• KHI: Fajr 4:54am Sunrise 6:12am
  • LHR: Fajr 4:12am Sunrise 5:37am
  • ISB: Fajr 4:13am Sunrise 5:40am
  • KHI: Fajr 4:54am Sunrise 6:12am
  • LHR: Fajr 4:12am Sunrise 5:37am
  • ISB: Fajr 4:13am Sunrise 5:40am
شائع February 28, 2025

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


وہ تخت و تاج جن کی طاقت کو دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوتا کہ انہیں کبھی گرہن بھی لگ سکتا ہے مگر وقت کی آنکھیں صدیوں سے ان کمال و زوال کے شب و روز کو دیکھتی آئی ہیں۔ جب کوئی تخت پر بیٹھ کر یہ کہتا ہے کہ اس تخت کے پائے کبھی ڈول نہیں سکتے تب وقت کی آنکھوں میں ایک ایسی مسکراہٹ در آتی ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

سومرا اور سمہ دور حکومت کی مقامی حکومتوں کے بعد 1520ء میں ارغون، ترخان اور مغل سندھ پر حاکم رہے۔ ان کا زمانہ 100 یا 200 برس کے قریب رہا۔ اس کے بعد کلہوڑوں نے شمالی سندھ سے جنوبی سندھ تک اپنی حکومت قائم کی۔

جنوبی سندھ کے منظرنامے میں سب سے زیادہ اُتھل پُتھل غلام شاہ کلہوڑو کے دور حکومت (1757ء سے 1772ء) میں ہوئی۔ ایک طرف ماحولیات کے حوالے سے سندھو دریا کے بہاؤ میں تبدیلی آئی جس کا تفصیلی ذکر ہم کرچکے ہیں اور دوسری طرف سندھ کے شمال و مغرب میں ایران اور افغانستان میں سیاسی چپقلش تھی۔ یہ چپقلش تھی تو دور مگر ہمسایے میں تھی جبکہ سیاست کی آندھی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا کہ ان ہواؤں کا رخ کب اور کس وقت رخ بدل لے اور جنوب مشرق میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا مضبوط ہوتا سیاسی اور معاشی وجود تھا جو وقت کے ساتھ اور زیادہ طاقتور ہورہا تھا۔

سندھ کے حکمرانوں کی پوری کوشش رہی کہ وہ خود کو ان جھمیلوں سے الگ رکھ سکیں۔ مگر یہ سوچنا ایسا ہی تھا کہ جیسے کوئی سمندر کے بیچ میں ایک جزیرے پر بیٹھا ہو اور یہ سوچے کہ سمندر میں آیا ہوا طوفان اور لہروں کا طلاطم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جب وقت کی کوکھ میں سونامی پُھوٹ پڑتا ہے تب وہ نہیں دیکھتا کہ جزیرہ کُجا پہاڑ کُجا۔

18ویں اور پھر 19ویں صدی کا لُب لباب یہی ہے جس پر ہم آگے تفصیل سے حقائق بیان کرنے والے ہیں۔ لیکن پہلے ہم 18ویں صدی کے دوسرے نصف کے ابتدائی برسوں میں چلتے ہیں جہاں کراچی کے اردگرد کے ماحول کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے بھوجومل، اس کا خاندان اور مقامی ماہی گیر ایک قلعہ بنانے کا سوچ رہے ہیں۔

   بھوجومل کے بنائے گئے کراچی قلعہ کا اسکیچ
بھوجومل کے بنائے گئے کراچی قلعہ کا اسکیچ

ناؤنمل اپنے بزرگوں سے سنی ہوئی باتوں کو یاد کرتے ہوئے ہمیں بتاتے ہیں کہ ’ہمارا خاندان اور وہ دوسرے خاندان جو کھڑک میں بسے تھے وہ سب جب کھڑک سے نقل مکانی کرکے کراچی آچکے تب تحفظ کے لیے ایک قلعہ کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔ ہمارے بڑے بھوجومل نے آسودومل کو وہاں کی معزز عورت بی بی مُراداں کے پاس بھیجا اور اس سے مشورہ کیا کہ یہ بستی جو اب آہستہ آہستہ بڑھ گئی ہے، بیوپار بھی ہونے لگا ہے تو حالات سے تحفظ کے لیے ایک قلعے کی تعمیر ہونی چاہیے۔ بی بی مراداں اور ان کے ساتھیوں کو یہ بات پسند آئی کہ ایک بیوپاری گھاٹ کے لیے تحفظ ضروری ہے تو صلح مشورے کے بعد کراچی کے قلعے کی تعمیر شروع کر دی گئی۔ قلعے کی تعمیر کے لیے 35 ایکڑ کی اراضی مختص کی گئی‘۔

35 ایکڑ یا 70 جریب، اچھی خاصی بڑی اراضی ہوتی ہے۔ اس علاقے کے گرد لکڑیوں اور مٹی کے گارے سے دیواریں کھڑی کرنے اور پھر دو مرکزی دروازے اور توپوں کو رکھنے کے لیے برج بھی بنانے تھے۔ ہم اسے معمولی کام سے بالکل بھی تشبیہ نہیں دے سکتے، یہ ان دنوں کے وسائل کے حوالے سے ایک بڑا، محنت طلب اور بڑی لاگت کا پروجیکٹ تھا۔ اینٹیں استعمال نہیں کی گئیں تو تعمیر کے لیے لکڑیوں کو کئی ٹنوں کے حساب سے کاٹا اور جمع کیا گیا ہوگا۔

   سندھی ہندو بیوپاری ایک اسکیچ
سندھی ہندو بیوپاری ایک اسکیچ

ناؤنمل بتاتا ہے، ’قلعہ بنانے کے لیے تمر کے درختوں اور جھاڑیوں کو صاف کیا گیا۔ چونکہ کام زیادہ تھا تو قرب و جوار کی بستیوں سے لوگوں کو مزدوری کے لیے بھی بلایا گیا جنہیں مزدوری کے لیے مسقط کے سکے (جو ان دنوں مارکیٹ میں چلتے تھے) اور تازہ کھجور دی جاتی تھیں۔ کم وقت میں قلعہ تیار ہوگیا (اب ناؤنمل کے لیے کم وقت کے کیا معنیٰ تھے یہ مجھے معلوم نہیں لیکن آپ خود سوچیں 35 ایکڑ کے گرد ایک مضبوط اور لمبی چوڑی دیوار کھڑی کرنا جو اندازاً 5 ہزار فٹ بنتی ہے اسے بننے میں 6 ماہ تو یقیناً لگے ہوں گے یا شاید کچھ زیادہ وقت بھی لگا ہو) اور قلعے پر رکھنے کے لیے توپیں مسقط سے خریدی گئی تھیں۔ قلعے کے دو مرکزی دروازے تھے ایک مغرب کی جانب جسے کھارو در (کھارا در) اور دوسرا شمال مشرق کی جانب تھا جسے لیاری ندی کی وجہ سے مٹھو در (میٹھا در) کہا جاتا تھا۔ لوگ قلعے کے اندر رہتے تھے‘۔

   سروے کے بعد کارلیس کا بنایا ہوا کراچی اور اردگرد کا نقشہ
سروے کے بعد کارلیس کا بنایا ہوا کراچی اور اردگرد کا نقشہ

میں آپ کے تصور میں کراچی کے اس قلعے کی ایک تصویر بنانا چاہتا ہوں۔ اس حوالے سے آپ اس قلعے کا اسکیچ دیکھ پارہے ہیں اور ساتھ ہی میں یہاں آپ کو 5 فروری 1839ء کا مسٹر فریڈرک کی وہ تحریر کا ایک حصہ بھی سنانا چاہوں گا کہ جب کمپنی سرکار نے کراچی قلعے کو اپنی تحویل میں لیا تھا، وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے کراچی شہر اور قلعہ کا بڑے دھیان سے معائنہ کیا ہے۔ قلعہ بظاہر مضبوط بنا ہوا ہے۔ چاروں اطراف دور دور تک دیکھنے کے لیے ہر طرف برج بنے ہوئے ہیں۔ ہر ایک برج میں ایک یا دو توپیں رکھی ہوئی ہیں۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ کئی برسوں سے یہاں پر پڑی ہوئی ہیں۔ دیواریں لکڑی اور مٹی کی بنی ہوئی ہیں جبکہ برجوں میں لکڑیوں کا استعمال کچھ زیادہ ہے۔ قلعے کی دیواریں 16 فٹ اونچی ہیں اور ہاتھوں سے بنائے پشتے پر بنائی گئی ہیں جو پشتے سے 10 فٹ اونچی ہیں۔

’برج اور دیواریں اب خستہ ہو رہی ہیں۔ دیواروں میں کئی مقامات سے لکڑیوں کے بیچ میں سے مٹی گر گئی ہے تو لوگ ان سوراخوں سے آتے جاتے ہیں۔ قلعے کے دو شاہی دروازے ہیں جن کے اوپر بھی برج بنے ہوئے ہیں، برجوں پر بلوچ پہرہ دینے والے رہتے ہیں۔ قلعے کے بندر کی طرف میٹھا پانی نہیں ہے۔ اس لیے پانی کشتیوں سے یا کنوؤں سے منگوانا پڑتا ہے۔ یہاں میٹھے پانی کے بہت کنویں ہیں۔ اکثر کنویں باغوں میں ہیں، پانی زمین کی سطح سے 10 یا 12 فٹ گہرائی میں مل جاتا ہے۔ پانی کی سہولت دیکھ کر ہم کو تعجب ہوا کہ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ کراچی میں پانی کڑوا ہے‘۔

   کراچی سمندر کنارے ماہی گیروں کی بستی ایک اسکیچ
کراچی سمندر کنارے ماہی گیروں کی بستی ایک اسکیچ

مٹی کی کوئی بھی طویل اور کھلی تعمیر دھوپ اور بارش میں 80 برس تو دور کی بات ہے، اگر اس کی مسلسل دیکھ بھال نہ کی جائے تو 10 برس تک درست حالت میں نہیں رہ سکتی۔ ہمیں جو مسٹر فریڈرک کراچی کے قلعے کی آنکھوں دیکھی حقیقت بتا رہے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ اس دیوار کی مسلسل مرمت ہوتی رہی ہوگی اور ہر چوتھے یا پانچویں برس آسمان سے بہت پانی برستا ہے جس میں اس طویل دیوار کے کئی حصے گرتے بھی رہے ہوں گے جنہیں مسلسل بنایا جاتا رہا ہوگا۔

مگر لگتا ہے کہ تالپوروں کی حکومت کے آخری برسوں میں کراچی کے اس قلعے پر دھیان نہیں دیا گیا تھا کیونکہ کچھ مذہبی مسائل نے کراچی میں جنم لیا۔ کچھ سیاسی حالات پریشان کن تھے۔ کچھ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے وہ اپنائیت والی کیفیت بھوجوانی فیملی سے کم ہوگئی ہوگی۔ بہرحال یہ 19ویں صدی کی باتیں ہیں جو ہم یہاں نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ان دنوں ہم 18ویں صدی کے آخر میں آ پہنچے ہیں۔

بقول ناؤنمل، ’بھوجومل 1782ء میں یہ جہان چھوڑ گیا اس کے چار بیٹے دریانومل، لعل منداس، ٹھاکرداس اور بلرام داس تھے جنہوں نے اپنے کاروبار کو بہت کامیابی سے چلایا، ہمارے پاس کراچی کی بڑی بیوپاری کوٹھی کے پاس بیوپار کے لیے مختلف سائز میں 50 مقامی کشتیاں تھیں جو ہندوستان کی بندرگاہوں کے لیے کرائے پر سامان لے جاتیں اور لے آتی تھیں۔ اس کے علاوہ یہ کشتیاں عربستان، ایران اور بلوچستان کے کناروں کے لیے بھی کرائے پر سامان لے جاتی تھیں۔

’اس کے علاوہ ہمارے خاندان کے پاس یورپی طرز کے بڑے جہاز بھی تھے جن کا تعلق ہماری مسقط اور کلکتہ والی بیوپاری کوٹھیوں سے تھا۔ دوارکا جزیرے کے قرب و جوار میں سمندری قزاقوں کا راج تھا تو ان سے بچنے کے لیے ہر ایک جہاز پر توپیں لگی ہوتی تھیں اور ساتھ ہی بارود اور جنگی ہتھیار بھی موجود ہوتے تھے۔ چھوٹے جہازوں پر تین تین اور بڑے جہازوں پر 12 سے 15 توپیں ہوتی تھیں‘۔

   دوارکا جزیرہ
دوارکا جزیرہ

ہم کچھ دیر کے لیے ناؤنمل سے الگ ہوتے ہیں اور میرے سامنے 18ویں صدی کے دوسرے نصف 1760ء سے 1780ء کا کمپنی سرکار کا ریکارڈ موجود ہے جس میں 1760ء کا ایک خط جو شاہ بندر میں قائم کمپنی کوٹھی کے آفس سے تحریر کیا گیا تھا جس کی تحریر کچھ اس طرح ہے، ’مسقط کے امام جس کے دو جہاز اِس وقت کراچی-دھارجا سے 20 میل دور مغرب میں کھڑے ہیں اور ہم نے سنا ہے کہ امام کا گماشتہ، کم کوالٹی والا، سادہ اور صاف نہ کیا ہوا شورہ Potassium nitrate خرید رہا ہے جیسا کہ غلام شاہ کلہوڑو اور امام کے آپس میں اچھے اور دوستانہ تعلقات ہیں تو انہیں روکنا ممکن نہیں ہوگا‘۔

کمپنی کے ریکارڈ میں ایک اور تحریر موجود ہے جو جمعہ کے دن 22 اکتوبر 1762ء کو بمبئی آفس کو تحریر کی گئی تھی۔ ’کمپنی ہندو دلالوں کی معرفت بیوپار کرتی ہے جن میں سے بہت سے نام ریکارڈ پر موجود ہیں، ٹھٹہ سے بمبا (کمپنی کا ٹھٹہ میں وکیل) کا مشورہ موصول ہوا ہے کہ ایک کشتی کے مالک نولداس سے کراچی سے بمبئی سامان لے جانے کے لیے بات چیت ہوگئی ہے۔ وہ ایک من کا 67 روپے کرایہ لے گا جو برابر ہیں نادرشاہی 52 روپے کے مگر نولداس سے بات اس طرح ہوئی ہے کہ پٹسن تولا اور لادا جائے گا ٹھٹہ کے بندر سے جس پر وہ سہمت ہے‘۔

اس تحریر سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ابھی مرکزی بیوپار کی منڈی ننگر ٹھٹہ، لاہری، اورنگا بندر پھر شاہ بندر اور دوسرے بندر تھے۔ کراچی بندر 1760ء کے ابتدائی برسوں میں آگے بڑھنے کی جدوجہد کر رہی تھی۔ پاٹنجر نے یہ کہا تھا کہ یہ بات دماغ سے نکال دینی چاہیے کہ جب کمپنی کی کوٹھیاں سندھ میں نہیں تھیں تو بیوپار نہیں ہوتا تھا۔ ایسا بالکل بھی نہیں سوچنا چاہیے کیونکہ یہاں کے بندرگاہوں کی درآمدات و برآمدات سورت، احمد آباد اور بمبئی سے مسلسل بڑھ رہی تھیں۔

1792ء میں ابھی کچھ برس ہیں جب تالپوروں نے کراچی قلات سے واپس لیا۔ کراچی کو واپس لینے کی دلچسپ کہانیاں ہیں جو میں آپ کو ضرور سناؤں گا کہ تالپوروں کو کتنی مُشکلات کے بعد قبضہ ملا۔ مگر اس سے پہلے کچھ ذکر 1774ء کا کرلیتے ہیں جس برس بمبئی میں سندھو ندی اور خلیج فارس کے درمیان والے ساحلی علاقے کے سروے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اسی سروے کے لیے دو جہاز جن میں سے ایک کا نام The Fox تھا۔ اس کے انچارج کپتان لیفٹیننٹ رابنسن (C.L. Robinson) تھے جبکہ The Dolphin نامی دوسرے جہاز کا انچارج لیفٹیننٹ پورٹر (Lt.Porter) تھا۔ یہ جہاز کیا ماڑی پر آ کر لنگر انداز ہوئے۔

جہاز سے ایک آدمی کو شہر کی جانب بھیجا گیا کہ وہ جا کر دیکھ آئے کہ شہر کے کیا حالات ہیں۔ جانے والے نے اس قلعے کو دیکھا جس کے اندر شہر تھا، قلعے کے اردگرد شاید تمر کے تیز رنگ والے درختوں کی ہریالی تھی۔ قلعے کے تحفظ کے لیے فوجی مقرر تھے جو اپنی ڈیوٹی پر مامور تھے اور حفاظت کرنے کے کام کو بہتر طریقے سے انجام دے رہے تھے۔ یہ سب جہاز سے جانے والا شخص دیکھ رہا تھا تو اسے قلعے کے محافظوں نے جانے کی سخت ہدایات دیں اور نہ جانے کی صورت میں اسے سخت نتائج بھگتنے کی دھمکی دی۔ یہ رپورٹ اس نے آکر پورٹر اور رابنسن کو دی تھی۔

   مسٹر مسکال کا 1774ء میں سروے کے وقت بنایا ہوا کراچی کا نقشہ
مسٹر مسکال کا 1774ء میں سروے کے وقت بنایا ہوا کراچی کا نقشہ

یہ حوصلہ افزا رپورٹ نہیں تھی اس لیے کچھ دن یہاں رکنے کا فیصلہ کیا گیا کہ اچھی طرح اس جگہ اور کنارے کا جائزہ لیا جا سکے۔ تیسرے دن قلعے سے ایک آدمی ان کے پاس آیا کہ وہ دیکھ سکے کہ یہ گورے یہاں کیوں رکے ہوئے ہیں اور ان کی نیت کیا ہے۔ جب ان کا آمنا سامنا ہوا تو جو گفتگو ہوئی وہ کچھ اس طرح سے ہو سکتی تھی،

’اس جگہ کو کیا کہتے ہیں؟‘ مسٹر مَسکال نے اشاروں اور آواز پر زور دے کر پوچھنے کی کوشش کی۔

’کلاچی کوٹ‘، مقامی آدمی نے جواب دیا۔

’کیا؟ مطلب تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘

’کلاچی کوٹ۔۔۔ یہ علاقہ کسی کی ذاتی ملکیت ہے اور بغیر اجازت کے آنا اور ملا ہوا حکم نہ ماننے کی صورت میں گولی سے مار دیا جائے گا‘، کوٹ سے آنے والے شخص نے کہا۔

مَسکال کو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ ’ہیلو، تم کہتے ہو کلاچی کوٹ؟ اس کا کیا مطلب ہوا؟ اس شہر میں ہوتا کیا ہے؟‘

بہرحال مَسکال کو جو سمجھ میں آیا وہ اس نے کچھ اس طرح نوٹ کیا، ’کولنجی؟ (Kolonji) یا کرانچی (Karanchi) باقی آئندہ معلوم کیا جائے گا‘۔

ممکن ہے کہ وہاں صورت حال کچھ زیادہ سنجیدہ ہوگئی ہو اور زیادہ بات چیت کرنا ممکن نہ رہا ہو اسی لیے مَسکال کو مکمل یا درست نام معلوم نہیں ہوسکا مگر ہمارے پاس جو 1774ء کا مَسکال کا نقشہ موجود ہے اس پر جو تحریر ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے، CROTCHNY BAY. SCINDY BAR. 1774.

جو بھی تھا مسٹر مَسکال اور مسٹر پورٹر کو کلاچی یا کراچی کا نام نہ مل سکا اس لیے اس نقشے پر درست نام تحریر نہ ہو سکا جو سروے کرنے والوں کے لیے بھی حیرت انگیز اور پریشان کن وقت رہا ہوگا۔ ہمارے لیے بھی یہی معاملہ ہے کیونکہ یہ وہ برس تھے کہ جب کمپنی کے ریکارڈ میں 22 ستمبر 1758ء کا ایک حکم نامہ موجود ہے جو کمپنی کو دی گئی رعایتوں کے حوالے سے ہے جس میں ڈیلٹا کے کمپنی ریزیڈنٹ اہلکاروں کے علاوہ کسی اور کو سندھ میں بیوپار کرنے سے روکا گیا تھا۔

یہ فرمان سندھ حکومت نے اپنے اہم کارندوں، گھاٹوں اور بندرگاہوں کے لیے جاری کیا تھا اس میں کراچی کا نام ’کراچی-دھاراجا‘ کے طور پر تحریر کیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسٹر مَسکال کے اس سروے میں کچھ بنیادی تکنیکی کمزوریاں تھیں جس کی وجہ سے وہ درست نام نہ جان سکے۔

اس سروے کے ایک برس بعد یعنی 1775ء میں یہاں کی تجارت کے متعلق دلچسپ ریکارڈ مسٹر کالینڈر (Mr. Callender) ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ مسٹر کالینڈر میاں سرفراز کلہوڑو کے دورِ حکومت میں سندھ آیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’ننگر ٹھٹہ اور شکارپور کے درمیان ایک زمانے میں بہت کاروبار ہوتا تھا۔ شکارپور سے بیوپاری جو چیزیں لاتے تھے ان میں شالیں اور زیورات خاص تھے۔ دوسرے ممالک سے آئی ہوئی چیزیں ٹھٹہ سے شکارپور لے جاتے تھے مگر یہاں کی حکومت نے نہایت بھاری محصول لاگو کیا ہوا ہے۔

’ہر شہر کے لیے یہ محصول الگ الگ ہیں، اس وجہ سے گزشتہ 8 یا 10 برسوں سے ننگر ٹھٹہ کی مارکیٹ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اب بیوپارCrotchy ( کراچی )منتقل ہو رہا ہے اور جہاں سے بیوپاریوں کے لیے راستہ اس شہزادے بادشاہ (میاں سرفراز کلہوڑو) سے زیادہ محفوظ ہے۔ یہاں میں بتاتا چلوں کہ کراچی سے گزرتے ہوئے بیوپار کو قندھار (افغان) حکومت کا تحفظ حاصل ہے۔ کراچی کے راستے جو بیوپار ہوتا ہے اس پر سے لیے گئے محصول سے ڈھائی فیصد شہزادے میاں سرفراز کی حکومت کو ادا کیا جاتا ہے اور یہاں کم سے کم محصول 15 فیصد تو ضرور ہے‘۔

   میاں سرفراز کلہوڑو کی آخری آرامگاہ، حیدرآباد
میاں سرفراز کلہوڑو کی آخری آرامگاہ، حیدرآباد

زیادہ محصول کی وصولی جس کا ذکر مسٹر کالینڈر نے کیا ہے یہ حقیقت کا ایک رُخ ہے کیونکہ کلہوڑا دور حکومت میں ہرات اور کابل کو جو سالانہ خراج دینا پڑتا تھا، اس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے، 21 لاکھ (نادر شاہ کو 1739ء)، 14 لاکھ (احمد شاہ کو 1747ء)، 11 لاکھ (احمد شاہ کو 1760ء)، 7 لاکھ (تیمور شاہ کو)۔ ایچ-ٹی-سورلے لکھتے ہیں کہ ’کلہوڑوں کے لیے سب سے بڑی مشکل اور مصیبت افغان کا سالانہ خراج تھا۔ کلہوڑے اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ یہ بوجھ جتنا کم ہوسکے اچھا ہے۔ ان کے زمانوں میں کمپنی جو بیوپار کر رہی تھی، وہ شورہ سندھ سے خریدتے اور اونی کپڑا وہ افغانیوں کو فروخت کرتے تھے۔

’ایسی صورت حال میں سندھ کے حکمرانوں کو بیوپار میں رخنہ ڈالنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ کلہوڑا چاہتے تھے کہ خراج کے ایک حصے کو طور پر افغانیوں کو اونی کپڑا دیا جائے جو کمپنی سے سستا خرید کر افغانیوں کو مہنگی داموں میں فروخت کیا جا سکتا ہے جبکہ افغان چاہتے تھے کہ وہ کپڑا براہ راست کمپنی سے خریدیں۔ یہی وہ اسباب تھے کہ مفادات کے ٹکراؤ کا تکون سا بن گیا کیونکہ کمپنی بھی چاہتی تھی کہ گرم کپڑا افغانی براہ راست ان کے گماشتوں سے ہی خریدیں جبکہ کلہوڑا سرکار بیوپار کو اپنے سرحد کے اندر ہی رکھنا چاہ رہی تھی کہ وہ اونی گرم کپڑا خود خریدیں اور زیادہ منافع کما سکے تاکہ خراج کا بوجھ ہلکا ہو۔ اب افغان یہ سوچنے لگے تھے کہ بیوپار کے لیے کراچی، مکران اور قلات والا راستہ اختیار کیا جائے جس سے انہیں یہ فائدہ پہنچے گا کہ کلہوڑوں کے کئی محصول وصول کنندگان سے جان چھوٹ جائے گی اور سامان سستا پڑے گا‘۔

   ایسٹ انڈیا کمپنی کا لوگو
ایسٹ انڈیا کمپنی کا لوگو

مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا شاید جب کمپنی سرکار ہندوستان میں مرہٹوں کو نظام اور حیدر علی کے اتحاد کو پاش پاش کرنے کے لیے بمبئی میں سازش تیار کر رہی تھی، انہی دنوں یعنی 1773ء میں احمد شاہ ابدالی نے اکتوبر کے مہینے میں یہ جہان چھوڑا۔ ابدالی کے بعد افغانوں میں اندرونی خلفشار نے جنم لیا اور اس خلفشار کی وجہ سے سندھ کی حکومت سے خراج دینے کا جو سخت دباؤ تھا وہ بہت حد تک کم ہوگیا اور کلہوڑوں نے کچھ حد تک چین کی سانس لی۔

حالات اونٹ کی کروٹ کی طرح ہیں جو نہ جانے کس طرف کروٹ بدل لیں۔ یہاں بھی حالات کے آسمان کا رنگ تبدیل ہورہا ہے۔ وہ وقت بہت قریب آنے والا ہے جب کمپنی سرکار سندھ میں بظاہر بیوپاری کے روپ میں کراچی میں بیوپاری کوٹھی کھولے گی مگر یہ کوٹھی آنکھوں کا دھوکہ ثابت ہونے والی ہے۔ کراچی میں کمپنی سرکار کی پہلی کوٹھی کی افتتاحی تقریب میں جلد ہی ملتے ہیں۔

حوالہ جات

  • Memoirs of Seth Naomul Hotchand, CS.L, Of Karachi. 1804-1878. Rao Bahadur Alumal Tikamdas Bhojwani. 1915.
  • Shah Abdul Latif of Bhit. Herbert Tower Sorley. Oxford, London. 1940.
  • Kurrachee: Past, Present and Future. Alexander F. Baillie. Culture Department Sindh. 2022.
  • ’سندھو گھاٹی اور سمندر‘ ۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔