ہے، جس کی توجہ، دیوبندی تعلیم کے مطابق 'درست' اسلامی رسومات اور لباس اور رسوماتی ساز و اسباب کی تبلیغ کی طرف مرکوز ہے-
تبلیغی جماعت کا قیام سنہ انیس سو بیس کی دہائی میں عمل میں آیا تھا جس کا مقصد برصغیر میں اسلام کو 'ہندو اور سکھوں کے اثر و رسوخ سے پاک' کرنا تھا-
تاہم، سنہ انیس سو سینتالیس میں قیام پاکستان کے بعد، تبلیغی جماعت ملکی شہریوں کے مقابلے میں بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی توجہ حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب رہی-
رائیونڈ، پنجاب سے تعلق رکھنے والی، تبلیغی جماعت کے ارکان کی تعداد اور اسکی اپیل، سنہ انیس سو ستتر میں رجعت پسند ضیاء الحق کے آمرانہ دور حکومت میں دگنی ہوگئی-
یہی وہ وقت تھا جب ضیاء الحق نے (افغانستان میں سوویت مخالف بغاوت کے لئے دیے جانے والے) سی آئی اے اور عرب فنڈز کا ایک حصّہ بڑی تعداد میں مدارس کی شکل میں عقائدی مراکز قائم کرنے کے لئے استعمال کیا-
تبلیغی جماعت کی قسمت کا چمکتا ستارہ درحقیقت ضیاء دور میں پھیلاۓ گۓ کٹر مذہبی رجحان کی پیداوار تھا-
سنہ انیس سو اسی کی دہائی کے اختتام تک، تبلیغی جماعت ملک کے تجارتی طبقے کو بھی اپنا رکن بنانے میں کامیاب ہوگئی، خصوصاً پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں-
انیس سو نوے کی دہائی میں اس جماعت نے پاکستان کے مالدار متوسط طبقہ کے بعض ممتاز حصّوں کی توجہ حاصل کرنی شروع کی جن میں پاپ موسیقار، ٹی وی فنکار اور بلآخر کرکٹر تک شامل ہوگۓ-
انیس سو اسی اور نوے کے درمیان پورا ملک (شیعہ-سنی) فرقہ ورانہ فسادات کی لپیٹ میں رہا جبکہ تبلیغی جماعت آزادانہ تبلیغ اور بھرتیوں میں مصروف رہی- یہ ہمیشہ سے ایک بے ضرر تحریک کی نظر سے دیکھی گئی جس کا کوئی سیاسی، فرقہ ورانہ یا عسکری مقصد نہ تھا-
جیسا کہ ملک کی اکثریت سنی فرقہ 'بریلوی' پر مشتمل ہے، انیس سو اسی، میں اس کے متوازی ایک اور تبلیغی تحریک ابھری- انیسویں صدی کے ہندوستان میں 'بریلوی اسلام' کا ظہور ہوا، اس میں سنی مسلم، تصوف اور لوک-اسلام کے ملے جلے عناصر تھے-
یہ بریلوی مذہب جنوب ایشیائی اسلام کی دیوبندی شاخ کے بالکل برعکس تھا، پچھلے ڈیڑھ سو سال سے یہ دونوں زیلی سنی فرقے، آپس میں مناظروں کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں-
دعوت اسلامی نام کی یہ نئی تبلیغی تحریک خود کو بریلوی اکثریت کے روحانی مفادات کا نمائندہ کہتی ہے- بظاہر غیر سیاسی نظر آنے والی اس تنظیم پر ایسے ارکان شامل کرنے کا الزام ہے جن کا تعلق بعض بریلوی عسکری تحریکوں کے ساتھ رہا ہے-
دو ہزار گیارہ میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو پر گولی مار کر ہلاک کرنے والا گارڈ بھی دعوت اسلامی کا رکن رہ چکا تھا-
دوسری جانب، جب رحمان ملک نے اس بارے میں بات کی، تو ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ پاکستانی حکومت کے کسی رکن نے تنظیم پر مختلف بنیاد پرست اسلامی تنظیموں کے لئے ممکنہ سپاہی تیار کرنے کا الزام لگایا-
اس حوالے سے خطرے کی گھنٹی سب سے پہلے چند مغربی تجزیہ نگاروں نے انیس سو نوے کی دہائی کے وسط اور آخر میں بجائی، جب پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی، آئی ایس آئی، کے سابقہ چیف لیفٹننٹ جنرل جاوید ناصر، تبلیغی جماعت کے سرگرم رکن بنے- یہی وہ وقت تھا جب تبلیغی جماعت نے پاک فوج میں اپنی راہ ہموار کرنی شروع کی-
کٹر نظریات کے حامل لیفٹیننٹ جنرل جاوید ناصر کی تبلیغی جماعت میں شمولیت کو محض اتفاق کی نظر سے دیکھا گیا اور تبلیغی جماعت آزادانہ اپنی تبلیغ اور بھرتیاں کرتی رہی-
لیکن الزامات (حالانکہ پاکستان میں انہیں دبا دیا جاتا تھا) مسلسل ابھرتے رہے- تبلیغی جماعت کا نام دہشتگردی کے کئی منصوبوں کے سلسلے میں سامنے آیا. جیسے امریکا میں اکتوبر سنہ دو ہزار دو میں (دی پورٹلینڈ سیون کیس) اور ستمبر سنہ دو ہزار دو میں لیکوانا سکس کیس.
ایک بار پھر اگست سنہ دو ہزار چھ میں لندن سے امریکا تک طیاروں کو بم سے اڑانے کے ایک منصوبے میں تبلیغی جماعت کا ذکر سامنے آیا، اس کے علاوہ لندن میں سات جولائی سنہ دو ہزار پانچ کے بم دھماکوں میں بھی تبلیغی جماعت کا نام لیا گیا-
تاہم، ایک تنظیم کی حیثیت سے تبلیغی جماعت پر، ان میں سے کسی بھی کیس میں براہ راست الزام ثابت نہ ہوسکا کیونکہ ان میں ملوث افراد کا تعلق مختلف تشدد پسند اسلامی تنظیموں سے تھا- تبلیغی جماعت کا نام صرف اسی صورت میں سامنے آیا جب مجرموں کے بارے میں یہ پتہ چلا کہ وہ عسکری تنظیموں میں شمولیت سے پہلے کسی نہ کسی مقام پر تبلیغی جماعت سے وابستہ ضرور رہے تھے-
دو ہزار آٹھ میں ہسپانوی پولیس نے چودہ ایشیائی مسلمانوں کو گرفتار کیا جو مبینہ طور پر اسپین میں مختلف علاقوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے- ان میں سے بارہ پاکستانی تھے- ہسپانوی مسلمان لیڈر کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ سب افراد ایک زمانے میں تبلیغی جماعت کے رکن رہے ہیں-
اگرچہ ماہرین انسداد دہشتگردی کی زیادہ توجہ عسکریت پسند گروہوں کے مطالعہ پر مرکوز رہی ہے، تقریباً گزشتہ پانچ سالوں سے ان میں سے کئی ماہرین نے تبلیغی جماعت جیسے تبلیغی گروپوں کی حرکات و سکنات کا مطالعہ بھی شروع کر دیا ہے-
انکا یہ ماننا ہے کہ باوجود اس حقیقت کے کہ تبلیغی جماعت کا بنیادی مقصد غیر سیاسی رہنا اور مکمل طور پر تبلیغی ہے، اس کی خفیہ ساخت اور خیر سگالی جو اسے پاکستانیوں کی اکثریت کے درمیان حاصل ہے، اس کی وجہ سے انتہا پسند عناصر کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ تبلیغی جماعت میں ہونے والی بھرتیوں کو اپنے متشدد مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کریں-
ان کا کہنا ہے کہ تبلیغی جماعت میں شامل ہونے والے نوجوانوں کو جماعت کی قدامت پسند سماجی واقفیت کی وجہ سے مذہبی پروپیگنڈا سے زیادہ خطرہ لاحق ہے-
رحمان ملک ہوا میں تیر نہیں چلا رہے تھے- وہ محض اس ملک کو لاحق ایک اور تشویش ناک صورت حال کی نشاندہی کر رہے تھے جو ایمان کے نام پر تشدد پھیلانے والے افراد کے ہاتھوں پہلے ہی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے-
ان کا بیان صرف اس لئے متنازعہ بن گیا کیوں کہ بہت کم پاکستانیوں کو تبلیغی جماعت کی اس صلاحیت کا اندازہ ہے جو نادانستگی میں گلی سڑی مچھلیوں کے ہاتھوں اپنے تالاب کو آلودہ کر رہی ہے-
ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: ناہید اسرار
تبصرے (8) بند ہیں