کیا جنگ بندی کے بعد غزہ کا کنٹرول فلسطینی سنبھالیں گے؟
حال ہی میں بن یامن نیتن یاہو امریکی کانگریس میں ایسے داخل ہوئے کہ گویا انہوں نے کوئی معرکہ سر کیا ہو۔ ان کی 60 منٹ کی تقریر کے دوران کانگریس اراکین نے ان کے لیے 50 بار پُرجوش انداز میں تالیاں بجائیں۔ اراکین نے زیادہ جوش سے تالیاں اسی لیے بجائیں کیونکہ اسرائیلی گروپ کی جانب سے انہیں ڈالرز ملتے ہیں۔
دوسری جانب بہت سے کانگریس رہنماؤں نے کانگریس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جبکہ اس موقع پر راشدہ طالب اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف احتجاج کرنے والی ایوان کی واحد رکن تھیں۔ اس تمام معاملے سے یہی تاثر ملا کہ اسرائیل جس قدر نسل کشی کا مرتکب ہے، اس کی اتنی ہی ذمہ داری امریکا پر بھی عائد ہوتی ہے۔ پاکستانی کی نظر سے دیکھیں تو یہ دونوں پالیسیز کے معاملے میں ایک ہی کشتی پر سوار ہیں۔
اسی دوران دنیا کے دوسری حصے بیجنگ میں حماس اور الفتح کے رہنماؤں کی ملاقات ہوئی۔ ایک دوسرے کے دشمن سمجھے جانے والے دو فلسطینی دھڑوں نے چینی حکومت کی سرپرستی میں قومی اتحاد کے معاہدے پر دستخط کیے۔ حماس، الفتح اور 12 دیگر فلسطینی گروہوں نے ’عبوری قومی مصالحتی حکومت‘ کی بنیاد رکھنے پر اتفاق کیا جو جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرے گی۔
حماس جو الفتح کی فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل کا اتحادی سمجھتی ہے، اس معاہدے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ حماس اور الفتح کے ماتحت فلسطینی اتھارٹی کے درمیان مسائل حل ہوچکے ہیں مگر اس معاہدے نے جنگ کے بعد غزہ کے حوالے سے امریکا اور اسرائیل کے مجوزہ منصوبے کو روک ضرور دیا ہے۔
اگرچہ بنیامن نیتن یاہو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ غزہ براہِ راست اسرائیل کے کنٹرول میں ہو لیکن وہ ’متعصب‘ فلسطینی حکومت کی موجودگی کا آپشن بھی مدنظر رکھے ہوئے ہیں جس کا جھکاؤ اسرائیل کی جانب ہو۔ اس کے علاوہ بھی دیگر متعدد تجاویز ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ امریکا اور اسرائیل غزہ کے حوالے سے کیا ارادے رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر گمنام اسرائیلی اہلکاروں نے عندیہ دیا کہ شاید ’وہ حماس کی جانب سے غزہ کی پٹی کے کلیئر کروائے گئے علاقے فلسطینیوں کو واپس کرسکتے ہیں‘۔ یہ بیان اس بات سے مطابقت رکھتا ہے کہ غزہ سے حماس کا خاتمہ کرنے کے بعد امریکا فلسطینی اتھارٹی کو بحال کرنے پر تبادلہ خیال کررہا ہے کہ انتظامی معاملات میں وہ کسی حد تک شریک ہوں۔
ابتدائی طور پر حماس اور اسرائیل دونوں نے اس تجویز کو مسترد کردیا تھا لیکن اسرائیلی میڈیا کے مطابق ’غیررسمی‘ طور پر نیتن یاہو نے اس منصوبے میں دلچسپی لی، تاہم یہ دلچسپی محض امریکا کے لیے بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم بیجنگ معاہدے کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو علاقے واپس کرنے اور اسے اپنے ماتحت کرنے کے اسرائیلی منصوبے پر عمل درآمد ناممکن لگ رہا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے قتل و عام کا سلسلہ نہیں روکے گی اور نہ وہ مغربی کناروں پر غیرقانونی آبادکاری، فلسطینی زمینوں پر قبضے سے باز آئے گی۔ 7 اکتوبر کے بعد سے ان سب میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرِکنٹرول مغربی کنارے میں حماس کی حمایت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے جہاں 82 فیصد فلسطینیوں نے پولز میں بتایا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حماس حملے ہر مجبور کیوں ہوا جبکہ 88 فیصد نے صدر محمود عباس سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی سیاسی اہلیت اب وہ نہیں رہی کہ غزہ پر حکومت کرسکے۔
اس سے قبل بھی اسرائیل کا ایک اور آپشن ختم ہوگیا تھا۔ یہ آپشن غزہ کے علاقوں کا کنٹرول مقامی قبائل کو دینے کا تھا جو غزہ پر حکومت کرتے، غزہ میں حماس کی باقیات کو اسرائیلی امداد سے دبا کر رکھتے اور تل ابیب کے لیے ثالث کے طور پر کام کرتے۔
غزہ میں اثر و رسوخ رکھنے والے بہت سے قبائل اور بڑے خاندان بستے ہیں۔ کچھ قبائل قانون کی پاسداری کرتے ہیں جبکہ کچھ ڈوگمش قبیلے کی طرح بدنام بھی ہوتے ہیں جو خاص طور پر حماس کے ٹیک اوور کے بعد افراتفری کے دوران قتل، اغوا اور دھوکا دہی میں ملوث ہوتے ہیں۔
حماس کو احساس ہوا کہ ساکھ کنٹرول بنانے سے بنے گی، اس نے ڈوگمش جیسے انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کی اور جرائم میں ملوث افراد کو سرعام سزائے موت دی جبکہ ان لوگوں کو بھی سزا دی جنہوں نے حماس رہنماؤں پر حملے کیے اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کیا۔ 2017ء میں ہشام العلول نامی مجرم نے پھانسی سے قبل الزام عائد کیا تھا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے اسے دھوکا دیا۔
حماس کی موجودہ صورتحال اور غزہ کی حالیہ تباہی کے پیش نظر، اسرائیل میں چند حلقوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سال کے آغاز میں مذکورہ منصوبے پر عمل درآمد کے لیے غور کریں گے اور ڈوگمش قبیلے کے ممبران کو اپنا اتحادی بنائیں گے۔
حماس کی جانب سے ردِعمل سامنے آیا اور مارچ میں حماس نے کارروائی کرتے ہوئے ڈوگمش قبیلے کے اہم رہنما کو سزائے موت دی۔ اس کے بعد فلسطینی قبائل کے سربراہان کی جانب سے مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں قبائل، خاندانوں نے بیرونی طاقتوں کی جانب سے حکومتی قوت کے طور پر استعمال ہونے کے امکان کو مسترد کیا۔
اس بیان کے فوراً بعد غزہ میں حماس کے سیاسی بیورو کے ایک اعلیٰ رکن باسم نعیم نے اعلان کیا کہ تمام فلسطینی قبائل نے ’صہیونی پیشکش کو مسترد کردیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس طرح کی پیش کش اور منصوبے بدنیتی پر مبنی ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کو تقسیم کرنا ہے‘۔
صرف بیان ہی نہیں بلکہ ہم نے کارروائی بھی دیکھی اور الفتح نے متعدد قبائل، سول سوسائٹی اور دھڑوں سے تعاون کرکے امدادی قافلوں کو تحفظ فراہم کیا جنہیں اسرائیل متعدد بار اس بہانے سے نشانہ بنا چکا ہے کہ نقل و حمل کے لیے حماس کے رہنما ان ٹرکوں کا استعمال کررہے ہیں۔
اس سے ایک ’ملٹی نیشنل‘ یا ’عرب/مسلمانوں کی زیرقیادت‘ سیکیورٹی فورس کے تصور کو بھی تقویت مل سکتی ہے جو اچانک سامنے آکر غزہ کا کنٹرول سنبھال سکتی ہے۔ اب تک اس معاملے میں مبینہ طور پر دلچسپی محض متحدہ عرب امارات نے دکھائی ہے جوکہ اسرائیل کا عرب اتحادی ہے۔
تو ایسے میں مسلم یا عرب کی زیرقیادت سیکیورٹی فورس کے غزہ کا چارج سنبھالنے کے تصور کو ہزاروں فلسطینی بے گناہ بچوں کی طرح مردہ ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔